الیگزنڈر فلیمنگ 1881ء میں سکاٹ
لینڈ کے ایک دیہاتی گھر میں پیدا ہوا۔اس نے تعلیم اسکاٹ لینڈ اور لندن سے
حاصل کی اور بہت جلد ڈاکٹری کی سند حاصل کر لی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ
میں وہ برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھا۔ اس وقت طبی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کسی
ایسی دوائی (اینٹی بایوٹک)کی تلاش تھی، جومضر صحت جراثیموں کوتو مارے مگر
انسانی جسم کو کم سے کم ضمنی اثرات کا سامنا کرنے پڑے۔ فلیمنگ نے اپنی ساری
زندگی اس مقصد کے لیے وقف کر دی۔ 1928ءمیں اس کے اپنے الفاظ میں اس نے
حادثاتی طور پر پنسلین کو دریافت کر لیا۔
ہوا یوں کہ ایک دن وہ جراثیم پہ تحقیق کر رہا تھا۔ جراثیم پہ تحقیق کرنے کے
لئے انہیں خاص قسم کی پلیٹوں پہ اگانا پڑتا ہے جنہیں پیٹری ڈش کہتے ہیں۔
جیسے جیسے انکی آبادی بڑھتی ہے پلیٹوں پہ گچھے نمودار ہوتے ہیں۔ جنہیں
مختلف تحقیقات کے لئے کام میں لایا جاتا ہے۔ وہ ایک بہت اچھا تحقیق داں تھا،
لیکن لیب اتنی صاف نہیں رکھ پاتا تھا۔ ایک دفعہ وہ ان ساری پلیٹوں کو ایک
جگہ جمع کر کے چھٹیوں پہ چلا گیا جب واپس لوٹا تو کیا دیکھتا ہے کہ جراثیم
کی ایک پلیٹ پہ پھپھوند لگ گئیتھی۔ جب اس نے غور کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ
پھپھوند نے ان جراثیم کو کھا لیا ہے جو اس نے اگائے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی
دریافت تھی۔
فلیمنگ نے پھپھوند میں سے اس مرکب کو الگ کیا اور اسے پینسلین کا نام دیا۔
لیکن وہ اسے اس مقدار میں نکالنے میں ناکام رہا جس سے اسے کسی بیماری کے
خلاف استعمال کیا جا سکے۔ اس مرکب پہ ایک اور کیمیا دان نے کام کیا اور
پینسلین کو زیادہ مقدار میں خالص کرنے کے قابل ہوا ۔اس طرح سے اس کی دریافت
کے دس سال بعد وہ دوا سامنے آئی جس نے لاکھوں لوگوں کو ان بیماریوں سے
بچایا، جو جراثیم سے ہوتی ہیں۔ یہ پہلی اینٹی بائیوٹک یا ضد حیاتیات دوا
تھی۔شروع میں پنسلین کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی لیکن دوسری جنگ عظیم میں
اسے صنعتی پیمانے پر تیار کیا گیا اور اس نے اتحادیوں کی فتح میں اہم کردار
ادا کیا۔
فلیمنگ کے اپنے الفاظ میں یہ ایک حادثہ تھا، لیکن اسے آپ اس کی کسر نفسی
کہہ لیں یا اور کچھ، کیوں کہ عقلاءبخوبی جانتے ہیں کہ کبھی کوئی حادثہ نہیں
ہوتااور کوئی کام اتفاقیہ نہیں ہوتا۔ اس کارخانہ قدرت میں ہر کام کاکوئی نہ
کوئی سبب موجود ہوتا ہے۔ چاہے وہ براہِ راست خالق کائنات کا اَمر ہو جیسے
کہ یہ پوری کائنات وجود میں آئی اور چاہے وہ اُس کا بنایا ہوا علت و معلول
کا نظام ہو۔مختصر یہ کہ صحیح رخ اور صحیح نیت کے ساتھ محنت کی جائے تو قدرت
اسے کبھی ضایع نہیں کرتی۔فلیمنگ کے اچانک پنسلین دریافت کرنے کے علاوہ بھی
سائنس کی دنیا میںایسی بے شمار مثالیں ہیں، جن میں کوئی اہم سائنسی دریافت
بظاہر کسی حادثہ یا اتفاق کی مرہون منت نظرآتی ہیں۔لگے ہاتھوں ایک مثال اور
پڑھیے:
کانسٹینٹن فالبرگ ایک کیمیا دان، کول تار کو نئے طریقے سے استعمال کرنے کے
طریقوں پہ کام کر رہا تھا۔ ایک تھکا دینے والے دن وہ آفس سے ہاتھ دھوئے
بغیر گھر آیا اور کھانا کھاتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس میںعجیب مٹھاس ہے۔
اس نے اپنی بیوی سے پوچھا تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ کوئی مٹھاس شامل
نہیں کی گئی۔ فالبرگ نے اپنے کالے ہاتھ دیکھے، کچھ سوچا اور اگلے دن پھر جا
کر اپنی لیب میں لگ گیا۔ یہ مٹھاس سیکرین کی تھی۔ شکر کی طرح کی ایک مصنوعی
مٹھاس جو شکر نہیں ہوتی اور کول تار میں موجود ہوتی ہے۔آج کی سینکڑوں شوگر
فری مصنوعات اسی سیکرین کی مرہون منت ہیں۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں،اس کے علاوہ بھی اگر آدمی اب تک کی تمام ایجادات و
اختراعات کے بارے میں مطالعہ کرے تو حیران رہ جاتا ہے۔تقریباً تمام ہی سچے
سائنس دان اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ جوان کی ایجاد کا اہم ترین
نکتہ تھا ، وہ انہیں ایک طرح سے الہام ہوا۔ دماغ میں بغیر کسی سیاق و سباق
کے اچانک ایک کوندا سا لپکا اور مسئلہ حل ہو گیا۔ کچھ تو خواب میں متشخص
ہوئیں۔ کیلولے جو بڑا کیمیا دان تھا، اس کا واقعہ اس ضمن میں مشہور ہے ۔
نیوٹن کا سیب کے گرنے سے کشش ثقل کو جاننا بھی بظاہر ایک اتفاقی واقعہ تھا
۔
ان تمام مثالوں سے کیا یہ مطلب لیا جائے کہ کہ بس آدمی ہاتھ پیر چھوڑ کر
پڑا رہے ، اوراللہ پاک اس کی جھولی میں کوئی ایسی چیز ڈال دیں جو اس سے
پہلے کسی کو نہ دی گئی!ہرگز نہیں۔ بے شک ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا
یقین ہے کہ محض کسی کی ذاتی محنت اور سوچ و فکرسے کچھ نہیں ہو سکتا، جب تک
کہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو۔اور اسی طرح ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ محض
اتفاق بھی کسی چڑیا کا نام نہیں....
یعنی دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ خالق کائنات کی سنت یہ ہے کہ وہ طلب کے
بقدر نوازتے ہیں۔ چاہے وہ اپنی ذات کا عرفان ہو یا اپنی مخلوقات کا علم۔
یعنی کوئی فن ہو یاعلم دونوں کا نزول صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جومدارس،
خانقاہوں میں یا لیبارٹریوں میں ، علم کی آرزو میں رقص بسمل کی طرح تڑپتے
رہتے ہیں۔ایک وقت مقررہ پر ان کی آرزو پوری ہو جاتی ہے۔جب طلبِ صادق پرکھ
لی جاتی ہے اور محنت اس معیار پر پہنچ جاتی ہے تو ان کے کسی ساتھی کو ”سرا“
مل جاتا ہے۔ اور پھر یہ مشرکہ ملکیت ان کی معرفت دنیا میں تقسیم ہو جاتی
ہے۔یعنی طلب صادق، سوچ فکر اور محنت ہماری ہوتی ہے ، حکم اس کا۔ کوشش ہم
کرتے ہیں ، نتیجہ وہ پیدا فرماتاہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ہم صرف محنت کے زور پر
کامیاب ہو جائیں۔ سر مارتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا ، لیکن مارتے رہنا پڑتا
ہے کہ سر مارتے رہنے والے کے پاس ہی پیغام پہنچتا ہے۔
خود فلیمنگ کے الفاظ میں،انسان ہل چلا سکتا ہے ، زمین تیار کر سکتا ہے پانی
دے سکتا ہے ، بوائی کر سکتا ہے لیکن بیج پھاڑ کر اس میں سے بوٹا پیدا نہیں
کر سکتا کیونکہ یہ علم ،علیم مطلق کے پاس ہے۔اگر اس نے چاہا اور اس نے پسند
فرمایا تو یہ بوٹا پیدا کرنے کا علم بھی انسان کو عطا کرے گا۔ مگر اپنی
مرضی سے، اپنی پسند سے ، اپنے منتخب وقت کے مطابق۔“
محنت اور اس کے مثبت نتائج کی ڈھیروں مثالیں پچھلی چند صدیوں میں ہمیں مشرق
میں تو گاہے گاہے ہی ملیں گی، وہ بھی انفرادی لیکن مغرب کا دامن اس سے مالا
مال ہے۔ یہ ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ایجادات جن سے ہم سب مستفید ہو رہے
ہیں، کس کی محنت کا شاخسانہ ہے؟ ہم نے کبھی سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی تو اس
سے آگے عملی قدم کیسے بڑھاتے۔سائنس کی بے شمار شاخوں میں سے صرف ایک شعبہ
طب کو دیکھ لیں۔1928ءمیں جب فلیمنگ نے پنسلین دریافت کر کے بلامبالغہ اربوں
بیمار انسانوں کے درد کا مداوا کیا ، اس وقت سے آج 2012ءتک طب کے میدان میں
جو بے اندازہ ترقی ہوئی ہے،اس میں ہمارا حصہ تو کیا ہوتا، ہم تو اس کی نقل
بھی سلیقے سے نہیںکر سکے۔طب کی دو بڑی شاخیں ایلوپیتھک اور ہومیو پیتھک میں
ہمارا کوئی حصہ نہیں۔لے دے کر طب یونانی ہے، وہ بھی اپنی بنیاد میں ( جیسا
کہ نام سے ظاہر ہے)یونانیوں سے اخذ ہے۔ ہاں کچھ افراد ایسے ضرور ہیں جنہوں
نے اس کی شاندار خدمت کی، مثلاً حکیم اجمل، حکیم عبداللہ اور حکیم محمد
سعید وغیرہ لیکن ان کے بعد دہائیاں گزر گئیں، طب یونانی میںاور کوئی بطل
جلیل پیدا نہ ہوا۔ ہاں شہروں کی دیواروں اور اخبارات کے اشتہارات کو دیکھ
کر یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ جسم انسانی کے تمام نظاموں کو چھوڑ کر ایک ”خاص“
نظام کی قوت اور علاج میں ہم نے شاید پوری دنیا میں سب سے زیادہ مہارت حاصل
کر لی ہے!!
اس لیے اگر ہم ماضی کی طرح اقوام عالم میں سربلندی چاہتے ہیں تو سستی اور
طفیلا پن چھوڑنا ہوگا اوراللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرتے ہوئے
ہر شعبہ میں جم کر محنت کرنا ہو گی۔ اس طرح کچھ بعید نہیں کہ اگلی چند
دہائیوں میں ہم غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکیں اور کوئی ہمیں حقیر
انداز میں”پاکی“ کہنے کی جرات نہ کر سکے۔ |