مولانا محمد زاہد
استاذ الحدیث: جامعۃ الصابر۔بہالپور
امت مسلمہ کا دامن ایسے رجال کار سے بھرا پڑا ہے جو تاریخ انسانی کے ماتھے
کا جھومر ہیں ۔ ان میں سے ایک نام ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔
آپ کا شمار اونچے درجے کے حفاظ حدیث اور اولیائ اللہ میں ہوتا ہے، صاحب کشف
وکرامت اور صوفی و عابد و زاہد انسان تھے۔ صبر واستقامت کی اپنی مثال آپ
تھے۔
آپ عہد نبوی میں مسلمان ہوئے مگر زیارت نبوی سے مشرف نہیں ہو سکے۔ آیئے آپ
کی استقامت کا ایک واقعہ پڑھ کر اپنے ایمان کی تازگی حاصل کرنے کے ساتھ
ساتھ یہ بھی معلوم کرتے ہیں کہ عشق، آتشِ نمرود میں بے خطر ہو کر کیسے کو
دتا ہے۔
جب اسود عنسی نے نبوت کا دعوی کیا تو اس نے لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے
کی دعوت دی۔ بہت سے لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور جنہوں نے نہیں کیا وہ
اسودعنسی کے غیظ وغضب کا شکار ہو کر شہادت کی آغوش میں جا سوئے۔
اسود عنسی کو جب معلوم ہوا کہ ابو مسلم خولانی کُھلم کھلا اس کی نبوت کی
تردید کرتا ہے تو اس کو حاضر کرنے کا حکم دیا چنانچہ آپ کو حاضر کیا گیا۔
اسود عنسی نے کہا کہ کیا آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ محمد اللہ کے رسول
ہیں؟ ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہاں، اسود عنسی نے کہا ،کیا
آپ اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابومسلم رحمہ
اللہ نے فرمایا کہ میں آپ کی بات نہیں سن پا رہا۔اسود عنسی نے پھر کہا کہ
کیا آپ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ جواب تھا کہ
ہاں۔ اسود عنسی نے کہا کہ اور اس بات کی بھی کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت
ابو مسلم رحمہ اللہ نے کمال متانت کے ساتھ وہی جواب ارشاد فرمایا کہ میں آپ
کی بات سننے سے قاصر ہوں۔ یہ سن کر اسود عنسی آگ بگولا ہو گیا اور حکم دیا
کہ اسے جلا دیا جائے۔
چنانچہ بڑے پیمانے پر تیاریاں کی گئیں ۔ ایک بہت بڑی آگ دہکائی گئی اور
تماشا دیکھنے کے لئے ایک بہت بڑی خلقت امڈ آئی۔
بجرم عشق تو می زنند و غوغائیست
توہم بر سر بام آکہ خوش تماشائیست
پھر وہی ہوا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ابو مسلم خولانی رحمہ
اللہ کو آگ میں ڈالا گیا مگر آگ نے حضرت کے کسی بال کو بھی نقصان نہیں
پہنچایا اور حضرت بالکل صحیح سالم رہے اور بزبان حال گویا تھے کہ
آج بھی ہو گر براہیمی ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
اس ایمان افروز منظر کے دیکھنے کے بعد بھی بدبختوں پر بدبختی غالب رہی اور
وہ بجائے ایمان لانے کے حضرت کو علاقہ بدر کرنے پر تل گئے، درباریوں نے
اسود عنسی کو مشورہ دیا کہ اسے فوری طور پر علاقہ بدر کیا جائے، ورنہ یہ
لوگوں کے بگاڑ کا سبب بن جائے گا۔ چنانچہ حضرت کو فوری طور پر یمن سے مدینے
آنا پڑا۔
مدینہ پہنچ کر سواری کو بٹھایا اور مسجد داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے، حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا توپوچھا کہاں سے تعلق ہے؟ جواب دیا یمن سے۔حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس شخص کا حال سنائو جسے اسود کذاب نے آگ میں
ڈال دیا تھا؟ حضرت ابو مسلم نے جواباً فرمایا، وہ عبد اللہ بن ثوب ہے۔ حضرت
عمر (رض) نے فرمایا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ وہی آپ تو
نہیں؟ حضرت ابو مسلم(رح) کو جواباً اقرار کرنا پڑا کہ جی ہاں وہ میں ہی
ہوں۔ حضرت عمر(رض) نے ان کو گلے لگایا اور روئے، پھر آپ کا ہاتھ پکڑ کر
حضرت ابوبکرصدیق(رض) کی خدمت میں لے گئے ، سامنے بٹھایا اورفرمایا:
ُُ’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنی زندگی میں اس امت کا وہ شخص
دکھایا جس کے ساتھ خلیل﴿علیہ السلام﴾ والا معاملہ ہوا‘‘۔﴿سیر اعلام
النبلائ، البد ایۃ و النہایۃ، تذکرۃ الحفاظ﴾
مقام عبرت
یہاں اپنے قارئین کرام کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ
اتنی عظیم کرامت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی بدبختوں کے سیاہ دلوں پر تالے پڑے
رہے اور گمراہی اپنی جڑیں مضبوط تر کرتی رہی اور اسلام کو اس وقت تک یہاں
دوبارہ پائوں جمانے کا موقع نہیں ملا جب تک کہ صدیقی تلوار نے آکر یہاں سے
فتنے کی بیخ کنی نہ کی۔
معلوم ہوا کہ تلوار کی برکت فوق العادہ کرامتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ بدبخت ،
سیاہ کار، پتھر دل اور لوگوں کو جہنم کی طرف ہنکانے والے ہر زمانے میں اور
ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ایسوں کے لئے سوائے تلورا کے اور کوئی علاج نہیں۔ ان کے
سامنے ہر قسم کا وعظ،نرمی، اخلاق ، پندونصیحت ، حکمت، کرامت ، اور معجزہ
بیکار ہے اور جب تک یہ موجود رہتے ہیں ان کے لئے ر ائے عامہ کو گمراہ کرنا
کوئی مشکل نہیں۔ ان کا علاج بس یہی ہوتا ہے کہ اس کے نا پاک وجود کے بوجھ
سے زمین کو ہلکا کردیا جائے۔ کیا ابوجہل، عتبہ، شیبہ، ولید اور عبد اللہ بن
ابی وغیرہ کے سامنے یہ چیزیں کار گر ثابت ہوئیں؟ کیا معجزات کے ظاہر ہونے
کے باوجود انہوں نے رائے عامہ کو گمراہ نہیں کیا؟
صدق النابغۃ الجعدی
ولاخیر فی حلم اذا لم تکن لہ
بوادر تحمی صفوہ، أن یکدرا
اورفند زمانی نے بھی سچ فرمایا:
وفی الشر نجاۃ حین لا ینجیک احسان
اور متنبی کا یہ کہنا بھی بالکل بجاہے۔
ووضع الندی فی موضع السیف بالعلی
مضر کو ضع السیف فی موضع الندیٰ
حضرت ابو مسلم خوالانی اور جہاد
حضرت ابو مسلم خولانی(رح) نے اپنے آپ کو علم اور عبادت تک محدود نہیں کیا
بلکہ آپ نے جہاد فی سبیل اللہ کو ایک محبوب مشغلے کے طور پر اختیار کیا۔
زہد و تصوف کے بے تاج بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ میادین جہاد کے جری
مجاہد بھی تھے۔ بلکہ شرجیل بن مسلم تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ:
’’ کان الولاۃ یتمینون بابی مسلم ویؤمرونہ علی المقدمات‘‘
ترجمہ: حکمران ، حضرت ابو مسلم(رح) کی لشکر میں موجودگی کو باعث برکت
سمجھتے تھے اور آپ کو مقدمات الجیش ﴿فرنٹ لائن﴾ کا امیر مقرر کیا کرتے تھے۔
﴿سیر اعلام النبلائ﴾
ثابت ہوگیا کہ آپ زہد و تصوف کے بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی
ا جنگی مہارتوں سے بھی مالا مال تھے۔ آپ نے جنگوںمیں ایک عام سپاہی کی طرح
نہیں بلکہ اکثر وبیشتر فرنٹ لائن کمانڈر کے طور پر شرکت کی۔
جنگوں میں کرامات
آپ(رح) کے وجود مسعود سے مجاہدین کو ایمان کی تازگی ملتی رہتی تھی۔ جہادی
اسفار میں آپ کی کرامتیں بکثرت ظاہر ہوتی رہتی تھی۔ روم کی جنگوں میں بارہا
ایسا ہوا کہ راستے میں کوئی گہرا دریا آیا، آپ نے فرمایا اللہ کا نام لے کر
پار ہو جائو اور خود آگے ہو کر پار ہو جاتے اور یوں لشکر کو بھی پار کرا
دیتے۔
دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمت میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
اور
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں ہے چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں
لشکر کو پار کرانے کے بعد کہتے کسی کی چیز گرگئی ہو تو میں ضامن ہوں۔ ایک
دفعہ کسی نے امتحاناً اپنی کوئی چیز دریا میں گرادی اور آپ سے کہا آپ اس کو
لے گئے اور دریا میں لکڑی پر سے وہ چیز اُٹھا کر دیدی۔ ﴿سیر اعلام النبلائ﴾
غزوئہ روم ہی کی بات ہے کہ ایک لشکر کی خبریں منقطع ہوگئیں،حضرت بے چین ہو
گئے، ایک پرندے نے آکر خبر دی آپ نے پرندے سے فرمایا تو نے بہت دیر لگائی۔
﴿ایضا﴾
میدان جنگ میں
میدان جنگ میں دیگر بہادروں کی طرح آپ بھی رجز پڑھتے ہوئے آتے۔ ایک جنگ میں
دیکھا گیا کہ آپ میدان میں کھڑے یہ رجز پڑھ رہے ہیں:
ماعلی ماعلی وقدلبست درعتی
اموت عند طاعتی
ترجمہ: اب جبکہ میں نے زرہ پہن لی ہے تو مجھے کیا ہے﴿ کہ نہ لڑوں﴾ میں طاعت
﴿جہاد﴾ کرتے ہوئے مروں گا۔
ایک عجیب و غریب فرمائش
آپ کو میدان جنگ میں دشمن کی وار سے تو شہادت نصیب نہیں ہو سکی لیکن آپ کی
وفات غزوۂ روم ہی کے جہادی سفر میں ہوئی۔ وفات کے وقت امیر لشکر حضرت بسر
بن ارطاۃ(رض) سے عجیب و غریب فرمائش کی۔ فرمایا کہ جن لوگوں کی اس سفر میں
شہادت یا وفات ہوئی ہے آپ میرے لئے ایک جھنڈا بنا کر مجھے ان پر امیر مقرر
فرما دیجئے مجھے امید ہے کہ میں قیامت کے دن ان کو لے کر اللہ کے دربار میں
حاضر ہوں گا۔ ﴿ایضا﴾
اللہ اکبر کبیرآپ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے علمائ کے نزدیک جہاد، شہادت
اور جہادی سفر و غیرہ کی کیا اہمیت تھی مگر وہ زمانہ تو رفت و گذشت ہوا ،
اب کیا ہو رہا ہے ۔
ببیں تفاوت راہ از کجا است تا بکجا
واقعی حضرت ابو مسلم خوالانی(رح) ریحانۃ الشام تھے اور علامہ ذہبی(رح) نے
تذکرۃ الحفاظ میں ان کے تذکرے کے شروع میں بالکل بجا فرمایا ہے:
’’أبو مسلم الخولانی الفقیہ العابد الزاھد ر یحانۃ الشام
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را |