ریاست جموں کشمیر جو 15اگست
1947سے پہلے ایک آزاد و خود مختار دیس تھا جو تقسیم ہند کے بعد ایک بھیانک
مسئلہ کی صورت اختیار کرتے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اسکے کچھ عرصہ بعد
اسکا کچھ حصہ چین کے قبضہ میں چلا گیا تھا جبکہ ریاست کی زمین کا ایک اور
ٹکڑا اسلام آباد نے چین کو تحفہ کے طور پر دیدیا ۔پاکستان کے زیر کنٹرول
گلگت بلتستان و آزاد کشمیر(33,145 sq mi) ہے بھارت کے قبضہ میں وادی و لداخ
کارگل لیہ سیاچن گلیشئر(39,127 sq mi)ہے جبکہ اقسائے چن و قراقرم
ٹریک(14,500 sq mi)علاقہ چین کے قبضہ میں ہے ۔منقسم ریاستی حصوں میں تقسیم
کے وقت سے ہی لوگوں کی یہاں وہاں آنے جانے پر پابندی رہی ہے ۔ریاست کا وہ
حصہ جو چین کیپاس ہے اسمیں آبادی نہیں جبکہ باقی ماندہ دو حصوں میں منجملہ
ایک کڑوڑ نوے لاکھ لوگ آباد ہیں اور ایک انتہائی اہم بات کہ ریاست کا وہ
حصہ جو آزاد کشمیر بنا بہت جلد اسلام آباد نے اپنا اثرورثوخ بڑھاتے ہوئے
اسے بھی دو حصوں میں تقسیم کر کہ گلگت کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے
لیا اور یوں ریاستی عوام کو گزشتہ ساڑھے چھ عشروں سے صرف زمینی ہی نہیں
فکری طور پر بھی تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔اس ٹوٹ پھوٹ کے باوجود
کسی نہ کسی صورت میں تحریک آزادی ساتھ ساتھ چلتی رہی بدلتے حالات و واقعات
کیساتھ ساٹھ کے عشرے میں ریاست میں نیشنلزم نے زور پکڑنا شروع کیا ۔بھر پور
کوششوں و کاوشوں اور بے مثال قربانیوں کے باوجود یہاں کا نیشنلزم وہ منزل
نہ پا سکا جو محکوم اقوام کے نیشنلزم کی شان ہو اکرتا ہے اور بہت کم لوگ
ہیں جو اس کی گہرائی کا ادراک رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ریاست میں
نیشنلزم کے تقاضے کیا ہیں۔کوئی عوامی اجتماع ، نجی محفل ہو یا کوئی اجلاس
ہو کہیں بھی کوئی تال میل نظر نہیں آتا ۔ہر کوئی اسکی اپنے طور پر توجیح
پیش کرتا ہے کوئی محض خود مختار کشمیر کا نعرہ لگا کر نیشنلسٹ ہے تو کوئی
کسی جلسے میں شرکت کرنے سے ۔کسی نے دکان سے پکوڑے خریدے اور اس لفافے پر
مارکس کی تصویر کیساتھ کچھ لکھا پڑھ لیا اور وہ نیشنلسٹ بن گیا ۔بات آزادی
کشمیر کی ہوتی ہے تو اسے چہ گویرہ سے جوڑا جاتا ہے کبھی لینن کیساتھ اور
کبھی مارکس کیساتھ۔یہی نہیں بلکہ جب سے یہ سوچ ابھری تبھی سے بد ترین تقسیم
کا شکار ہے اور یہ شکست وریخت کا سلسلہ کبھی تھما نہیں ہے ۔مزے کی بات یہ
کہ اسکے ماننے و چاہنے والے اس تقسیم در تقسیم سے زرہ بھی شرمندہ نہیں ہیں
الٹا اسے جمہوری عمل کہتے ہیں جبکہ عملی طور پر آج تک کسی بھی تنظیم میں
جمہوریت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی ۔بیشک دنیا کے ان عظیم لوگوں کا
احترام لاز م ہے لیکن جب بات مادر وطن کی ہو تو وہاں اسی کی مثال پیش کی
جائے جو اسکے معروض کے عین مطابق ہو ۔
چینی وایرانی انقلاب محض ایک آزاد وخودمختار ملک کے اندر نظام کی تبدیلی کا
غماز رہا ۔فرانس و یا روس یہ تمام انقلابات کا ہماری تحر یک آزادی سے میل
نہیں ہے۔ان تمام کی ضرورت تب پڑھ سکتی ہے جب ہم اپنے دیس کو آزاد کروا کر
اسکی وحدت کو بحال کر لیں ۔اس وقت ہمیں دنیا کی ان مقبول تحاریک آزادی کا
مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے جنکے نتیجہ میں ان اقوام کو آزادی ملی ۔
چہ گویرہ عظیم انسان تھے مارکسسٹ تھے اسمیں شک کی کوئی گنجائیش نہیں اور
انہیں ریاست جموں کشمیر کے عوامی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔انکی
جدودجہد کا بیشک تحریک کشمیر سے میل نہیں ہے ۔لیکن دور حاضر کے لوگوں کے
سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے ۔وہ ایک ایسے انقلابی گوریلہ لیڈر تھے جو پوری
دنیا میں مساوات کیلئے عالمی جدوجہد کے حامی ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی کو
عملی طور پر انہی کٹھن راہوں میں ڈالا اور امر ہو گئے 14جون 1928سانتا فی
ارجنٹائن میں پیدا ہوئے طب کے طالب علم تھے اور اسی دوران انہوں نے (لاطینی
)جنوبی امریکن ممالک کے طویل ترین سفر کئے جہاں پچھڑے ہو ئے لوگوں کی عملی
زندگی،غربت ،افلاس ،ناانصافی اور جہالت کو قریب سے دیکھا جس نے انکی زندگی
کی سمت ہی بدل کے رکھ دی اورایک طویل ترین جدوجہد کا آغاز تب ہوا جب
میکسیکو میں انکی ملاقات کیوبن انقلابی فیڈرل کاسترو سے ہوئی اورکیوبن
انقلاب انکی کامیابی کی پہلی منزل بنا ۔چہ نے کاسترو کو پڈسٹہ رجیم کے خلا
ف عسکری مدد فراہم کی اور آزاد خود مختار کیوبا میں قائم ہونیوالی حکومت
میں چہ گویرہ کچھ وقت کیلئے نیشنل بینک آف کیوباکے صدر اور پھرانہیں وزارت
صنعت کا قلمدان سونپا گیا جو انہوں نے چند ماہ کے بعد ہی لوٹا دیا اسلئے کہ
انقلابیوں کی منزل اقتدار نہیں ہوتا اور وہ تو ایک ایسا گوریلہ لیڈرتھا جس
نے پوری دنیا کو انصاف دلانے کی ٹھانی۔ وہ اپنی مہیم کو جاری رکھے ہوئے
اپنے دیس سے دور چھٹے ساتویں ملک بولویا میں تھا کہ انہیں اپنے سینکڑوں
ساتھیوں سمیت 19اکتوبر 1967کوقتل کر کے لا ہگویرہ بولویا میں دفنا دیا
گیا۔جب انکی ہلاکت ہوئی وہ ایک لیجنڈری انقلابی گوریلہ لیڈر کے اعلیٰ ترین
منصب پر فائز ہو چکے تھے اورانکی ناگہانی ہلاکت کے 30 برس بعد انسانی حقوق
کی عالمی تنظیموں کے دباؤ پر جولائی 1997کیوبن جیالوجسٹ اورارجنٹائنی ٹیم
نے بولویا میں ایک اجتماعی قبر سے سات جسد خاکی برآمد کئے جن میں سے ایک چہ
گویرہ بھی تھے جسکی بولوین اور دوسرے بین الاقوامی میڈیکل سٹاف نے تصدیق کی
اور پھر17 اکتوبر1997 چہ گویرہ اور انکے چھ ساتھیوں کی باقیات کو بولویا سے
کیوبا کے شہر سانتا کلارہ میں پورے قومی اور ملٹری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک
کیا گیا ۔
چہ کی جہد مسلسل کے چند اہم ترین پہلوؤ جنمیں ایک ایسا شخص جو ارجنٹائن میں
پیدا ہوا اور ایک دوسرے ملک کیوبا آتا ہے لوگوں میں اثر و رسوخ پیدا کرتا
ہے اپنے اغراض ومقاصد اور نظریات کا پرچار کرتے لوگوں کا اعتماد حاصل کرتا
ہے اور انہیں بغاوت پر آمادہ بھی کرتا ہے نوجوان بھرتی کرتا ہے انہیں چھاپہ
مار جنگ کی تربیت دیتا ہے اور پھر وہاں کے نظام حکومت جس کی پشت پر ایک سپر
پاور کی طاقت ہمہ وقت موجود ہے کیخلاف گوریلہ وار برپا کرتا ہے اور اسکی
بہترین حکمت عملی اور اعلیٰ ترین لیڈرشپ کی بدولت آزاد کیوبا کی صورت میں
اسکی خوابوں کی ریاست ظہور پذیر ہوتی ہے اور پھر انکی ہلاکت کے تیس برس بعد
ارجنٹائن نہیں بلکہ اہل کیوبا اپنے محسن اور انکے ساتھیوں کی باقیات کو
بولویا سے لاکر اس عظیم سر زمین کیوبا میں دفن کرتے ہیں جو انکی خوابوں کی
پہلی منزل تھی پہلی ریاست تھی۔یہی انکی طویل ترین جدوجہد کے چند اہم پہلو
رہے ہیں جو اہل کشمیر کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنے محسن و
قومی ہیرو شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کی جدو جہد و مشن کو آگے بڑھانے کیلئے
کسقدر سنجیدہ رہے؟انکے نظریات پر عمل پیرہ رہے؟اور کتنی کامیابی حاصل کی ؟آج
شہید کے جسد خاکی کی بازیابی کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے جو کہ ہر ریاستی فرد
کا حق بھی ہے اور قومی فرض بھی۔لیکن چند سوال ایسے ہیں جن پر غور بھی بیحد
ضروری ہے کہ کیوبن عوام نے اپنے محسن کا جسد خاکی لا کر اس نظریاتی و
انقلابی آزاد وخود مختار سر زمین میں دفن کیا جو انکی عظیم جدوجہد کے نتیجہ
میں قائم ہوئی انکے خوابوں کی ریاست تھی مگر ہم تو اب تک وہیں کھڑے ہیں ایک
انچ آگے نہ بڑھ سکے ۔دو گز بھی آزادنہ کروا سکے تو وہ جسد خاکی لا کر
،،،،،،،،،،،،،،،، |