عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی
رہنما بشیر احمد بلور کے قتل کے بعد جو ردعمل پاکستانی سیاستدانوں باالخصوص
حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ اس سے صاف لگ رہا ہے کہ
حکومت اس انتہائی حساس اور اہم مسئلے جسے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ کہا جاتا
ہے“ کو سنجیدہ طریقے سے لینے کے لیئے قطعاََ تیار نہیں۔ اس سلسلے میں اگر
پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کے کردار کو دیکھا جائے تو وہ بھی حکومت سے دو
ہاتھ آگے ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ یہ آگ بجھنے کے بجائے مزید بڑھکتی
ہی چلی جائے۔ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ بشیر بلور کے قتل کے
بعد پاکستانی ٹی وی چینلز نے اس واقعے پر اپنا مﺅقف اور رائے دینے کے لیئے
تقریباََ تمام ہی ان لوگوں کو سامنے لایا جو یا توحکومتی نمائندے تھے یا ان
کے اتحادی جماعتوں کے نمائندے یا پھر ان لوگوں کو سامنے لایا جو عسکریت
پسندی کے خلاف حکومتی مﺅقف کے حامی ہیں۔ ان تمام لوگوں سے بھی وہ سوالات
پوچھے ہی نہیں گئے جن کا پوچھنا وقت کی اہم ضرورت تھا بلکہ کئی مواقع پر ٹی
وی چینلز پر بیٹھے اینکرز نے منافقت کی انتہا کرتے ہوئے متعلقہ ذمہ داران
سے سوالات کیے۔ ان کے جواب بھی خود ہی دے دیے۔ مثال کے طور پر ایک چینلز کے
اینکر پرسن نے ایک سیاسی شخصیت سے پہلے سوال کیا اور ان کے بولنے سے پہلے
خود ہی بول پڑے کہ موجودہ واقعے کا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ یا امریکہ کے
اتحادی ہونے سے کوئی تعلق نہیں اور پھر اپنی بات پر خود ہی مہر تصدیق بھی
ثبت کردی کہ جی ہاں اس واقعے کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے کوئی تعلق نہیں
بلکہ یہ ایک الگ واقعہ ہے اور اس کو دوسرے پسِ منظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس
کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا اور روش خیال سیاستدانوں نے ملک کے مذہبی طبقے کو
مختلف اندزا سے تنفید کا نشانہ بنایا کہ یہ لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
حکومتی مﺅقف کی حمایت نہیں کرتے۔ ان اینکرز اور سیاستدانوں نے یہ بھی شکوہ
کیا کہ عوام حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی۔ جس کی وجہ سے حکومت تاحال اپنی
شروع کردہ مہم جوئی میں ناکام ہے۔ ایک اور بات جسے ہمارے قومی میڈیا نے طنز
کا نشانہ بنایا وہ تھا ماضی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا عمل۔ اس
کے علاوہ ایک اور مگر خاص نقطہ جسے پاکستان کے باشعور عوام نے نوٹ کیا وہ
تھا کہ اس مسئلے پر ان کے تجزیہ نگاروں، سیاستدانوں اور ان مذہبی رہنماﺅں
کو لائن پر لیا ہی نہیں گیا جن کے پاس اس مسئلے کا اصولی اور منصفانہ حل
اور قابلِ عمل تجاویز موجود ہیں۔ ایک آدھ رہنما کو اگر کسی پروگرام میں
مدعو کیا بھی گیا تو ان کی بات پوری ہی نہیں ہونے دی۔ ان تمام باتوں کو
سامنے رکھتے ہوئے ہم بخوبی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کی
ڈوریں ان لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جو کسی بھی صورت پاکستان میں خانہ جنگی کا
خاتمہ اور قیام امن نہیں چاہیتے۔ورنہ اب تو پاکستان میں خانہ جنگی برپا
کرنے والے جنگجو تحریک طالبان پاکستان بھی مذاکرات کی جانب اشارہ دے چکے
ہیں۔ بہر حال مندرجہ بالا باتیں تو سب اپنی جگہ اب آتے ہیں اصل ایشو کی
جانب۔
قطع نظر اس کے کہ بشیر احمد بلور کے پاکستان یا اسلام پسندوں کے متعلق
نظریات کیا تھے۔ ان کے قتل پر شاید کوئی بھی خوش نہ ہو کیونکہ وہ ایک ایسی
جنگ کے نذر ہوگئے جو کہ پرائی جنگ ہے اور اس جنگ کا نہ تو پاکستان کو پہلے
کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی آئندہ کوئی فائدہ ممکن ہے۔ اور اس بات کا اندازہ
آپ اس بات سے لگائیں کہ چند مہینے پہلے حکومتی رپورٹ سامنے آئی ہے اس کے
مطابق پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں اب تک ستر ارب
ڈالر کا براہِ راست نقصان پہنچ چکا ہے۔ جبکہ ذلیل و رسواکن شرائط منوانے کے
بعد امریکہ نے جو امداد پاکستان کو دی ہے وہ اس نقصان کے مقابلے میں نہ
ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ کئی بیرونی سرمایہ کار گروپ پاکستان میں
سرمایہ لگانے کو تیار نہیں جبکہ پاکستانی سرمایہ کار بھی بڑی تیزی کے ساتھ
بنگلہ دیش اور ملیشیا کا رخ کررہے ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف
اقوامِ عالم میں ہمارا وقار مجروح ہوا بلکہ اسلامی دنیا میں ہماری وہ پہلی
والی عزت نہیں رہی۔ آج پاکستانی سیکورٹی فورسز کو اپنے ہی لوگوں سے الجھا
دیا گیا ہے۔ لیکن افسوس سے لکھنا پڑھتا ہے اتنے سارے نقصان اٹھانے کے
باوجود بھی حکومت امریکی کمبل سے جان چھڑانے کا تیار نہیں بلکہ مسلسل اس
بات کی رٹ لگا رکھی ہے کہ ہم دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا خاتمہ کرکے دم
لیں گے۔ حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ عسکریت پسند ختم ہونے کے بجائے تیزی
سے بڑھ رہے ہیں جبکہ حکومت کا دم گُھٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اور اس بات
کا مشاہدہ ہم جی۔ایچ۔کیو، مہران بیس، کامرہ، پشاور ائیرپورٹ پر حملے اور
حالیہ واقعہ بشیر بلور کی ہلاکت کی صورت میں کرچکے ہیں اس لیے میں سمجھتا
ہوں کہ حکومت وقت پروپیگنڈے کے زور پر عوام الناس کو کنفیوز کرنے کے بجائے
حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرے اور یہ حل کوئی مشکل بھی
نہیں کیونکہ پاکستان کی قومی اسمبلی کم از کم دو دفعہ ایسے قرارداد منظور
کر چکی ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد کیا جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جا
سکتی ہے کہ پاکستان کے اندر سے انتقام اور انتقام کا موجودہ سلسلہ ختم ہو
جائے گا اور اگر باالفرض یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوسکا تو کم از
کم اتنا پتہ تو بہر حال چل ہی جائے گا کہ کوئی وطنِ دوست ہے اور کوئی وطنِ
دشمن۔
راستہ بھی ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ حکومت پہلے فرین مخالف 8 کے وجود
کو تسلیم کرے۔ کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کافی عرصے سے تحریکِ طالبان
پاکستان کے وجود سے ہی انکار ہے۔ اور ہم ایک عرصے سے حکومتی زعماءسے سنتے
چلے آرہے ہیں کہ یہ طالبان نہیں بلکہ یہ انڈیا، امریکہ وغیرہ کے ایجنٹ ہیں
جو پاکستانی فورسز اور حکومتی ارکان پر حملے کررہے ہیں۔ اور اگر چند دن تک
کوئی حملہ نہ ہوجائے تو پھر یہ بیانات سامنے آنے شروع ہوجاتے ہیں کہ ہم نے
ان کو بھگا دیا ہے یا ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔
حکومتی ذمہ داران کے مذکورہ بالا تمام بیانات اپنی جگہ حقیقت یہ ہے کہ وطن
عزیز کے باشعور عوام حکومت وقت کے ان دعوﺅں کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار
نہیں اور اس کے پیچھے بڑے ٹھوس اور مضبوط وجوہات ہے۔ مثال کے طور پر اس بات
میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ان دنوں غیر ملکی یعنی دشمن ممالک کے خفیہ اور
تخریبی کاروائیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور ان کے ایجنٹ پاکستان بھر میں
مختلف انداز سے دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ یہ غیر ملکی جاسوس
اور دہشت گرد کہیں تو تعلیم کا آڑ لے کر ہم پر حملہ آور ہیں تو کہیں صحت کے
شعبے میں گھس کر اپنا کام کر رہے ہیں۔ کہیں یہ براہِ راست پاکستانی عوام پر
حملہ آور ہیں تو کہیں طالبان کا روپ دھار کر اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ
طالبان کی صفوں میں شامل ہوچکے ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ
غیر ملکی عناصر آئے کہاں سے ہیں؟ کیا یہ عناصر پاکستان کے ہوائی اڈوں اور
پاکستانی سرحدوں سے ملک میں داخل ہوئے یا کوئی خلائی مخلوق ہے کہ جو کسی کو
نظر ہی نہ ائے۔ تو اس بات کا جواب بڑا ہی سیدھاسادھا ہے کہ یہ دہشت گرد
عناصر ہمارے فضائی اور زمینی سرحدوں سے ہی ہمارے ملک میں گھس آئے ہیں۔ لیکن
حکومت ان کی سرکوبی کے بجائے ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ اور اس بات کا ہمارا
قومی میڈیا شاہد ہے کہ کتنی بار غیر ملکیوں کو غیر قانونی اسلحے اور بغیر
قانونی دستاویزات کے پاکستان کے مختلف شہروں سے پکڑنے کا بعد اعلیٰ حکام کے
مداخلت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک اور اہم بات جس سے حکومتی دعوﺅں کا پول کھل
جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت یہ رونا روتی ہے کہ پاکستان میں
امریکہ اور ہندوستان دہشت گردی کرا رہے ہیں۔ اور تحریکِ طالبان پاکستان ان
کا آلہ بنا ہوا ہے۔ لیکن کیا عجیب بات ہے کہ حکومت ایک طرف جن ممالک کو
دہشت گرد ذمہ دار ٹھراتا ہے تو وہی دوسری طرف تمام تر قانونی اور اخلاقی
اقدار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نہ صرف ان کے دہشت گردوں کو چھوڑ رہا ہے بلکہ
ان کے مفادات کے لئے پاکستان کے مفادات قربان کر رہا ہے۔ اور اس کی مثال
ہمارے سامنے امریکی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس اور بھارتی دہشت گردوں کشمیر سنگھ
اور سرجیت سنگھ کی باعزت رہائی اور انڈیا کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک قرار
دینے کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ جہاں تک بات ہے تحریکِ طالبان پاکستان
کی تو یہ بات عین ممکن ہے کہ بہت سے مفادپرست لوگ اور گروپ اس میں شامل ہوں
گے اور وہ ذاتی مقاصد کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں گے۔ لیکن جہاں تک
بات ہے پورے ٹی ٹی پی اور اس کے قیادت کا تو یہ بات یقینی طور پر کہی جا
سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو موجودہ پالیسیوں کے خلاف ہے نہ کہ ریاست پاکستان
کے خلاف اور اس بات کا اندازہ ہم ماضی میں ان سے کیے گئے مذاکرات اور اس کے
بعد حالات کی صورت میں ہم کر چکے ہیں۔ لہٰذا اگر حکومت امریکہ سے تعلق توڑے
بنا بھی حالات ٹھیک کرنے میں مخلص ہے اور چاہتی ہے کہ بشیر احمد بلور کا
قتل طالبان کے کے ہاتھوں پاکستان میں آخری قتل ثابت ہو جائے تو اس کے لئے
درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔ لیکن اس لئے امریکہ کا تھوڑا بہت دباﺅ برداشت
کرنا ہوگا۔
(1) سب سے پہلے ملک کے اندر تمام تر خفیہ اور اعلانیہ آپریشن ختم کرے۔
(2) محبِ وطن اور محبِ اسلام لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو
طالبان سے مذاکرات کرے۔ واضح رہے کہ اگر حکومت چاہے تو دفاعِ پاکستان کونسل
کا پلیٹ فارم اس کام کے لئے موزوں ترین ہے۔
(3) حکومت وقت اگر امریکہ سے اپنے تعلق پر نظرِ ثانی نہیں کر سکتی یا ان کے
ڈرون حملے بند نہیں کرا سکتی تو طالبان کو کمیٹی کے ذریعے اپنی مجبوری سے
اگاہ کرے۔ اور اس کے بدلے طالبان کو امریکہ سے بدلہ چکانے کے کے لئے ڈیونڈ
لائن پر پکڑ دھکڑ ختم کرے۔
(4) ملک میں موجود امریکی-برطانوی-انڈین-ایرانی اور افغان جاسوسون اور
ایجنسیوں کا سراغ لگا کر بتدریج ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔
(5) عسکریت پسندوں کو رہائی دی جائے اور اگر باالفرض جیلوں سے براہِ راست
رہائی ممکن نہ ہو تو شفاف طریقے سے عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑنے کا اختیار
دیا جائے۔
(6) حکومت وقت طالبان کی طرف سے شرعی نظام کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرے
اور بتدریج اس کے راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔
(7) میڈیا کے لئے بھی ایک منصفانہ گائڈ لائن بنائی جائے تاکہ وہ غیر ملکی
طاقتوں کا آلہ کار بن کر حکومت ملک و ملت کے خلاف پرو پیگنڈہ نہ کرے۔
اگر حکومتِ پاکستان مندرجہ بالہ باتوں پر عمل کرتی ہے تو امید ہے کہ
پاکستان کے اندر موجودہ حالات بہتر ہو جائیں گے اور ان باتوں پر عمل کرنے
لئے بھی اگر کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر پوری قوم حکومت کے شانہ
بشانہ کھڑی ہوگی۔ لیکن اگر حکومت وقت موجودہ پالیسی کو جاری رکھتی ہے تو
پھر مجھے ڈر لگتا ہے کہ بشیر احمد بلور کی طرح دونوں فریقین کے مزید ہزاروں
جانیں اس آگ کا ایندھن بن سکتی ہیں۔ جس جا نقصان بہرحال ملک کو ہوگا۔ |