حکومت اپنی شکست تسلیم کر لے

پشاور کے نزدیک ماشو خیل میں ایک پاکستانی چیک پوسٹ سے اغوا کئے جانے والے اکیس لیویز کو دہشت گردوں نے اغوا کرنے کے بعد شہید کردئے ۔ حسب سابق تحریک طالبان درہ آدم خیل نے اس سانحے کی ذمے داری بھی قبول کرلی۔جس کے بعد تحریک طالبان کے حکیم اللہ محسود اور عصمت اللہ کیجانب سے حکومت کو مذاکرات اور مفاہمت کی پیش کش اور خیبر پختونخوا کیجانب سے مثبت جواب آنے کے باوجود اس قدر پر تشدد ، سفاک کاروائی نے یہی سوال کھڑا کیا ہے کہ آخر ایک جانب جب مذاکرات کےلئے پینتالیس منٹ کی ویڈیو کے ذریعے پیغام جاری کیا جارہا ہے تو دوسری جانب لیویز اہلکاروں کو قطار میں کھڑا کرکے اس طرح ہلاک کرنا ، انتہائی مایوس کن اور افسوس ناک عمل ہے۔گو کہ تحریک طالبان پاکستان درہ آدم خیل کے ترجمان محمد نے ان ہلاکتوں کو مولانا گل نصیب،عبدالحمید ، فیصل اور پیر صاحب کی مبینہ طور پر زیر حراست ہلاکت کا بدلہ قرار دیا ہے۔امن مذاکرات کو مثبت عمل قرار دےتے ہوئے اپنے کالموں میں بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک نیک نیتی اور متفقہ نمائندہ منظر عام پر نہیں آتا تو پھر بتیس سے زائد خود طالبان قرار دینے والے ان گروپوں سے مذاکرات کرنا لاحاصل ہیں۔ رواںمہینے میں پشاور اوراس گرد ونواح میں ہونے والا تیسرا بڑا حملہ تھا ، جبکہ دو ہفتے قبل پشاور ہوائی اڈے،اور بشیر بلور پر خود کش حملوں کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے شدت کے ساتھ شمالی وزیر ستان میںآپریشن کا مطالبہ کیا گیا، وفاقی حکومت ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد بین الاقوامی دباﺅ کا شکار تھی تاہم کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کو متنازعہ بنا دئے جانے کے سبب سوات میں جس طرح کوڑے والی جعلی ویڈیو کی آڑ میں آپریشن کیا گیا تھا ۔اس بار حکومت کی جانب سے صرف مولانا فضل اللہ کی گرفتاری کے لئے امریکہ سے مطالبے کی حد تک رسائی رہی ،لیکن پشاور میں دو بڑے واقعات کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے انتہائی سخت رویہ اختیارکیا گیا جس سے اندازہ تھا کہ وفاقی حکومت کو اپنی اتحادی جماعت سمیت مملکت میں مزید کاروائیوں کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کچھ اقدامات کرنا ہونگے ۔ جس کے بعد اچانک ، پہلے پنجاب کے امیر عصمت اللہ اور پھر حکیم اللہ محسود نے حکومت کو مذاکرات کی پیش کش کرکے پھر ایک ایسا ماحول پیدا کردیا کہ سیاسی اورمذہبی جماعتیں دوبارہ منقسم ہوگئی ۔ لیکن اب ایک بار پھر نیم فوجی اہلکاروں کی جس طرح ہلاکتیں ہوئیں ہیں اور حکومتی رٹ ناکام ہوئی ہے اس نے مذاکرات کے کسی بھی عمل میں مثبت پیش رفت کا امکان کو مشکوک بنادیا ہے۔نو ماہ قبل 3مارچ کوبھی فرنٹیئر کور کے چار اہلکاروں کو بلوچستان کے ضلع ذوب کی ایک چیک پوسٹ پستوڑہ سے طالبان حملے کے بعد اغوا کرکے حکومت سے مغوی اہلکاروں کے توسط سے شرائط تسلیم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔بلوچستان میں ہزارہ کیمونٹی کے افراد اور زائرین کو جس طرح مسلسل دہشتگردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس پرتو افسوس اور حکومتی بے حسی کےلئے الفاظ بھی میسر نہیں ہے۔ مستونگ میں ہزارہ کیمونٹی کے سو سے زائد افراد کے ہلاکتوں کے علاوہ اس اتوارانیس زائرین کی حالیہ ہلاکت اور بلوچستان میں آئے دن کراچی کی طرح ٹارگٹ کلنگ نے عوام میں تحفظ کے احساس کوختم کردیا ہے ۔ ہزارہ ڈیمو کرٹیک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ کے مطابق گذشتہ بار ہ سالوں میں ہزارہ قبیلے کے آٹھ سو افراد ہلاک اور دو ہزار کے قریب معذور جبکہ تیس ہزار ملک چھوڑ کے غیر قانونی طور آسٹریلیا اور یورپ میں پناہ لے رکھی ہے۔بلوچستان میں لا پتہ افراد کا معاملہ خطرناک طور پر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن چکا ہے ۔ حکومت نے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لانے کےلئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی سر براہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا تاہم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے صدر نصر اللہ بلوچ کے کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے کہ کمیشن توقع کے مطابق کام نہیں کر رہا ۔جبکہ اس سال امریکی ایوان نمائندگان نے بھی پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا ۔گذشتہ چارسالوں میں دو درجن سے زائد صحافی دہشدت گردی اور فائرنگ کے مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں ۔سندھ میں تو آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ سندھ حکومت کے مشیر شرف الدین میمن کا کہنا ہے کہ اغوا کرنے والے مقامی جرائم پیشہ ہوں تو معاملہ چھ ہفتے میں نمٹ جاتا ہے لیکن اگر طالبان ملوث ہوں تو چھ مہینے بھی لگ سکتے ہیں کیونکہ ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ادائیگی غیر ملکی کرنسی میں کی جائے۔ جبکہ حیران کن طور پر جنوبی وزیر ستان طالبان کے امیر مولوی نزیر کی جانب سے کراچی میں تحریک طالبان کے لیٹر پر ایک اعلامیہ تقسیم کرایا کہ طالبان کے نام پر اس طرےقے سے رقوم وصول کرنے والوں کا تحریک طالبان سے کوئی تعلق نہیں اگر کوئی اس طرح مطالبہ کرتا ہے تو انھیں اطلاع دی جائے۔دس برسوں میں دہشت گردی سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد پینتس سے چالیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔اہم بات یہ ہے اب تک پانچ ہزار سے زائد فوجی اور پولیس بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔1948کی کشمیر جنگ ، 1965کے بھارت معرکے ، 1971میں بغاوت ، اور1999میں کارگل معرکے میں بھی اتنے فوجی شہید نہیں ہوئے جتنے دہشتگردی کے چند سالوں کے واقعات میں ہوئے ہیں ۔قابل غور بات یہ ہے قیام پاکستان سے لیکر آج تک کبھی سیاسی و مذہبی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوا ۔ لیکن اب بار بار اتفاق رائے کا راگ الاپنے کے باوجود دہشتگردی کے خلاف مربوط پالیسی کومنطقی انجام تک پہنچانے کی استعداد کار حکومت میں نہیں رہی ہے۔انسداد پولیو مہم میں کراچی جیسے شہر میں خواتین ،معصوم بچیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ اپنے عروج پر ہے۔ خیبر پختوخوا میں دہشت و وحشت کا سائے ہیں، بلوچستان میں پہاڑوں میں مورچہ بند اور صرف پاکستان کے ہی نہیں بلکہ ، پنجابی ، سندھی ، پٹھان بھی غلطی سے کہیں اندرون بلوچستان چلا جائے تو گردن کٹی لاش بھی نہیں ملتی۔کراچی میں بم دہماکوں کا تسلسل سے ہونے لگے ہیں ۔سب کچھ دہشتگردوں کی مرضی سے ہورہا ہے ۔ آٹے دال ، گیس کی قیمتیں عدلیہ طے کر رہی ہے۔ اربوں روپوں کی مراعات، سرمایہ دار ، وڈیرانہ اور مورثی سیاست کے جانشین لے رہے ہیں ۔عوام خودکشیاں کر رہے ہیں۔پاکستان کی حالت اس قدر گردگوں ہے کہ حکومتی مدت پوری ہونے پربے شرمی سے جشن منایا جارہا ہے۔عوام کا رجحان ہر سیاسی جماعت اپنے نظرئےے کی جانب موڑ رہی ہے اور پریشر گروپس کی جانب سے اس امر میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ نگران حکومت کی آڑ میں انتخابات کا التوا ہوگا ۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو ۔لیکن جس طرح پریشر گروپ من پسند نگران سیٹ اپ چاہتے ہیں وہ ان ضدشات کو تقویت دے رہا ہے کہ ماضی میں ہونے والے تمام غلطیوں سے ہم نے معمولی بھی سبق حاصل نہیں کیا۔حکومت کو اپنی ناکامی تسلیم کرلینا چاہیے۔بصورت دیگر جس طرح عراق کے نائب وزیراعظم کو اُن کی عوام نے آج جوتے مارے اور شرمناک طرےقے سے عوام کے غیض وغصب سے بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ممکن ہے کہ کل ہمارے حکمرانوں کو بچنے کا موقع بھی نہیں مل سکے۔حکومت شکست کرلے کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ قومی خزانے کواقربا پروری اور ذاتی مقاصد کےلئے استعمال کرنے کی عادت ہے ایسے بدل دے۔معاشی بد حالی اور دہشتگرد ی کی روک تھام میں ناکامی کے بعد، اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ لیں تو زیادہ بہتر ہے۔تحریک منہاج القرآن جس طرح عوام کو سڑکوں پر لا رہے ہیں اس پر غیر سنجیدگی ختم کردیں کیونکہ ، تحریک انصاف اور اب ایم کیو ایم کیجانب سے ان کی حماےت کے اعلان کے بعد ملک کی سیاسی فضا بدل رہی ہے ۔جس کے نتائج پر ارباب اختیار کوتدبرچاہے۔حکومت دوسروں کی ناکامی اور اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے سب سے پہلے اپنی شکست تسلیم کرکے فوری انتخابی روٹ میپ کا اعلان کردے تاکہ کم از کم ملک سے بے یقینی کی فضا توختم ہوسکے۔
Qadir Afghan
About the Author: Qadir Afghan Read More Articles by Qadir Afghan: 399 Articles with 263334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.