بال ٹھاکرے نفرتوں کا سوداگر

مسلمان دشمنی اور پاکستان دشمنی ان کی وجہ شہرت تھی۔

قدرت کا عجب نظام ہے کہ ساری زندگی مسلم دشمن کا پرچار کرنے والے بال ٹھاکرے کو آخری وقت میں موت کے منہ میں جانے سے روکنے والے تین معالجوں میں سے دو مسلمان ڈاکٹر تھے اور ان کی موت کا اعلان کرنے والے بھی مسلمان ڈاکٹر تھے۔

مبئی میں دو دن سے سارا شہر بند ہے، سڑکیں سنسان ہیں، ہر دکان، اور کاروبار بند ہے،ٹی وی پر خبروں کے علاوہ کوئی اور پروگرام نہیں چل رہا، اخبارات کے صفحوں پر ایک ہی خبر ہے، بال ٹھاکرے کی موت کی خبر ، سامنا (مراٹھی اخبار) اوردوپہر کا سامنا (ہندی میں) دونوں اخبارات کے صفحات مسلسل دوسرے دن بھی سوگ کی علامت کے طور پر سیاہ صفحات میں شائع ہوئے ہیں۔ بال ٹھاکرے،دونوں اخبارات کے بانی مدیر تھے ۔ اپنی شروعات 23 جنوری، 1988 کے بعد سے تاریخ میں پہلی بار ہے، کہ اس کے دو اہم صفحات بلیک پرنٹ ہوئے ہیں۔ اخبار میں ایک تصویر نمایاں ہے وہ ہے بال ٹھاکرے کی جس پر سرضی ہے۔ "دنیا شیوسینا سربراہ کی طاقت اور 'شیوسنکو عقیدت" کی گواہ رہے گی۔ بال ٹھاکرے کی ارتھی ہندوستانی پرچم میں لپیٹ کر ، توپوں کی سلامی کے ساتھ آخری رسومات کے لئے چلی تو لاکھوں افراد اس جلوس میں تھے۔پولیس کمشنر نے اپنی بیٹی کی شادی کی تقریب ملتوی کردی تھی۔ مہاراشٹر کے دارالحکومت میں صنعتی و شہری سرگرمیاں معطل رہیں جبکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کیلیے 48ہزار پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی تھی۔ نو کلو میٹر کا فاصلہ دس گھنٹوں میں طے ہوا۔ ممبئی کی فلموں سے وابستہ بڑی بڑی شخصیات گھنٹو ں اس تقریب میں کھڑی رہی ۔بابری مسجد کی شہادت ،اور بھارت میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل اور ان کے سیکڑوں گھرجلا نے کے الزامات اور مقدمات میں ملوث سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے تقریباً چھیالیس سال تک عوامی زندگی میں رہے اور متنازع بیانات کے ساتھ ان کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔

بال ٹھاکرے کیخلاف 1993میں ممبئی میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے الزامات تھے اورسرکاری انکوائری میں اسے ذمے دار بھی قرار دیا گیا تھا تاہم حکومت اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔انہوں نے نہ تو کبھی کوئی انتخاب لڑا، نہ ہی کوئی سیاسی عہدہ ہی قبول کیا، پھر بھی بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ ان کے متنازعہ بیانات اور سیاست میں تشدد سے ہر شخص اور حکومت خوفزدہ رہتی تھی۔ وہ اعلانیہ ہٹلر کے پرستار تھے۔ اور اسی کے نقش قدم پر چل کر دہشت کی مقبولیت کو اپنا موٹو بنایا تھا۔تاریخی بابری مسجد کے انہدام کے بعد انھوں نے کہا تھا ’ہمارے لوگوں نے اسے گرایا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔‘

وہ تشدد کے استعمال کے حق میں بھی تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’میں سیاست میں تشدد اور طاقت کا استعمال کروں گا کیونکہ کمیونسٹوں کو یہی زبان سمجھ آتی ہے اور کچھ لوگوں کو تشدد کا ڈر دکھانا چاہیے تب ہی وہ سبق سیکھیں گے۔‘

نومبر دوہزار نومیں بھارتی کرکٹر سچن ٹندولکر نے کرکٹ کے میدان میں جب یہ کہا کہ ممبئی تمام ہندوستانیوں کا ہے۔ تواس بیان پر بال ٹھاکرے نے سچن کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔بال ٹھاکرے نے کہا تھا کہ جب آپ چوکا یا چھکا لگاتے ہیں تو لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں، لیکن اگر آپ مراٹھیوں کے حقوق کی خلاف ورزی کریں گے یا ان پر تبصرہ کریں گے تو اس سے مراٹھی مانس کو ٹھیس پہنچے گی اور وہ اسے کبھی برداشت نہیں کریں گے۔اس وقت بال ٹھاکرے نے سچن ٹندولکر کو کرکٹ کے بہانے سیاست نہ کرنے کی نصیحت بھی دی تھی۔ بہرحال تندولکر اب بھارت کے ایوان بالا کے نامزد رکن ہیں۔ اپریل دوہزار دس کو بال ٹھاکرے نے بھارت کی سٹار ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جب انھوں نے پاکستانی کرکٹ کھلاڑی شعیب ملک کے ساتھ شادی کا اعلان کیا تھا۔ بال ٹھاکرے نے ایک بار پھر اپنے جانے پہچانے انداز میں کہا تھا کہ ثانیہ اگر بھارت کے لیے کھیلنا چاہتی ہیں تو انہیں کسی بھارتی کو ہی اپنا رفیق حیات منتخب کرنا ہوگا اور اگر ثانیہ مرزا نے شعیب سے شادی کی تو وہ بھارتی نہیں رہ جائیں گی، ان کا دل اگر ہندوستانی ہوتا تو کسی پاکستانی کے لیے نہیں دھڑکتا۔بال ٹھاکرے نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ثانیہ اپنے کھیل کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تنگ کپڑوں، فیشن اور محبت کے قصوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔
بھارت کی دوسری ریاستوں سے ممبئی آکر بسنے والوں کے خلاف بال ٹھاکرے نے اپنی سیاست چمکائی تھی۔ وہ ان کے خلاف آخر تک انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کرتے رہے۔

مارچ دو ہزار دس میں مہاراشٹر کے گورنر کے شنیرنارائن نے کہا تھا کہ ممبئی میں کوئی بھی رہ سکتا ہے۔
اس پر بال ٹھاکرے نے شیوسینا کے ترجمان اخبار ’سامنا‘ میں لکھا تھا کہ ممبئی دھرم شالہ بن گئی ہے، بیرونی لوگوں کو آنے سے روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ پرمٹ سسٹم نافذ کر دیا جائے۔پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کو انڈین پریمیئر لیگ یعنی آئی پی ایل میں شامل کرنے کی بات چلی تو اداکار اور کولکاتہ نائٹ رائڈرز کے مشترک مالک شاہ رخ خان نے اس بات کی حمایت کی۔

اس سے مشتعل ہو کر بال ٹھاکرے نے شاہ رخ خان کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔بال ٹھاکرے نے اس وقت کہا تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی وکالت کے لیے شاہ رخ خان کو ’نشان پاکستان‘ سے نوازا جانا چاہئے۔ بال ٹھاکرے نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بھارت کے میچ کی مخالفت کی انھوں نے آئندہ ماہ ہونے والے بھارت پاکستان سیریز کی بھی مخالفت کی تھی۔ شیوسینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے نے کبھی نہ تو کوئی انتخاب لڑا اور نہ ہی کوئی سیاسی عہدہ قبول کیا۔یہاں تک کہ انہیں باقاعدہ طور پر کبھی شیوسینا کا صدر بھی نہیں بنایا گیا تھا، لیکن ان سب کے باوجود مہاراشٹر کی سیاست اور خاص طور پر اس کے دارالحکومت ممبئی میں ان کا حکم چلتا تھا۔ اور کوئی اس سے چوں چرا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کاروبار، ملازمت،سیاست ، کھیل، فلم، اخبار، میڈیا ، پولیس حکومت، سیاست،ممبئی کی زیر زمین دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے۔ فلم کے ہیرو اور ہیروین کا انتخاب وہ کرتے تھے۔ اور کونسی فلم چلے گی اور کون سی نہیں یہ بھی ان کا فیصلہ ہوتا تھا۔ ان کا سیاسی سفر بھی بڑا منفرد تھا۔ وہ ایک پیشہ ور کارٹونسٹ تھے اور شہر کے ایک اخبار فری پریس جرنل میں کام کرتے تھے۔بعد میں انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور مراٹھی بولنے والے مقامی لوگوں کو ملازمتوں میں ترجیح دیے جانے کی مانگ کو لے کر تحریک شروع کر دیی۔ممبئی (اس وقت ممبئی کو بمبئی کہا جاتا تھا) میں واقع کمپنیوں کو انہوں نے نشانہ بنایا لیکن دراصل ان کی یہ مہم ممبئی میں رہنے والے جنوبی ہندوستانیوں کے خلاف تھی کیونکہ شیوسینا کے مطابق جو ملازمتیں مراٹھیوں کے حصے میں آنی چاہیے تھیں ان پر جنوبی ہندوستانیوں کا قبضہ تھا۔جنوبی ہندوستان کے کاروبار، املاک کو نشانہ بنایا گیا اور آہستہ آہستہ مراٹھی نوجوان شیوسینا میں شامل ہونے لگے۔

انھوں نے اپنی پارٹی کا نام شیوسینا سترھویں صدی کے ایک جانے مانے مراٹھا راجہ شیواجی کے نام پر رکھا تھا۔ شیواجی مغلوں کے خلاف لڑے تھے۔ انھوں نے مسلح جھتے تیار کیئے جو جب چاہئے کسی کو بھی ان کے حکم پر تشدد کا نشانہ بناسکتے تھے۔ سیاسی حریفوں، تارکین وطن اور یہاں تک کہ میڈیا پر شیوسینکوں کے حملے عام بات تھی۔دیکھتے دیکھتے ممبئی کے ہر علاقے میں مقامی دبنگ نوجوان شیوسینا میں شامل ہونے لگے۔ ایک گاڈ فادر کی طرح بال ٹھاکرے ہر تنازعے کو حل کرنے لگے۔لوگوں کو نوکریاں دلانے لگے اور انہوں نے حکم دے دیا کہ ہر معاملے میں ان کی رائے لی جائے۔ یہاں تک کی فلموں کی نمائش میں بھی ان کی من مانی چلنے لگی۔بال ٹھاکرے کی زندگی سے جڑی کئی خیالی کہانیاں عام ہونے لگیں۔کہا گیا کہ وہ جرمنی کے سابق ڈکٹیٹر ہٹلر کے مداح ہیں۔ ایک میگزین میں ان کے حوالے سے یہ خبر دی گئی تھی لیکن انہوں نے نہ تو اس کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ممبئی مونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں ان کی پارٹی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی ۔شیوسینا کا اثر ممبئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک ہی محدود رہا اور ابتدا میں ریاست کے دوسرے علاقوں میں پارٹی کا کچھ خاص اثر نہیں تھا۔بال ٹھاکرے کو ممبئی میں ہی مقبولیت حاصل تھی۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی دور میں حکمراں کانگریس نے شیوسینا کو یا تو نظر انداز کیا یا پھر کئی معاملات میں کمیونسٹوں یا اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے لیے شیوسینا کو حوصلہ افزائی کی۔

لیکن اسّی کی دہائی کے دوران شیوسینا ایک بڑی سیاسی قوت بن گئی جو ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنی دعویداری پیش کر رہی تھی۔انیس سو بانوے میں اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں تاریخی بابری مسجد کے منہدم کیے جانے کے بعد ممبئی میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جو کئی ہفتوں تک چلے۔ان فسادات میں شیوسینک بھی شامل رہے، فسادات میں کل نو سو افراد ہلاک ہوئے۔ سینکڑوں لوگوں نے فسادات کے بعد ممبئی چھوڑ دیا اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔

صرف تین سال کے بعد شیو سینا اور بی جے پی اتحاد ریاست میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ بال ٹھاکرے نے اپنے ایک بہت ہی قریبی رہنما کو وزیر اعلی بنایا اور اقتدار کی چابی خود اپنے پاس رکھی۔گزشتہ ایک دہائی میں شیوسینا کی مہم کا رخ بھارت کی دوسری ریاستوں سے ممبئی آنے والے تارکین وطن اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہو گیا۔

ٹھکرے ایک اچھے مقرر تھے اور لوگوں کو اپنی پرجوش باتوں سے خوب متوجہ کرتے تھے۔ممبئی کے شیواجی پارک میں ہر سال ہندوؤں کے تہوار دسہرہ کے موقع پر ان کے حامیوں کو ان کے بیان کا خوب انتظار رہتا تھا۔ اس سال وہ خراب صحت کی وجہ سے شیواجی پارک تو نہیں جا سکے لیکن اپنے حامیوں کے لیے انہوں نے ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے پیغام بھیجا جس میں انہوں نے اپنے چاہنے والوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کے بیٹے اور شیوسینا کے ایگزیکٹو صدر اودھو ٹھاکرے کو اتنا ہی پیار اور عزت دیں جتنا انہوں نے بال ٹھاکرے کو دیا تھا۔ایک کارٹونسٹ کے طور پر بال ٹھاکرے برطانوی کارٹونسٹ ڈیوڈ لو کو بہت پسند کرتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم پر ڈیوڈ لو کے کارٹون بہت مقبول ہوئے تھے۔حالیہ دنوں تک ٹھاکرے اپنے مراٹھی ہفتہ وار ’مارمی‘ کے لیے خود کارٹون بناتے تھے۔

ایک طاقتور لیڈر ہونے کے باوجود بال ٹھاکرے اپنے ساتھیوں کو جوڑ کر نہیں رکھ سکے۔ ان کے بہت سے قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔خود بال ٹھاکرے کے بھتیجے راج ٹھاکرے نے ان کی پارٹی چھوڑ دی کیونکہ بال ٹھاکرے نے اپنے بیٹے اودھو ٹھاکرے کو اپنا وارث مقرر کر دیا تھا۔حالیہ دنوں میں دونوں ٹھاکرے برادران کے کچھ قریب آنے کی خبریں آتی رہی ہیں اور یہ اندازہ بھی لگایا جانے لگا کہ راج ٹھاکرے اور اودھو ٹھاکرے میں انتخابی اتحاد بھی ہو سکتا ہے لیکن راج ٹھاکرے اپنی پارٹی کو تحلیل نہیں کریں
۔
23 جنوری 1926ءکو پیدا ہونے والے بال ٹھاکرے نے شیو سینا کی بنیاد 1996ء میں ڈالی تھی۔ تب ان کا بنیادی محرک یہ تھا کہ ملازمتوں کے معاملے میں باہر سے آکر ممبئی میں آباد ہونے والوں کی بجائے یہاں کے ان مقامی باشندوں کو ترجیح دی جائے، جن کی مادری زبان مراٹھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ممبئی پر پہلا حق صرف مراٹھیوں کا ہے‘۔تقریباً 20 ملین کی آبادی والا ممبئی بھارت کا خوشحال ترین شہر اور ریاست مہاراشٹر کا دارالحکومت ہے اور اس شہر کی سیاست گزشتہ دو عشروں سے مکمل طور پر کٹر مذہبی نظریات کے حامل بال ٹھاکرے کے کنٹرول میں تھی۔ ٹھاکرے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو اکثر 'قوم دشمن‘ کہا کرتے تھے۔ وہ پاکستان پر بھی سخت تنقید کیا کرتے تھے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بھارتی کوششوں کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اس سال جولائی میں شیو سینا کے اخبار 'سامنا‘ میں بال ٹھاکرے نے لکھا کہ 'بھارت میں دھماکوں میں ملوث پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کرنا ایک ڈھونگ ہے جبکہ ا ±ن کے ساتھ کرکٹ کھیلنا غداری ہے ۔ کارٹونسٹ کی حیثیت سے اسے ابتداءمیں کامیابی ملی لیکن جلد ہی تنخواہ پر جھگڑا ہو جانے کی وجہ سے انھوں نے نوکری چھوڑ دی اور بمبئی سے غیر مراٹھی لوگوں کو باہر نکالنے کی تحریک شروع کی۔بال ٹھاکرے نے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا ۔ بال ٹھاکرے کے مطابق یہ تنظیم صرف مراٹھی نوجوانوں کو انصاف دلوانے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ غیر مراٹھیوں کے خلاف اس تحریک نے متعدد دفعہ تشدد کا رنگ اختیار کیا۔ شیو سینا میں بال ٹھاکرے کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر نہیں تھا۔ حتی کہ جماعت میں تنظیمی انتخابات کی بات کرنے کی بھی حماقت کسی نے نہیں کی۔ جن لوگو ں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی انہیں جماعت سے نکال دیا گیا۔ ان میں چھگن بھجبل بھی شامل تھے جو مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ بھی رہے۔۔جب 1995ء میں مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بنی، تو حکومت سے باہر رہنے کے باوجود تمام فیصلے بال ٹھاکرے ہی کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ وہ ریموٹ کنٹرول سے حکومت چلاتے ہیں۔ ان کی جماعت مرکزی حکومت میں بھی شامل رہی اور اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پر ہمیشہ دباؤ قائم رکھا۔ شیو سینا کے ایک رکن پارلیمان کی جانب سے وزیر اعظم کے قریبی معاونین پر بدعنوانی کے الزامات پر واجپئی اتنا ناراض ہوئے کہ انہوں نے استعفے کی پیش کش کر دی تھی۔ بعد میں2005ء اور 2006ء میں شیو سینا میں شدید اختلافات سامنے آئے۔ اور اس کے کئی کارکنان بال ٹھاکرے کی آمرانہ حکمت عملی کی وجہ سے جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ حتی کہ بال ٹھاکرے کے بھتیجے نے علیحدہ ہو کر ایک نئی جماعت بنائی۔

بال ٹھاکرے نے کھلم کھلا ہٹلر کو اپنا سیاسی پیشوا تسلیم کیا، اس کا کہنا تھا کہ جرمنی کے فسطائی رہنما کے بارے میں لوگ جو بھی کہیں، ہٹلر نے جو بھی کیا جرمنی کے حق میں ہی کیا۔بال ٹھاکرے کی پوری سیاست اسی نظریہ کے ارد گرد گھومتی رہی اور اپنے مسلمان مخالف نظریہ کو وہ اسی تناظر میں پیش کرتا رہا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی مقبولیت میں اس کے اقلیت مخالف متنازعہ بیانات کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ قوم پرست طبقہ اس طرح کی باتیں سننا چاہتا ہے۔ موت سے دو دن قبل بال ٹھاکرے کی عیادت کو جانے والے بالی وڈ اسٹارامیتابھ بچن اور ان کے بیٹے ابھیشک بچن پر شیو سینا کے کارکنوں نے حملہ کرکے زخمی کردیا تھا ۔ب بلکہ ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے تھے۔ تاہم امیتابھ بچن نے گھر واپسی پر ٹوئٹر پر حملے کی تصدیق کی اور مزیدلکھا کہ جب وہ فلم ”قلی“ کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہوئے تھے تو بال ٹھاکرے ان کی عیادت کواسپتال بھی آئے تھے۔

بال ٹھاکرے کی ہندو انتہا پسند تنظیم شیوسینا نے بھی نازی اور فاشسٹ پارٹی کے بہت سے اصول اپنائے۔ ہفتہ کو ڈاکٹروں نے میڈیا کے سامنے بال ٹھاکرے کے چل بسنے کا احوال بیان کیا تو ممبئی سمیت آس پاس کے شہروں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ کاروباری زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ممبئی پولیس بھی خوفزدہ تھی اور آخری رسومات ادا کرنے کے موقع پر ہدایت نامہ (ایڈوائز) جاری کی تھی کہ شہری اپنے گھروں سے بلاوجہ باہر نہ نکلیں حکام نے گزشتہ ہفتے سے ہی پولیس کی تمام چھٹیاں منسوخ کرکے انہیں الرٹ کر دیا تھا۔ انھوں نے 1966ءمیں شیوسینا پارٹی کی بنیاد رکھی لیکن بہت عرصہ تک اسے ممبئی کے انڈر ورلڈ اور سیاست میں کوئی نمایاں مقام نہیں ملا۔ تب اسے کسی نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ شیوسینا کا ایک نکاتی منشور غیر اعلانیہ طور پر پاکستان دشمنی قرار دے دیا جائے چنانچہ تب سے بال ٹھاکرے نے پاکستان دشمنی کو اپنا کاروبار بنا لیا اور واقعی اس کی وجہ سے اس کی پارٹی میں ایک طرف انتہا پسند ہندو اور دوسری طرف جرائم پیشہ افراد اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے دھونس، دھاندلی اور دھمکیوں سے بھتہ لینے والی ممبئی کی انڈر ورلڈ میں اپنا ایک مقام بنا لیا لیکن دوسرے بھتہ لینے والے گروہوں سے چپقلش چلتی رہی، خصوصاً فلم انڈسٹری اور بلڈر مافیا سے بھتہ لینے والے گروپ بہت طاقتور تھے، جب اس کے بیٹے نے جبراً ایک انڈین فلم کے پروڈیوسر ہونے کے حقوق حاصل کئے تو فلم انڈسٹری میں سرمایہ لگانے والوں نے اسے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں پار کر دیا۔ بال ٹھاکرے کی اپنے بھائی کے ساتھ بہت دوستی تھی لیکن جب اس کے بیٹے نے مفادات کے چکر میں اصل روپ دکھایا تو علیحدگی ہو گئی اور اس نے الگ سیاسی پارٹی (اور بھتہ گروپ) قائم کر لیا۔ اس وقت اس کے تمام امور اودھے ٹھاکرے چلا رہا تھا اور اب اودھے ٹھاکرے اب شیوسینا کا نیا سربراہ ہوگا جس کی بال ٹھا کرے نے وصیت کی ہے۔ لیکن اب شائد وہ پاکستان دشمنی کو اپنانے کا کاروبار نہ بنائے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور آج چتا میں جلنے والی ارتھی کی راکھ کے گنگا ب ±رد کرنے سے ایک باب ختم ہو گیا۔ راجکپور نے صحیح کہا تھا۔ رام تیری گنگا میلی ہو گئی پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے ۔نفرتوں کے سوداگر بال ٹھاکرے دنیا کے ان بدقسمت لوگوں میں سے ایک تھے جن کے مرنے پر اس کے چاہنے والوں کے اتنے آنسو نہیں بہے جتنا اس کے مخالفین نے سکھ کا سانس لیا۔ تشد، نفرت، خون، دشمنی، بھتہ خوری اور ہر سنگین جرم سے مزین بال ٹھاکرے کی زندگی مسلسل تنازعات کی زد میں رہی۔ ذاتی زندگی کی محرومیاں اور مشکلات اپنی بدترین بربریت اور وحشیانہ پن کے ساتھ باہر آئیں اور پھر وہ ممبئی کا سب سے طاقتور ترین شخص بن گیا۔ بڑے بڑے بدمعاش اور گینگ ماسٹرز اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے، کئی انڈین فلموں کے خاموش ”ولن“ کے کردار بال ٹھاکرے کی شخصیت کو سامنے رکھ کر ہی تخلیق کیے گئے۔۔ بال ٹھاکرے کی پارٹی کا بنیادی سیاسی ایجنڈا ممبئی میں باہر کے رہائشیوں، گجراتیوں اور جنوبی بھارتی شہریوں پر حملہ کرنا تھا جن پر وہ مقامی میراٹھی زبان بولنے والے لوگوں کے حقوق چرانے کا الزام عائد کرتے تھے۔ 1999ءمیں ان پر چھ سال کے لیے انتخابات میں حصہ لینے حتیٰ کہ ووٹ ڈالنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جو دسمبر 2005ء میں ختم ہوئی ان کی جماعت 2009ء میں ریاستی انتخابات ہار گئی اور اس کے بعد ہی ٹھاکرے کی صحت بھی گرنا شروع ہوئی۔ بال ٹھاکرے سفید رنگ کے کپڑے ، نارنجی رنگ کی چادر اور سیاہ چشمہ پہنے رکھتے تھے۔بال ٹھاکرے اپنی پارٹی کے اخبار ”سامنا“ کا بے دریغ استعمال کرتے تھے جس میں 6دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے وقت انہوں نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے حق میں ایک مضمون لکھا تھا۔ سی بی آئی کی طرف سے ان پر بابری مسجد کی شہادت کی سازش رچانے کا الزام عائد کیا گیا اپنی نفرت آمیز تقاریر کی وجہ سے ان پر متعدد مقدمات دائر کیے گئے۔ یہاں تک کی فلموں کی نمائش میں بھی ان کی من مانی چلنے لگی۔اور تمام ہالی وڈ سٹارز ہاتھ باندھے ان کے آگے موجود رہتے اور پھر ممبئی میں فلم ریلز کرنے کے لیے بھی ان سے منظوری لینا ضروری سمجھا جانے لگا۔یہ قدرت کا عجب نظام ہے کہ ساری زندگی مسلم دشمن کا پرچار کرنے والے بال ٹھاکرے کو آخری وقت میں موت کے منہ میں جانے سے روکنے والے تین معالجوں میں سے دو مسلمان ڈاکٹر تھے اور ان کی موت کا اعلان کرنے والے بھی مسلمان ڈاکٹر تھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت اور وحشت بھی انسانی خواہشات کے آگے ہار جاتی ہے۔ آج بھارتی مسلمان دعا کر رہے ہیں کہ ظلم و تشدد کے پیرو کار بال ٹھاکرے کی موت کے ساتھ ہی اس کی زہریلی سوچ اور خون آشام پالیسی بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے تا کہ کروڑوں بھارتی مسلمانوں کو سکون کا سانس نصیب ہو سکے-
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387722 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More