قوم کو تو بھول جانے کی عادت ہے

سپریم کورٹ میں دائر کیس عدلیہ کے فیصلے کے تحت348ملین روپے سیاسی جماعتوں کو دئے جانے والا ایوان صدر میں قائم سیاسی سیل کا کیس بظاہراپنے انجام تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کا منطقی انجام ہنوز باقی ہے کیونکہ ابھی تک کسی سیاسی جماعت کےخلاف رقوم وصولی پر کوئی قانونی کاروائی ، اور جن سرکاری عہدے داروں نے اپنی ذاتی حیثیت میں رقوم تقسیم کی تھیں ان کے حوالے سے بھی قوم منتظر ہے کہ ان کے غیر قانونی اقدام کو کس قانونی کروٹ میں بیٹھایا جائے گا۔پیپلز پارٹی کو دھاندلی سے ہرایا گیا، تقریبا تمام الیکشن مشکوک تھے ۔ ثابت ہوگیا ۔آئی جے آئی کو آئی ایس آئی کے سربراہ اور بری فوج کے سربراہ کی حمایت حاصل تھی، ثابت ہوگیا یہ ان کا انفرادی فعل تھا ادارے ان میں ملوث نہیں ، یہ بھی مان لیا گیا۔ ایم آئی کے اکاوئنٹ میں آٹھ کروڑ واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دے دیا گیا ۔جن جن سیاست دانوں کو رقوم دی گئیں ان سے سود سمیت رقم واپس لینے کے احکامات صادر کر دئے گئے اب تک عمل در آمد کیوں نہیں ہوا؟۔ یونس حبیب اور دیگر ذمے داران پر فوجداری مقدمات قائم کرنے کی ہدایت بھی جاری کردی گئی ۔سیاسی جماعتوں کے ان سرکردہ کے خلاف تحقیقات کا بھی حکم دے دیا گیا جن پر اگر رقم لینے کا الزام ثابت ہوجائے تو ان کے خلاف آئین کے مطابق کاروائی ہو ۔ عظیم فتح قرار دیا۔سابق بری فوج کے سربراہ اسلم بیگ ، آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی اسد درانی اور متوفی صدر غلام اسحاق خان مورد الزام میں گناہ گار پایا گیا ۔ ایف آئی اے کو حکم دے دیا گیا کہ تحقیقات کرے۔ لیکن کیا تحقیقات ہو رہی ہیں ؟ ۔یہ سب کچھ ہوگیا ۔ سولہ سال بعد سہی ، لیکن عام انتخابات سے پہلے اچانک عدلیہ کا ایک بڑا فیصلہ منظر عام پر آ چکا ہے لیکن اس پر عمل در آمد کی پش رفت کا حال سب کے سامنے ہے ۔ سالوں تک عدلیہ کی پیشیاں بھگتنے والی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا گلہ تو دور ہوگیا کہ عدلیہ ایک طرفہ کاروائی کر رہی ہے ۔پیپلز پارٹی کے تمام گلے شکوے ختم ۔ عدلیہ زندہ باد ، اس کا فیصلہ زندہ باد ، چیف جسٹس زندہ باد ، وزیر اعظم کی جانب سے قوم کو خطاب میں یقین دہانی کہ جنھیں حکومت نے جرمنی میں سفیر بنایا ، تمغہ شجاعت دیا ان کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی اور ان کے خلاف بھی جنھوں نے رقم وصول کی ۔پتہ نہیں کب کاروائی ہوگی ؟ ۔ قوم کو تو بھول جانے کی عادت ہے ۔ مسلم لیگ ن والے بھی خوش ہیں کہ عدلیہ نے ان کا نام نہیں لیا ۔ آئی جے آئی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ نواز شریف کا نام کسی نے نہیں لیا ۔ چوہدری شجاعت نے اسلم بیگ کا نام لے کر کہا کہ انھیں جنرل صاحب نے رقوم کی پیش کش کی تھی جیسے شکریہ کے ساتھ ٹھکرادیا ۔ ایم کیو ایم کے لئے گواہی برئگیڈ امیتا ز نے ٹی وی پر آکر دی کہ انھوں نے الطاف حسین کو بریف کیس دیا لیکن انھوں نے لینے سے انکار کردیا ۔ سب کچھ صاف صاف ہوگیا ۔ اصغر خان صاحب نے اپنے جےتے جی ، اپنے سولہ سالہ مقدمے کا فیصلہ سن لیا ۔ اصغر خان کے الزام کے مطابق نواز شریف کو پینتس لاکھ روپے ، جماعت اسلامی کو پچاس لاکھ روپے ، خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلی میر افضل کو ایک کروڑ روپے ،پی پی پی کی مجلس عاملہ کی رکن عابدہ حسین کو دس لاکھ روپے ، سابق وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کو پچاس لاکھ روپے م سابق وزیر اعلی سندھ جام صادق کو پچاس لاکھ روپے ، پیر صاحب پگاڑا مرحوم کو بیس لاکھ روپے ، ہمایوں مری کو پندرہ لاکھ روپے ، نصیر مینگل کو دس لاکھ روپے میر حاصل بزنجو ، کاکڑ سمیت دیگر چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بھی لاکھوں روپے تقسیم کئے گئے ۔اب اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ آنےوالے نئے الیکشن کے لئے کوئی نیا فارمولہ نہیں اپنایا جائے گا ۔جبکہ ابھی سے مختلف پریشرگروپس کروڑوں روپوں کے جلسے کر رہے ہیں اور ان سے اخراجات کا کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ۔ عدلیہ کہتی ہے کہ جرنیلوں کا سیاست میں ملوث ہونا حلف کی خلاف ورزی ہے ۔ جرنیلوں کا محاسبہ، کورٹ مارشل ہوگا یا سول کیوں نہیں کیا جارہا ؟ ۔۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سول حکومت کے بس کی بات نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک قدم بھی اٹھا سکے ۔ جب مرضی ہوئی ، عزیز ہم وطنوں کہہ کر ایوان صدر کی دیواریں پھلانگیں جانا سب دیکھ چکے ہیں ۔سب جانتے ہیں کہ حکومت کے اہم سیاست دان ایجنسیوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں ۔ رقوم لینے والوں کے خلاف گواہی کون دیگا ۔ کیا یونس حبیب جس کا نام لے گا وہی مجرم ہوگا ؟ کون کس کی بات پر یقین کرے گا ، کون سی سیاسی جماعت کس ریٹارڈ افسر کو اپنی گواہی کے لئے عوام کے سامنے لائی گی ؟ کیا ایوان صدر جو ملکی سیاست کا گڑھ ہے وہ اپنا کردار ختم کردے گا ۔ پاکستان میں ایسا کون ہے جو اپنی غلطی پر معافی مانگے گا ۔ کاش کاش کاش ۔۔۔ عدلیہ یہ بھی مان لیتی کہ تمام تر غلطی عدلیہ کے اپنے نظام کی بھی ہے ۔ اگر اس کیس کو سولہ سال تک التوا میں نہیں رکھا جاتا تو آج قوم کو غلامی کی زندگی نہیں گذارنا پڑتی ، مشرف جیسا حکمران قوم پر امریکہ کو مسلط نہیں کرتا ، بے نظیر بھٹو ہلاک نہیں ہوتی ۔ نواز شریف کو سعودی عرب جانا نہیں پڑتا ۔ قوم کے ہاتھوں میں اپنی تقدیر ہوتی ۔ کاسہ لیکر در بدر نہیں پھرتی ۔انصاف کی فراہمی کسی جرنیل کا کام نہیں تھا بلکہ عدلیہ کا کام تھا ۔ جو فیصلہ آج آیا ہے وہ بہت پہلے آجانا چاہیے تھا ۔ یہ بھی شکر ہے کہ فیصلہ آگیا ۔ ملکی سیاست میں فوج کا کردار ، کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا ، کیونکہ ہم ہر معاملے میں فوج کو دعوت دےتے ہیں کہ فوج تمھیں سلام ، فوج یہ آکر یہ کرلو ، قوم مصبیت میں ہے حکومت سنبھال لو ، حکمران نااہل ہیں آپ منتظم بن جاﺅ ۔سیاسی جماعتیں اگر واقعی پاکستان سے فوج کا کردار ختم کرنا چاہتی تو آئین میں بل پاس کرلیتی کہ آئندہ جب بھی تبدیلی حکومت میں مارشل لاءلگانے کی کوشش کی تو وہ فوج کا سربراہ قومی مجرم ہوگا ۔ آئین میں تبدیلی لاکر ہمیشہ کے لئے یہ شق منظور کرلیتی کہ فوج سیاسی مداخلت کرکے ملک کا انتظام نہ سنبھال سکتی ہے ، نہ ایمرجنسی لگا سکتی ہے، نہ آئین معطل کر سکتی ہے اور نہ ہی ججوں سے پی سی او کے تحت دوبارہ حلف لے سکتی ہے۔سچے ہو ، تو پہلے یہ کام کرکے دکھاﺅ ۔ چیف جسٹس صاحب ، آپ نے جو بھی فیصلہ دیا بہت اچھا دیا لیکن پاکستان کی سیاست میں خفیہ فنڈ کا ستعمال کبھی ختم نہیں ہوسکتا ۔ تریسٹھ سالوں سے چلنے والا آمرانہ(سیاسی ، فوجی)نظام کبھی ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ سب کو شارٹ کٹ کا راستہ اس ہی اداروں کے دروازوں میں جا نے سے ملتا ہے ۔ رات اندھیرے ملنے کی باتیں کسی لیلی یا مجنوں کی نہیں ہوتی بلکہ سیاست دانوں کی ہوتی ہیں ۔ جب ایوان صدر سیاست کا اکھاڑا رہا ہو اور آج بھی ہے تو پھر کیا خفیہ ، کیا عام ۔۔فیصلہ تو صرف ایک ہی قوت کرسکتی ہے وہ ہے عوام ۔۔ لیکن وہ ابھی تک جاگیر داروں ، سرمایہ داروں ، خوانین ،وڈیروں اور مورثی سیاست دانوں ، فرقہ واریت ، لسانیت ، قوم پرستی کے سحر سے نکلنا ہی نہیں چاہتی تو پھر قوم کی تقدیر کس طرح بدلے گی جب وہ خود اپنی تقدیر بدلنے کے بجائے تماشہ بننا زیادہ قبول کرتی ہو ۔قوم کو تو بھول جانے کی عادت ہے ، لیکن ان کا بھی قصور نہیں کیونکہ انھیں تواترسے اتنے شاک لگائے جاچکے ہیں کہ معاشی ، بدامنی اور عدم تحفظ کے جھٹکوں سے ان کی یاداشتیں بہت کمزور ہوچکیں ہیں ۔ لیکن ۔۔ خوش فہمی بھی ہونی چا ہے کہ شائد اس بار کچھ بدل جائے ۔ !!
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 296715 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.