پاکستان سے افغان مہاجرین کے رضا
کارانہ واپسی کا عمل ایک بار پھر موخر کر دیا گیا۔ کیونکہ پاکستان میں
افغان مہاجرین کی واپسی کا معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے اور ان کی باقاعدہ
قانونی شہریت کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں تھیں اس لئے جب بھی
افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کےلئے کسی تاریخ کا تعین کیا جاتا ہے تو اس
پر مکمل عمل در آمد کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔پاکستان کے وفاقی وزیر برائے
سرحدی امور انجینئر شوکت اللہ کیجانب سے پشاور میں افغان مہاجرین کے حوالے
حکمت عملی پر گذشتہ پریس کانفرنس میں اس بات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ
افغانوں کی وطن واپسی کا عمل بدستور عزت اور رضا کارانہ ہوگا اور پاکستان
اپنی نیک نامی اور قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے گا جبکہ اقوام متحدہ کے
ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ آر" کیجانب سے مراعات دینے کے اعلان
کےساتھ 31دسمبرکی آخری اور حتمی تاریخ کے ساتھ مکمل شیڈول کا بھی اعلان
کردیا تھا لیکن ان ہی صفحات میں افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو دشوار
گزار قرار دے کر تحفظات واضح کردئے تھے کہ ممکن نہیں کہ مہاجرین کی واپسی
میں تیزی آئے اور پاکستان کیجانب سے سال کے اختتامی ایام اپنے ہدف کو حاصل
کرنے میں کامیابی ہو کیونکہ زمینی حقائق ہیں کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد
جو پاکستانی شہریت حاصل کرچکی ہے ان کی واپسی کا عمل آسان نہیں ہوگا ۔خاص
طور پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے بعد اور افغانوں کی دوسری تیسری نسل
افغانستان کی جنگی صورتحال اورخانہ جنگی کے باعث واپس جانے میں تامل کا
مظاہرہ کر رہی ہے ان کے نزدیک کیونکہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں اور
یہاں تعلیم حاصل کرکے اپنی معاشی اور معاشرتی زندگی بس کر رہے ہیں اس لئے
اپنی پر سکون زندگی کے بجائے ایسے افغانستان نہیں جانا چاہتے جہاں ان کا
مستقبل محفوظ نہیں ہے اور معاشرتی طور پر انھیں وہاں دوبارہ بسنے اور اُس
ماحول کا عادی بنانے میں پریشانی کا سامنا ہوگا اورافغانستان میں نیٹو
افواج کے موجودگی کے باوجود امن کی صورتحال بہتر نہیں ہے۔12دسمبر بروز بدھ
کو جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں وزیراعظم پرویز اشرف نے افغان
مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے مزید چھ ماہ کی توسیع کرنے کا اعلان
کیا۔انھوں نے یہ فیصلہ ایک اعلی سطحی اجلاس میں کیا جس کے تحت پاکستان ،
افغانستان ، اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین UNHCR کے مابین سہ
فریقین معائدے میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی۔UNHCR اپنی ایک تازہ جائزہ رپورٹ
میں دعوی کرتی ہے کہ اب بھی تقریبا 82فیصد افغان پناہ گزین اپنے ملک جانے
پرراضی ہیں۔ پاکستان میں UNHCR کے سربراہ نیل رانٹس پہلے بھی کہہ چکے تھے
کہ مہاجرین کی واپسی کے عمل میں مراعات کے اضافے کے ساتھ رفتار میں تیزی لے
جائے گی لیکن اب حالیہ معائدے نے ثابت کردیاہے کہ UNHCR کی حالیہ رپورٹ
سچائی پر مبنی نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر 82فیصد افغان مہاجرین
کے واپسی جانے میں کوئی قباحت نہ ہوتی ۔کیونکہ UNHCR کے سربراہ خود بھی اس
بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان واپس جاکر رہائش اور روزگار کے حصول
جیسے خد شات ان پناہ گزینوں کی وطن واپسی میں عدم دل چسپی کی بڑی وجوہات
میں سے ایک ہیں۔جبکہ سنجیدہ پاکستانی حلقے پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ سرکاری
اعداد وشمار کے مطابق 16لاکھ رجسٹرڈ اور دس لاکھ غیر اندراج افغان پناہ
گزینوں سے بھی کئی لاکھ زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں رچ بس گئے ہیں۔اس
لئے ممکن نہیں ہے کہ افغان مہاجرین جو تیس سال سے پاکستان میں موجود ہیں
انھیں رضا کارانہ طور پر پاکستان سے واپس اپنے وطن بھیجا جاسکے ۔یہ محض
تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر 2014ءکے الیکشن بروقت ہوجاتے ہیں اور ایسی
حکومت کا قیام عمل میں آجاتا جو افغانیوں کو امن سکون اور روزگار کا آئیڈیل
ماحول فراہم کرسکیں تو ممکن ہے کہ آبائی وطن ہونے سبب کے اپنے بزرگوں کے
آگے سر تسلیم خم کرلیں لیکن افغانستان میں ماضی کی روایات گواہ ہیں کہ روس
کی جنگ کے بعد تمام گروپوں میں انتشار پیدا ہوا اور اقتدار کےلئے نہ رکنے
والی خانہ جنگی شروع ہوئی جس کا خمیازہ ابھی تک پاکستان اور افغانستان کی
عوام بھگت رہے ہیں ۔ نیٹو یا امریکہ افواج کے انخلا ءکے باوجود خانہ جنگی
کا خطرہ موجود رہے گا اور چاہیے سیاسی عناصر ہوں یا مذہبی گروہ ، افغانستان
میں امن کی صورتحال فوری طور پر بحال ہونے ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں
کہ افغان مہاجرین کی واپسی کامیابی کے ساتھ ممکن ہوسکے گی کیونکہ لاکھوں کی
تعداد میں موجود افغانی جنھوں نے پاکستانی شہریت کے دستاویزات بنا لی ہیں
انھیں زبردستی واپس افغانستان بھیجنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے اس کے خدوخال ابھی تک واضح نہیں ہیں اور نہ ہی
ان میں سنجیدگی کا کوئی عنصر ان کے عوامل میں نظر آتا ہے ۔گو کہ پاکستان کے
وفاقی وزیر برائے سرحدی امور انجینئر شوکت اللہ کی سربراہی میں دو رکنی
کمیٹی بنا بھی دی گئی ہے لیکن اس کے نتائج اب بھی ماضی کے طرح نکلیں
گے۔سیاسی حلقوں کی جانب سے تاریخ مین توسیع کی دوسری بڑی اہم وجہ لاکھوں
افغان مہاجرین کی جانب سے پاکستانی شہرےت کے حصول کا ساتھ ووٹر لسٹ میں
اندراج بھی ہے ۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد نادرا کی بنائی جانے والی
لسٹوں سے جعلی اور دوہرے ووٹ کے لاکھوں ووٹ کے خارج ہونے کے بعد اگر ان
لاکھوں افغان مہاجرین کے ووٹ بھی نہیں ڈالے جاسکے تو خیبر پختونخوا میں
سیاسی صورتحال کا نقشہ ہی بدل جائے گا ۔چونکہ پاکستان کے اقتصادی شہروں میں
جہاں ان کی کثیر تعداد ہے وہاں ووٹ بنک بھی موجود ہے اس لئے کوئی جماعت یہ
نہیں چاہے گی کہ ان کو دئےے جانے والوں ووٹوں میں کمی واقع ہو اور انھیں
سبکی کا سامنا ہو ۔ اس لئے خاص طور پر خیبر پختوخوا میں بیشتر سیٹوں پر
افغان مہاجریں کے ووٹوں سے ہی نتائج کا حتمی فیصلہ ہوگا اور حکمران جماعت
نہیں چاہتی کہ آنے والے انتخابات میں انھیں لاکھوں ووٹوں سے محروم ہونا پڑے
۔ افغان مہاجرین کی واپسی کی تاریخ میں توسیع کی اہم وجہ پاکستانی انتخابات
بھی بتائے جاتے ہیں۔اس لئے پاکستانی انتخابات کے جو بھی نتائج ہوں بعض
حلقوں میں افغان مہاجرین جو کہ پاکستانی شہرےت کے حامل ہیں ان کا رہنا نا
گزیراور سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہے ۔ |