ایک دیہاتی کی باتیں اور ملک گیر سطح پر آئی جے آئی جیسے اتحاد کی ضرورت

تحریر : محمد اسلم لودھی

چند دن پہلے ملتان کے دور دراز علاقے سے میرا ایک عزیز گھر آیا اور دوران گفتگو پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور عوام کش اقدامات کا ذکر بھی آیا مجھے اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں تو اس مرتبہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ووٹ نہیں دوں گا بلکہ میرے سمیت پورے گاﺅں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس مرتبہ ووٹ صرف اور صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہی دیںگے ۔ میں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ بھئی افتخار محمد چودھری تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں اور وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے پھر آپ کیسے انہیں ووٹ دے سکتے ہیں ۔ میری بات کو کاٹتے ہوئے اس نے کہا کہ ہماری امیدوں کا مرکز اب صرف چیف جسٹس ہی ہیں کیونکہ کراچی سے پشاور تک ، گلگت سے کوئٹہ تک ہر مظلوم انصاف حاصل کرنے اور داد رسی کے لیے صرف چیف جسٹس کو مخاطب کیوں کررہا ہے کیا اس ملک میں حکمرانوں کی کمی ہے اینٹ اٹھاﺅ تو ستر وزیر اور مشیر برآمد ہوتے ہیں جو ماہانہ اربوں روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں لیکن اخبارات میں خبریں شائع ہونے کے باوجود مجال ہے کسی کو عوام کے مسائل کا ادراک ہو ۔ لوگ دور دراز علاقوں سے نہ جانے کن مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے سخت ترین سردی میں بھی پریس کلبوں کے باہر خیمہ زن ہیں کہ دھوکہ دہی سے ووٹ لینے والوں کا مردہ ضمیر شاید زندہ ہوجائے اور وہ عوام کی فریاد پر توجہ مرکوز کرسکیں لیکن یو ں دکھائی دیتا ہے کہ اس ملک میں سب اندھے ہیں اور اگر کسی کو عوام کے حقوق اور مسائل نظر آتے ہیں تو وہ صرف اور صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہیں جواز خود نوٹس لے کر حتی المقدور عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں رات دن ایک کیے ہوئے ہیں ؒ۔میں دیہاتی کی باتیں سن کر واقعی حیران رہ گیاکیونکہ اب یہ رائے صرف ایک دیہاتی کی نہیں بلکہ ہر مصیبت زدہ اور پریشان کن حال پاکستانی کی ہے جو اپنے مسائل کے حل کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے لیکن حکمران اپنے بدترین پانچ سالہ دور کو بھی سنہری قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر برسراقتدار آنے کا اعلان کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں 1990 کی طرح آج بھی اگر اسلامی جمہوری اتحاد ( آئی جے آئی) جیسا اتحاد وجود میں نہ آیا تو کوئی عبث نہیں کہ جیالے ہمیشہ کی طرح تیر پر مہر لگاکر ان لیٹروں کو حکومتی ایوانوں میں ایک بار پھر پہنچا دیں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے مخالف ووٹ ہر مرتبہ تقسیم ہوجاتے ہیں اور اس مرتبہ بھی ایسا ہونے کے واضح امکانات ہیں جس کا ثبوت عمران خان ، ڈاکٹر طاہر القادری ، جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام ، فنکشنل مسلم لیگ ، ، سنی تحریک اور مسلم لیگ ن کے قائدین کے بیانات اور جلسوں کی صورت میں نظر آر ہا ہے پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں میں ایسے عناصر خاصی تعداد میں موجود ہیں جو ایک دوسرے کو ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دے کر اختلافات کی خلیج کو مزید وسیع کرتے ہوئے آئی جے آئی جیسا اتحاد بننے میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی جیسی غریب دشمن پارٹی کی کامیابی کے لیے راستہ بھی ہموار کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جماعت تحریک تحفظ پاکستان بھی اس مرتبہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب بھی غیر معروف اور عوامی مقبولیت نہ رکھنے والی چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کررہے ہیں جس کا بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان کو پیپلز پارٹی کے شر سے بچانے کے لیے خود جاکر میاں نواز شریف ، عمران خان ، سید منور حسن ، ڈاکٹر طاہر القادری ، سنی تحریک اور محب وطن بلوچ سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملیں اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے الیکشن کے حوالے سے آئی جے آئی کی طرز پر نہ صرف ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیں بلکہ عوامی مسائل کے حل ، انرجی بحران سے نجات ، بے روزگاری کے خاتمے ، آزادانہ کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ایک جامع منشور تیار کرکے الیکشن میں حصہ لیں ۔لیکن نواز شریف ، عمران خان ، سیدمنور حسن اور ڈاکٹر طاہر القادری سمیت پیپلز پارٹی مخالف ہر جماعت کے قائدین الگ الگ بانسری بجاتے اور اپنی کامیابی کے راگ الاپتے سنائی دیتے ہیں ان دعووں کو سنہرے خوابوں کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔اب شنید ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف گرینڈ الائنس قائم کیاجارہا ہے جس میں مسلم لیگ ن ، جے یو آئی ف ، ق لیگ حقیقی اور سندھی قوم پرست شامل ہوں کیاہی اچھا ہو ا کہ سندھ کی طرح سیاسی جماعتوں کا وسیع تر اتحاد پاکستان سطح پر قائم کیاجائے جس میں نوازشریف ، عمران خان ، ڈاکٹر طاہر القادری ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جماعت اسلامی بھی شامل ہواور یہی اتحاد پنجاب ، سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی الیکشن میں مشترکہ طور پر حصہ لے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستانی قوم کو پیپلز پارٹی کے کرپٹ ، خائن اور نااہل حکمرانوں سے نجات دلائے ۔میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ اگر محب وطن جماعتوں کے قائدین یکجا نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر برسراقتدار آنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور بقول ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہ اگر اب پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئے تو بجلی پانی گیس کے ساتھ ساتھ گھاس بھی کھانے کو نہیں ملے گی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری امید کی کرن ضرور ہیں لیکن وہ اسی وقت موثر کردار ادا کرسکتے ہیں جب انہیں کم از کم ایک سال کے لیے نگران وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرکے بے رحم احتساب کا موقعہ بھی فراہم کیاجائے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.