مینارۂ علم و کمال: ترجمان اہلسنت علامہ تونسوی

رنگ و نور.سعدی کے قلم سے

اﷲ تعالیٰ نے’’علم‘‘ اور’’علماء‘‘ کو بہت اونچا مقام عطاء فرمایا ہے.
یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ﴿مجادلہ:۱۱﴾

لوگ’’مُردہ‘‘ ہیں جبکہ اہل علم’’زندہ‘‘ ہیں. عالم کا مقام دوسرے ایمان والوں سے سات سو درجے اونچا ہے. علمائ آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں، جن سے لوگ روشنی اور راستہ پاتے ہیں.اﷲ تعالیٰ جس انسان کو اپنی’’خیر‘‘ اور ’’مہربانی‘‘ عطائ فرمانا چاہتے ہیں. اُسے دین کا مضبوط علم عطائ فرما دیتے ہیں. مخلوق میں سب سے افضل حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں. اورحضرات انبیائ کے وارث’’علمائ‘‘ ہیں. یہ بہت اونچا اور وجد آفرین جملہ ہے کہ.’’علماء‘‘ انبیائ علیہم السلام کے وارث ہیں. آج اگر کسی کو ’’بل گیٹس‘‘ یا دنیا کے کسی اور ارب پتی کا وارث بنا دیا جائے تو. سارے دنیا پر ست اُس پر رشک کرنے لگیں. حالانکہ فانی مال کے چند قطرے. وہ بھی چند دنوں کے لئے. جبکہ حضرات انبیائ علیہم السلام کی ’’وراثت‘‘ میں جو کچھ ملتا ہے. وہ فنائ ہونے والا نہیں. ہمیشہ ہمیشہ کام آنے والا ہے. علم کااٹھ جانا اور جَہالت کا غلبہ پالینا علاماتِ قیامت میں سے ہے.
ان من اشراط الساعۃ ان یرفع علم ویثبت الجھل﴿بخاری، مسلم﴾
اورعلم اٹھتا ہے. علماء کرام کے اٹھ جانے سے. ارشاد فرمایا:
ولکن یقبض العلم بقبض العلمائ﴿بخاری﴾
کہ علم ایک دم زمین سے اچک نہیں لیا جائے گا. بلکہ علمائ کے اٹھنے سے یہ علم اٹھا لیا جائے گا. اور لوگ’’جاہلوں‘‘ کواپنا سردار بنا لیں گے. امام غزالی(رح) نے روایت لائی ہے کہ. ایک پورے قبیلے کا مرجانا ایک عالم کے مرنے سے بہت ہلکا ہے. یعنی کم نقصان دہ ہے.

احیائ العلوم میں روایت نقل فرمائی ہے کہ:
درجہ نبوت کے زیادہ قریب اہل علم اور اہل جہاد ہیں. ﴿احیائ العلوم﴾

علم اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے. اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ اے ابراہیم! میں’’علیم‘‘ ہوں. اور ہر علم والے کو دوست رکھتا ہوں.﴿احیاء العلوم﴾

اہلِ علم. اس اُمت کے تاج ہیں، مینار ہیں. اور محسن ہیں.آسمان کے فرشتوں سے لے کر سمندر کی مچھلیوں. بلوں کی چیونٹیاں اور تمام حیوانات تک علمائ کے مقام کو محسوس کرتے ہیں. اور اُن کے لئے ’’استغفار‘‘ کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں. دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارے میں حکم دیا گیا ہو کہ. اس میںمزید اضافہ مانگو. صرف علم کے بارے میں فرمایا گیا. وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا.

اے نبی دعا مانگئے کہ. اے میرے رب میرے علم کوبڑھا دیجئے. علم کے فضائل بے شمار ہیں. قرآن پاک کی آیات. رسول کریم ö کی احادیث. حضرات صحابہ کرام اوراسلاف کے اقوال. علم اور علمائ کی فضیلت کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں. روئے زمین پر. اصلی اور حقیقی علمائ. بہت کم رہ گئے ہیں. اور وہ بھی ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں. حضرت مولانا عبدالستار صاحب تونسوی(رح). اُن ’’علمائ‘‘ میں سے تھے جن کے پاس واقعی دین کا مضبوط اور راسخ علم تھا. علم کے فضائل انہی جیسے ’’علمائ کرام‘‘ کے لئے ہیں. اُن کی وفات کو دو روز بیت گئے. دل میںہوک سی اٹھتی ہے اوربہت سے مناظر تازہ ہو جاتے ہیں. ساری امت کے لئے صدمے کا مقام ہے. انا ﷲ وانا الیہ راجعون.

بچپن میں اُن کا ایک جلسہ سنا. ماشائ اﷲ کیارعب تھا اور کیا آواز. شیروںجیسی گرج. اُس زمانے علماء کرام کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا تھا. حضرت اسٹیج پر تشریف لائے تو. اُن کے جسم پر پستول سجا ہوا تھا. یہ منظر دل کو اچھا لگا. پھر سامنے میز پر کتابیں سجائی گئیں.بیان شروع ہوا تو یوں لگا کہ. دریا کا بند کھول دیا گیا ہے. بلند موجیں اور اونچی لہریں. یہاں ایک عجیب بات سنیں. حضرت علّامہ تونسوی(رح) حقیقت میں’’جہیر الصوت‘‘ تھے. بہت خوبصورت اونچی، گرجدار اور بلند آواز کے مالک. مگرعام گفتگو میں اتنا نرم اور آہستہ بولتے تھے کہ. کوئی اندازہ ہی نہ لگا سکے کہ ان کی آواز اس قدر بلند اور گرجدار ہو گی. بیان میں کتابوں کے حوالے دیتے. صفحہ نمبر اور سطر نمبر زبانی سناتے اور پھر وہ کتاب اٹھا کر. اس کا رخ مجمع کی طرف کرتے. سبحان اﷲ!. عجیب علم تھا. باطل فرقے کے تمام علمائ کو چیلنج فرماتے کہ. روئے زمین کا کوئی عالم اس بات کا جواب دے دے تو میری سزا پھانسی اور حکومت کے لئے میرا خون معاف. حضرت کے یہ ولولے اور چیلنج محض خطابت نہیںتھے. اﷲ تعالیٰ نے آپ پر خاص فضل فرمایا تھا اور علم وتحقیق کے دروازے آپ کے سینے پر کھول دیئے تھے. بندہ نے خود ان کو. بڑھاپے کی حالت میں باادب بیٹھ کر گھنٹوں مطالعہ میں گُم دیکھا. کتابوں کی کتابیں ازبر یاد تھیں. اور علم دین کی ہر صنف پر مکمل عبور رکھتے تھے. زمانے کے بڑے بڑے اساطین علم ان کی صحبت میں بچوں کی طرح بیٹھ کر استفادہ کرتے تھے. حضرت چنیوٹی(رح) جیسے مشہور زمانہ عالمی مبلغ. حضرت تونسوی(رح) کے شاگرد تھے اور اپنے اس تعلق کو بیان کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے. حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید(رح)، حضرت علّامہ تونسوی(رح) کے سامنے دو زانو بیٹھتے تھے. ایک بار اپنے گھر پر دعوت کی. معزز مہمان کو حضرت شہید(رح) کے گھر لانا میرے ذمہ لگا. اس پوری دعوت میں. حضرت لدھیانوی(رح). علّامہ تونسوی(رح) کے سامنے مکمل باادب رہے اور آخر میں جب ہدیہ پیش کیا تو وہ بھی لفافہ میں بند اور دونوں ہاتھوں سے.

جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں. حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب(رح) کا زمانہ اہتمام تھا. شعبان کی چھٹیوں میں ملک بھر کے ’’جبال العلم‘‘ جامعہ میں جمع ہوجاتے تھے. واقعی عجیب منظر. جامعہ کی مسجد کے دوبلند مینار. اور نیچے جامعہ میں علم و تحقیق کے بلند مَنارے. یہ چالیس دن کا ’’مناظرہ کورس‘‘ تھا جو بہت اہتمام سے ہر سال منعقد کیا جاتا تھا. دورہ حدیث کا امتحان دینے والے طلبہ کے لئے اس میں شرکت لازمی تھی. جبکہ باقی طلبہ کے لئے اختیاری. علم و فضل کے اُن’’میناروں‘‘ میں جو سب سے بلند مینار جامعہ کو شرف بخشتاتھا. وہ حضرت تونسوی(رح) تھے. اپنی نادر کتابوں کے کئی بکسوں کے ساتھ تشریف لاتے. اور بہت محبت اور لگن سے طلبہ کرام کو پڑھاتے. باقی حضرات میں.رد عیسائیت کے لئے. حضرت مولانا عبدالرحیم منہاج(رح). حضرت مولانا بشیر احمد شورکوٹی(رح). ردّ مرزائیت حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر(رح). اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی(رح). ردّ غیر مقلدیت کے لئے حضرت مولانا محمد امین صاحب صفدر اکاڑوی(رح). اور عمومی چومکھی کے لئے حضرت علامہ خالد محمود صاحب مدظلہ العالی.

آج ان حضرات میں سے. صرف حضرت علامہ خالد محمود صاحب مدظلہ العالی حیات ہیں. اﷲ تعالیٰ اُن کے علم و عمر میں برکت عطائ فرمائے. بلاشبہ وہ ’’جبل من جبال العلم‘‘ ہیں. باقی تمام حضرات چلے گئے، جانا تو سب نے ہے. علم دین اس اُمت کی ضرورت ہے. اہم ترین ضرورت.

حضرت امام بن حنبل(رح) فرماتے ہیں:
علم کی ضرورت کھانے پینے کی اشیائ سے بھی زیادہ ہے. کیونکہ کھانے پینے کا انسان دن میں ایک دو بار محتاج ہوتا ہے. جبکہ علم کی ضرورت ہر سانس کے ساتھ پڑتی ہے. معاشرے میں اگر راسخ علم والے علمائ کرام موجود ہوں. اور ان علمائ کرام کی قدر کی جاتی ہو تو. فرقہ واریت کا اژدھا اتنا طاقتور نہیں ہوتا،جتنا کہ آج ہر طرف نظر آرہا ہے. فرقے ہی فرقے ہیں. اورہر شخص کا الگ فرقہ ہے. افغانستان کے علمائ کرام. اپنے علم میں راسخ تھے. وہاں جب تک کسی کو تمام مروّجہ دینی علوم میں مہارت حاصل نہ ہوتی وہ خود کو ’’مولوی‘‘ کہلانا حرام سمجھتا تھا. چودہ سے بیس سال تک علم پڑھنے اور دس پندرہ سال علم پڑھانے کے بعد کسی کو’’مولوی‘‘ کا لقب ملتا تھا. باقی سب’’مُلّا‘‘ کہلاتے تھے. ’’ملّا‘‘ وہاں چھوٹے عالم یا آخری درجے کے طالب علم کو کہا جاتا ہے. افغانستان میں ’’علمائ کرام‘‘ کی قدرو منزلت بھی تھی اس لئے وہ بے شمار مسائل اور فرقوں سے محفوظ رہے. صرف’’چاند‘‘ کا مسئلہ ہی لے لیں. وہاں پورے ملک میںایک عید. ایک رمضان اور ایک اسلامی تاریخ چلتی ہے. احناف کا اصول ہے کہ. چاند کے ’’مطالع‘‘ کے اختلاف کا اعتبار نہیں. یہ اصول افغان علمائ کرام نے اپنا لیا. اور تواتر کی حد تک پہنچنے والی خبر کو گواہی کے طور پر منظور کر لیا. اب جیسے ہی عرب دنیا میںچاند نکلتا ہے تو. مسلمانوں کا چاند ایک. کے اصول کے تحت افغانستان میں بھی. رمضان و عید کا اعلان ہو جاتا ہے. نہ رؤیت ہلال کمیٹی، نہ اصلی اور جعلی گواہ. اور نہ الگ الگ عیدیں. بات دل کو لگتی ہے. مثال کے طور پر آج اگر. حضور اقدس ö کا مبارک زمانہ ہوتا اوراسلام پاکستان افغانستان تک پہنچ چکا ہوتا . خبر ملتی کہ مدینہ منورہ میں چاند ہو گیا ہے اور حضرت آقا مدنی ö روزہ سے ہیں. آپ بتائیں! اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں کا کیا طرز عمل ہوتا؟. وہ روزہ رکھتے یا دوربینیں اٹھا کر اپنا اپنا چاند تلاش کرنے میں لگ جاتے ؟. خیر یہ ایک مثال تھی. ویسے بھی افغانستان میں مذہبی فرقہ بندی بہت کم تھی. کیونکہ علمائ کا علم راسخ تھا اور معاشرے میں ان کی قدرو منزلت تھی. چنانچہ نہ وہاں سوویت یونین قبضہ کر سکا. اور نہ امریکہ، نیٹو اور اُن کے حواری اپنے لئے وہاں کوئی جائے پناہ دیکھتے ہیں. علم کی برکات بہت زیادہ ہیں. شرط یہ ہے کہ. علم پختہ ہو، فقہ اور سمجھ کے ساتھ ہو. علم والے خود اپنے علم پرعمل کرتے ہوں. اور ان کے قلوب دنیا اور دنیا داروں کے رعب سے پاک. اور اﷲ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہوں. اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایسے خالص علمائ کرام. اسی طرح ضروری ہیں جس طرح جسم کو زندگی کے لئے روح کی ضرورت ہوتی ہے. علمائ کے علم کے بغیر. ملک ویران ہوجاتے ہیں. جہاد، فساد بن جاتا ہے. سیاست، خباثت میں تبدیل ہو جاتی ہے. اور زمین اندھیرے سے بھر جاتی ہے. ہمارے جو دانشور اور قلم کار ہر وقت علمائ کرام کو’’جدید‘‘ بنانے کی فکر میںگھلتے رہتے ہیں. یہ حضرات نادانستہ طور پر دین دشمنی کے جرم میں مبتلا ہوتے ہیں. ان سے ادب کے ساتھ درخواست ہے کہ. آپ کسانوں اور کاشتکاروں کے پاس جائیں اور ان کو لیکچر دیں کہ. کیا کھیتی باڑی میں لگے ہوئے ہو. لوگ چاند تک جا پہنچے ہیں اور اب مریخ پر اترنے والے ہیں. چھوڑو کھیتی باڑی. سائنس پڑھو، ٹیکنالوجی پڑھو. اور چاند پرجاؤ. اگر یہ لیکچر کامیاب ہو گیا تو. یقیناً تمام انسان بھوکے مرجائیں گے. کوئی بم ، جہاز، برتن اور بجلی کھا کر نہیں جی سکتا.سب امیر اور غریب اب تک آٹا، چاول، اناج ، سبزی اور پھل کھا کر جیتے ہیں. معلوم ہوا کہ کچھ کسانوں اور کاشتکاروں کی بھی. دنیا کو ضرورت ہے. یہ نہ رہے تو دنیا اپنی ظاہری ترقی کے باوجود. سسک سسک کر مر جائے گی. کیک اور برگر بھی مشینوں سے نہیں نکلتے ان میں بھی آٹا، اناج گندم وغیرہ استعمال ہوتی ہے. کاشتکاری میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال صرف اسی حد تک ہی ہے کہ. جیسے کوئی عالم گاڑی میں بیٹھ کر مدرسہ چلا جائے. اتنے استعمال کا کوئی مخالف نہیں. بات صرف یہ ہے کہ انسانیت کو باقی رہنے کے لئے. زیادہ نہ سہی آبادی کے تناسب سے خالص علمائ کرام کی ضرورت ہے. اور سچ یہ ہے کہ جتنے علمائ کی ضرورت ہے اتنے موجود نہیں ہیں. علّامہ مولانا اور مفتی کہلانا کافی نہیں. علم ایک بڑی اور الگ چیز ہے.اب اگر چند ادارے امت مسلمہ کی یہ ضرورت پوری کرنے کی محنت کر رہے ہیں تو. آپ اُن کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟. کیا صرف انہی چند افراد کے سائنس پڑھ لینے سے. مسلمان اور پاکستان ترقی کر جائیں گے؟. یہ مدارس نہ تو اسکول کے طلبہ کو اغوا کر کے لاتے ہیں اور نہ کالج، یونیورسٹی پر دھاوا بولتے ہیں. اسکول اور کالج عصری طلبہ سے بھرے پڑے ہیں. یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں ملتا کہ اتنا رش ہے. پھر وہاں سے’’ترقی‘‘ کی ہوائیں اور بادل کیوں نہیں اٹھ رہے؟. سائنس اور ٹیکنالوجی کے بے شمار تعلیمی ادارے ملک میں ہیں پھر ملک کیوں ترقی نہیں کر رہا؟. کیا وہاں کے طلبہ کو بھی مدارس والے جا کر مدرسوں میں اٹھا لاتے ہیں؟. بس فضول باتیں ہیں اور بے کار فلسفے. جو دانشور کھلم کھلا ملحد اورسیکولرہیںاُن کی باتوں سے تو کوئی دکھ نہیں ہوتا. مگر جو دین دار کہلاتے ہیں وہ جب اس موضوع پر لکھتے اور بولتے ہیں تو دل دکھتا ہے. باقی رہی’’انتہا پسندی‘‘ تو مدارس میں اس کا کوئی وجود نہیں. مدارس تو دور کی بات. جو جہادی تنظیمیں اہلِ علم کی باقاعدہ اطاعت میں چل رہی ہیں. ان میں بھی دور دور تک کسی انتہا پسندی کا نام و نشان نہیں ہے. حضرت علامہ مولانا عبدالستار تونسوی(رح) چلے گئے.ان کے حوالے سے کئی واقعات ذہن میں تھے جو نہ لکھے جا سکے. وہ بندہ کے استاذ محترم بھی تھے. اﷲ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے. آج کا کالم پڑھ کر. انشائ اﷲ جو مسلمان اپنے بچوں کو خالص عالم دین اور مجاہد فی سبیل اﷲ بنانے کی . نیت کریں گے اس کا ثواب اﷲ تعالیٰ حضرت الاستاذ تونسوی(رح) کی روح کو عطائ فرمائے. قارئین سے حضرت علّامہ(رح) کے لئے دعائ اور ایصال ثواب کی درخواست ہے.
ان ﷲ ما اعطیٰ ولہ ما أَخذ وکل شی عندہ باجل مسمٰی اللھم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ.
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا.
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ.
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.