پہلی بار افغان حکومت ان کے
عسکری حریف طالبان اور سیاسی حریف شمالی اتحاد ایک ہی جگہ مذاکرات کےلئے
بند کمرے میںاکھٹا ہوئے۔طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد متحارب گروپوں کے
درمیان گو کہ باضابطہ مذاکرات نہیں تھے تاہم پیرس کا نفرنس کے منتظم "تھنک
ٹینک فاﺅنڈیشن فارسٹریجک ریسرچ" نے اس ملاقات کے اہتمام میں افغانستان میں
قیام امن کےلئے ایک راستہ ضرورمتعین کردیا ہے۔پیرس کانفرنس کا باقاعدہ
اعلامیہ تو جاری نہیں کیا گیا لیکن طالبان(افغانستان) نے اپنی ویب سائٹ پر
وہ بیان جاری کیا گیا جو ان کے نمائندوں نے کانفرنس کے شرکا ءکے سامنے پیش
کیا تھا ۔بیان کے مطابق "حقیقی امن افغانستان پر قبضے کے اختتام کے بعد ہی
قائم ہوسکے گا ۔ کوئی بھی طاقت کسی دوسری طاقت پر قابض نہیں ہوپائے گی اور
یہ غیرذمہ دارانہ اورغیر قانونی معائدوں پر دستخط کرنے سے ممکن نہیں ہوسکے
گا،طالبان کے نزدیک امن کی کوشش مخلص نہیں ،امن سب کی مجموعی ذمے داری ہے ۔
عملی اقدامات کے ذریعہ اس کو یقینی بنانا ہوگا کہ جنگ کی جگہ امن کو ترجیح
دی جائے۔ طالبان کا موقف ہے کہ جب تک مجاہدین جیلوں میںہیں اور ان پر تشدد
کیا جا رہا ہے ، حقیقی امن ناممکن ہے۔تحریک طالبان کیجانب سے جاری بیان میں
یہ نقطات نہاےت اہمیت کا حامل ہیں " مجاہدین پرجیلوں میں تشدد اور غیر
قانونی معائدوں پر دستخط کے باعث ، حقیقی امن ناممکن ہے۔"۔افغانستان نے
امریکہ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ افغان قیدیوں کو اپنی قید میں رکھنے کے
بجائے ان کے حوالے کریں ۔اطلاعات کے مطابق سو سے زائد اہم طالبان رہنما
ءپاکستان کی مختلف جیلوں میں بھی قید ہیں۔ دو مرتبہ ، امن کے نام پر طالبان
سے مذاکرات کےلئے پاکستان نے اٹھارہ طالبان رہنماﺅں کو بھی پاکستانی جیلوں
سے رہائی دی۔لیکن طالبان کیجانب سے مزید طالبان کی رہائی کےلئے دباﺅ ڈالا
جارہا ہے کہ حقیقی امن کےلئے طالبان کی رہائی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔تحریک
طالبان(افغانستان) غیر ملکی افواج کی موجودگی میں انتخابات کو تسلیم کرنے
کے بجائے اس بات پر مصر ہے کہ پہلے امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلاہو ،
جس کے بعد وسیع البنیاد حکومت کا قیام ، افغان ماہرین کے زیر نگرانی نئے
آئین کے تحت سے ممکن ہوسکتا ہے۔فرانس کے دارلحکومت پیرس میں بارہ سال میں
پہلی مرتبہ طالبان کیجانب سے قطر میں قائم ان کے سیاسی دفتر کے سنیئر
ممبران شہاب الدین دلاور ، نعیم وردگ ،گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے
غیرت بہیر ، نیشنل فرنٹ کی جانب سے احمد ضیا ءمسعود ،محمد محقق اور جنرل
دوستم جیسے شمالی اتحاد کے سابق ارکان ،افغان حکومت کی جانب سے صدر کرزئی
کے مشیر حاجی دین محمد اور امن کونسل کے سینئر ممبر معصوم سٹنکزئی نے شرکت
کی۔پاکستانی فوج کیجانب سے افغان پالیسی میں تبدیلی پیدا ہورہی ہے جس کے
تحت پاکستانی جیلوں میں قید افغان طالبان کو رہائی ملی ، لیکن اس کے باوجود
پاکستان میں قیام امن کےلئے افغان حکومت کیجانب سے اُس قدرتعاون نہیں کیا
جارہا جس کا پاکستان مطالبہ کرتا رہا ہے ۔ خاص کر در اندازوں کی پاکستان
میں افغان سرحدیں علاقوں سے بلا روک ٹوک آمد اور انھیں روکنے میں ناکامی کے
علاوہ بلا اشتعال افغان افواج کیجانب سے مختلف کاروائیاں ، جس میں حالیہ
پاکستانی محنت کشوں پر تشدد، افغان حکومت کی غیر سنجیدگی کا واضح اظہار
ہے۔اس بات میں کوئی دو مختلف رائے نہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں
لڑی جا رہی ہے ، گو کہ یہ جنگ اب پاکستان کی جنگ بن چکی ہے لیکن اس کا سرا
افغانستان میں پائدار حکومت کے قیام اور امریکی اتحادی افواج کی افغانستان
سے رخصتی پر منحصر ہے۔پاکستان کی خوائش ہے کہ افغان حکام اپنے روڈ میپ کے
مطابق2014میں نیٹو فوج کے انخلا کا انتظار کرنے کے بجائے اگلے برس کے اوائل
تک ہی معائدہ کرلیں۔ایسے معائدات کوہی طالبان" غیر قانونی معائدوں پر دستخط
"قرار دے رہا ہے ۔امریکہ نے پہلی بار طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرلیا
ہے یہی وجہ ہے کہ سہ فریقی ممالک (امریکہ ، افغانستان اور پاکستان) کے
درمیان مذاکرات کا عمل جو سست روی کا شکار تھا اس میں تیزی دیکھنے میں آئی
لیکن ان کوششوں کو ایک افغان خودکش حملہ آور کے ہاتھوں افغان انٹیلی جنس کے
سربراہ پر حملے کے بعدا فغان حکومت کیجانب سے ایک بار پھر پاکستان پر
الزامات سے دھچکا پہنچا ہے۔ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسوں کی بنا ءپر
پاکستانی عوام کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے اور سوائے مذاکرات کے
پاکستان کے پاس دوسرا چارہ کار بھی نہیں ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ شمالی وزیر
ستان میں پاکستانی فوج طوےل محاذ میں الجھنے کے بجائے ایسے اقدامات کو
ترجیح دے رہی ہے جس سے افغان سرحدوں سے طالبان پاکستان میں نئی بھرتیوں میں
کمی واقع ہوسکے ، لیکن اب تک پاکستان کو اس میں ناکامی کا سامنا ہے کیونکہ
پاکستان کے کونے کونے میں گوریلا جنگ نے جہاں سیاسی قیادتوں کو منقسم
کردیاہے تو دوسری جانب پاکستانی فوج اپنی عوام کے اندر گھسے ایسے عناصر
کےخلاف بھر پور کاروائی کرنے کے سخت فیصلے پر متفکر ہے۔قبائلی علاقوں سے
لاکھوں افراد کی پاکستان کے مختلف علاقوں ، خاص کر کراچی منتقلی میں ایسے
عناصر محفوظ پناہ گائیں حاصل کرچکے ہیں جسکے بعد حکومت اور فوج کےلئے شمالی
وزیر ستان مین آپریشن کے بعد ، کراچی لوہے کا چنا ثابت ہوگا۔پاکستان اس وقت
افغان جنگ کا اہم محاذ بنا ہوا ہے ۔شمال مغربی سرحدوں کے علاوہ پاکستان کے
تمام اقتصادی شہر ، گوریلا جنگ میں نشانہ بنے ہوئے ہیں۔افغانستان میں قیام
امن کے نام پر پاکستان اس وقت افغانستان سے زیادہ بد امنی ، عدم تحفظ اور
معاشی بد حالی کا شکار اور بین الاقوامی ایجنڈوں کی تکمیل کےلئے تختہ مشق
بنا ہوا ہے۔پاکستان کی حالت زار انتہائی قابل ترس ہے کہ وہ اپنی پالیساں
بدلنا بھی چاہتا ہے تو بین الاقوامی قوتیں ایسے بدلنے نہیں دیتی ، روس کی
پیشقدمی کاچانک رک جانا ، ایران سے فرقہ وارانہ کاروائیوں کے باعث دوری ،چین
دوستی گرمجوشی میں کمی ،بھارت سے نزدیکی میں جہادی پالیسوں کی سخت گیری سے
پاکستان انتہائی پریشان کن حالت میں لاکھڑا ہواہے۔پاکستان کی معاشی حالت اس
قدر گردگوں ہوچکی ہے کہ ڈالر کی قوت خرید میں اضافے کےساتھ بیرونی قرضوں
میں اضافے کا ناقابل برداشت بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔پاکستان میں ہونے والی
افغان جنگ کا نشانہ بے گناہ عوام بن رہے ہیں اور سیکورٹی ادارے کو موثر
کاروائی میں سیاسی مصلحتیں حائل ہیں۔ پاکستان براہ راست جنگ سے متاثر ہے
لیکن سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب عوام بھی بے یقینی کا
شکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شدید معاشی مشکلات کے باعث ماضی کے برعکس فوج ،
اقتدار کو براہ راست "ٹیک اوور "کرنے سے گریزاں ہیں۔ بعض حلقے متفق ہیں کہ
پریشر گروپس کے ذریعے ایسی نگران حکومت آئے جیسے موجودہ حالات کے تحت توسیع
دیکر ایسے فیصلے کرالئے جائیں جو موجودہ سیاسی ماحول میں ممکن نہیں۔خاص کر
افغانستان انتخابات ،اور امریکی فوج کی باحفاظت واپسی کےلئے حکومت کو درپیش
سیاسی مشکلات اور عدلیہ و میڈیا کے کردار کی وجہ سے اہم فیصلے کرنے میں
دشواریوں کا سامنا ہے جن پر عمل درآمدصرف نگران حکومت میں کسی بھی صدارتی
آرڈیننس کے ذریعے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ |