ایوان ریڈلی (گزشتہ سے پیوستہ )12

کچھ دیر بعد عبداﷲ آیا اور اس کے ہاتھ میں ریڈیو تھا۔ حامد نے کہا کہ اگر میں بی بی سی لگاﺅں تو اپنے بارے میں کچھ باتیں سن سکوں گی۔

”آپ بڑی اونچی خاتون ہیں، بہت مشہور ہیں، ہر کوئی آپ کی باتیں کر رہا ہے۔“

یہ دونوں بہت پُر جوش دکھائی دے رہے تھے اور میں تیزی سے چینل تلاش کر رہی تھی۔ مجھے ایک ”ساکررپورٹ“ سننے کو ملی۔ یہ کھیلوں کی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ میں انگلش آواز سن کر پھولی نہ سمائی۔ خوشی کی وجہ سے ریڈیو میرے ہاتھ سے گر پڑا اور وہ اسٹیشن ہی غائب ہو گیا۔ اتنے میں کچھ دیر مزید کھانا میرے کمرے میں پہنچا دیا گیا، لیکن میں نے پھریہی کہہ کر کھانے سے انکار کر دیاکہ جب تک والدہ سے بات نہ کروائی گئی ، میں نہیں کھاﺅں گی۔ریڈیو سے خبر نشر ہو جانے کے بعد والدہ سے بات ہونا اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا تھا۔

میں نے اپنی قید کے دوران ٹوتھ پیسٹ کی ڈبیا کے اندر کی جانب بڑے سلیقے سے تاریخوں کی ایک لسٹ بنائی اور چند مختصر نوٹ لکھے تھے۔ میں جب اپنی اس ”خفیہ ڈائری“ کو دوبارہ دیکھتی ہوں، تو میرا ذہن مجھے پھر انہی تجربات میں سے گزارتا ہے۔ میں اپنے ساتھ طالبان کے سلوک پر حیران رہ جاتی ہوں۔ اس خاص اتوار کے بارے میں میرا اندراج یہ تھا:
”مجھے ایک ریڈیو دے دیا گیا ہے.... تاکہ میں ”بی بی سی ورلڈ سروس“ سن سکوں.... اور مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت ہے؟“

اس روز سے متعلق اندراج میں مزید یہ الفاظ تھے:
”حامد کہتا ہے کہ یہاں ہر کوئی اس بات پر پریشان ہے کہ میں کھانا نہیں کھاتی ، وہ پوچھتا ہے کہ کیا کھانے میں کوئی خرابی ہے؟ کیا میں کوئی خاص غذاکھاتی ہوں یا میں ہوٹل سے لایا ہوا کھانا پسند کرتی ہوں۔ وہ اکثر مجھے اپنا مہمان بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر میں غمگین ہوں تو وہ بھی غمگین ہو جاتے ہیں۔ میں نہیں مان سکتی.... طالبان مجھ پر مہربانیاں نچھاور کرکے مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں....یہ لوگ ....یہ بے حد نرم، انتہائی شریف اور دوسروں کااحساس رکھنے والے ہیں، لیکن جب لڑائی کی نوبت آجائے تو یہ دنیا کے خوفناک ترین جنگجوﺅں میں سے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر کوئی یہ جان لے کہ مجھ سے کیسا اچھا سلوک ہو رہا ہے! ....کیونکہ یہ بتا دینے سے شاید مجھے سکون آجائے گا....میں شرطیہ کہتی ہوں کہ باہر کے لوگ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ مجھے اذیتیں دی جا رہی ہیں، زدوکوب کیا جا رہا ہے اور جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنائی جا رہی ہوں.... یہ قطعاً غلط ہے!....بلکہ اس کے برعکس مجھ سے شفقت اور احترام کا سلوک ہو رہا ہے.... یہ کتنی ناقابلِ یقین اور حیرت انگیز بات ہے....!

”خدا کی مار!.... میں کسی طرح ریڈیو توڑ بیٹھی.... مجھے اب تک معلوم نہیں کہ دنیاکو میرے حال کے بارے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں.... البتہ میں نے آٹھ عیسائیوں کے بارے میں ایک بلیٹین سنا ہے کہ انہیں کابل میں حوالات میں بند کر دیا گیاہے.... کیونکہ وہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔“
جلال آبادمیں قیدکے دوران مجھ سے کچھ اور سوالات بھی ہوئے تھے، میں چاہتی ہوں کہ میری ڈائری ان کا حال بھی سنا دے:

بروز پیر ، بتاریخ یکم اکتوبر:
”تفتیشی افسروں کی پوچھ گچھ گھنٹوں جاری رہتی ہے۔ سوالات بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ فضا میں حبس ہوتا ہے، میں بہت گھبراہٹ محسوس کرتی ہوں۔ اس دفعہ میرا انٹرویو ایک دبلے پتلے، سخت گیر اور عالمانہ شان رکھنے والے شخص اور ایک سرخ داڑھی والے بھاری بھر کم شخص نے لیا۔ مجھے دونوں سے خوف آتا ہے کیونکہ ان کے چہروں پر کرختگی نمایاں ہے۔ میں اس بات کی وضاحت کر رہی تھی کہ میں نے سرحد کیوں عبور کی۔ وہ میری بات سے مطمئن نہیں ہو پارہے تھے۔ میں نے ایک بار پھر اپنے مو ¿قف کی وضاحت کی ۔حامد میرے جوابات اُن تک پہنچا رہا ہے۔ اگرچہ میں جانتی ہوں کہ وہ میرے موقف کو سمجھ چکے ہیں۔

مجھے ابھی ابھی احساس ہوا ہے کہ تفتیش میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہے، کیونکہ حامد نے مجھ سے پھر پوچھا ہے کہ میں ”صحیح صحیح “ اس بات کی وضاحت کروں کہ میں چوری چھپے افغانستان میں کیوں گھسی ہوں۔ میں نے برہم ہو کر اپنے بازو فضاءمیں لہراتے ہوئے بہ آواز بلند کہا:
”کیونکہ میں طالبان میں شامل ہونا چاہتی تھی۔“

یہ بات احمقانہ بات تھی، جو میرے منہ سے جھنجھلاہٹ کی وجہ سے نکل گئی تھی۔ یہ اس قسم کا تبصرہ تھا جو مرے ہونٹوں سے نکلتے ہی مجھے گولی مار دئیے جانے کا مستحق بنا سکتا تھا۔

میرے تفتیش کاروں نے اُس لمحے تک اپنی نظریں، میرے پیچھے کی دیوار پر گاڑ رکھی تھیں۔ حامد اس جملے کا پشتو میں ترجمہ کرتے ہوئے سخت ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا اور وہ دو حضرات اپنی جگہ سے کچھ ہلے اور زور دار قہقہے لگانے لگے۔اس سے ان کے اندر حِسِ مزاح کی موجودگی کا انکشاف ہو،ا جو عام حالات میں ان ”خوفناک“ طالبان سے کبھی منسوب ہی نہیں کی جا سکتی۔

تفتیش کاروں کے اندر لطیف جذبات کی موجودگی کا پتہ چلنے سے مجھے کچھ سکون ملا۔ تاہم پانچ منٹ کے بعد ہنسنے کی بار ی میری تھی۔جب انہوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں امریکی خفیہ ایجنٹ ہوں۔میں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا:
”اگر میں امریکی خفیہ ہتھیار ہوں تو امریکہ پر خدا ہی رحم کرے۔“

پھر میں نے کہا کہ میں خفیہ ایجنٹ ہوتی تو یقینی طور پر میرے پاس جیمز بانڈ جیسے آلات ہوتے ،جبکہ میں صرف ایک کیمرے کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوئی تھی۔

انہوں نے پوچھا کہ میں نے کون کون سی تصویریں بنائی ہیں؟ میں نے بتایا کہ صرف چند ایک بنائی ہیں، انہیںڈیویلپ کرکے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے مجھ پر منکشف ہوا کہ کسی نے میرا کیمرہ کھول کر فلمیں تباہ کر دی ہیں یا ایسا ہوا ہے کہ چونکہ افغانستان میں فوٹوگرافی کی ممانعت ہے اس لئے ملک بھر میں اس کی پروسیسنگ کاکوئی انتظام نہیں۔

صبر لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے جھلا کر کہا:
” میں مزید سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔ میں آپ سے پوری طرح تعاون کرتی رہی ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے طالبان کے لئے بہت سی اُلجھنیں پیدا ہوئیں۔“
میں نے ان کے ملک میں بغیر پاسپورٹ اور ویزا داخل ہونے کا اعتراف کیا تھا اور اب اس میں کسی مزید اضافے کی ضرورت نہیں تھی۔میں دیکھ رہی تھی کہ وہ بہت ناراض ہیں مگر میں محسوس کر رہی تھی کہ یہ ملاقات اب خوشگوار جملوں پر ختم ہو جانی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک یا دو دن میں گھر واپس جانے کی اجازت مل جائے گی اور میں نے اپنی ڈائری میں نوٹ کیا کہ یہ جملہ سن کر مجھے خوشی ہوئی ہے ۔اگرچہ ”ایک یا دودن“ کے اندراندر رہائی کے وعدے پہلے بھی کئی بار ہو چکے ہیں۔

کچھ دیر بعد میں ایک سرخ گدے پر جسے میں بطور بیڈ استعمال کیا کرتی تھی، لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے باہر سے کوئی آواز آئی۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا کہ ایک نام نہاد صحافی ہاتھ میں کوئی ایسی چیز لےے کھڑا ہے جو سیٹلائیٹ ٹیلی فون جیسی ہے ۔ اس نے بتایا کہ وہ رات بھر کے لئے یہاں بطور مہمان ٹھہرا ہے اور میری کچھ مدد کرنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھ سے میری والدہ کا ٹیلی فون نمبر پوچھا اور کہا کہ وہ انہیں میرا پیغام پہنچا دے گا۔ میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اگرایک اجنبی مرد کی زبان سے فون پر میری خیریت سنی، تو وہ اور بھی زیادہ پریشان ہو جائیں گی۔

میں نے اس سے ٹیلی فون استعمال کرنے کی اجازت مانگی اور لجاجت بھی کی، مگر اس نے انکار کر دیا۔ پھر میں نے پردہ کھینچ لیا کیونکہ عبداﷲ کمرے میں یہ دیکھنے آ گیا تھا کہ کیا مجھے کسی چیز کی ضرورت ہے؟.... اور اس نے مجھے یاد دلایا کہ مجھے دروازہ اندر سے بند کرنا ہے۔ اس سے پہلے وہ اس بات پربھی راضی ہوچکاتھا کہ وہ باہر سے تالہ نہیں لگایا کرے گا، کیونکہ میں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ مجھے رات کے دوران بیت الخلاءکے استعمال کی ضرورت پڑے۔

اس کے چلے جانے کے بعد میں نے جلدی جلدی اپنی والدہ کے نام ایک رقعہ لکھا کہ میں بالکل ٹھیک ہو ں اور انہیں یہ بتایا کہ ”ننا“ (میری آنجہانی نانی) اوپر کے جہاں سے میری نگرانی کر رہی ہے۔میں نے سب کے نام پیار اورخیر سگالی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میرے ابو سے کہنا کہ میں ہمت سے ہر چیز کا سامنا کر رہی ہوں.... اور یہ بھی کہا کہ امید ہے کہ ڈیزی بورڈنگ سکول ہی میں رہے گی، وہاں اس کی زندگی اچھی گزرے گی۔ یہ نوٹ بے ضررر تھا۔ اور مجھے معلوم تھا کہ ان الفاظ سے میری والدہ کی پریشانیوں میں کمی واقع ہوگی۔ پھرمیں دوبارہ کھڑکی کے پاس گئی اور رقعہ مچھر دانی کے سوراخ میں سے باہر دھکیل دیا۔ سیٹلائیٹ ٹیلی فون والے آدمی نے وہ بخوشی لے لیا ۔

رُقعہ اس اجنبی کے حوالے کرکے میں نے اپنے نوٹ میں لکھا:
”امید ہے کہ یہ آدمی ٹھیک ہوگا لیکن کیا پتہ اصل حقیقت کیا ہے؟ میری اشد خواہش تھی کہ کاش میں والدہ سے بات کر سکتی اور ڈیزی کا حال پوچھ لیتی۔ بدھ کو اس کی سالگرہ ہے۔ وہ مجھ سے ایک کارڈ اور ایک تحفے کی توقع کر رہی ہوگی۔ میں چاہتی ہوں کہ باہر کے واقعات سے آگاہی پا سکوں اور جان سکوں کہ کیا بمباری شروع ہو چکی ہے؟ میں خود کو بالکل تنہا پا رہی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ کیا میرے خاندان کے علاوہ بھی کسی کو میری صورتحال کی کچھ فکر ہے۔“

میں چاہتی ہوں کہ یہ مچھر میری جان چھوڑ دیں، میرے ٹخنوں ، چہرے اور کلائیوں پر جگہ جگہ ان کے کاٹنے کے نشان پڑ گئے ہیں۔ اتنی جلن ہوتی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اپنی کھال کو چھیل ڈالوں۔ میں انہیں مارنے کو اوپر نیچے لپکتی ہوں مگریہ مکروہ مخلوق بھاگ نکلتی ہے۔ آج بیزاری کا احساس بہت ہی زیادہ ہے۔ مجھے اب پتہ چلا ہے کہ یہ کمرہ سات گز لمبا اور پانچ گز چوڑا ہے۔مجھے کل جو پنکھا دیا گیا تھا، وہ ایک منٹ میں سات بار چکر لگا تا ہے۔ گھنٹے میں 420بار اور....

ایون ریڈلی نے.... زندگی کا یہ مزہ بھی چکھ لیا ہے نا.... میں سوچتی ہوں کہ کیا میں ٹوٹ پھوٹ رہی ہوں۔ میں کسی حد تک اسے ایک معمولی سمجھتی ہوں، مگر یہ معمول کی صورت حال نہیں ہے۔سوچتی ہوں کہ میرے دفتر کے حالت کیسے چل رہے ہوں گے؟ کیا میری ملازمت تاحال برقرار ہے۔ انہیں اب تک معلوم ہو چکا ہوگا کہ میری مہم بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ کاش انہیں پتہ لگ سکتا کہ میں رہائی کے کتنے قریب پہنچ گئی ہوں۔ میں گھنٹوں کھڑکی میں سے، اس جگہ کے اردگرد کے خوبصورت باغوں کو دیکھتی رہی ہوں۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ کوئی پولیس اسٹیشن ہوگا، نہ ہی یہ کوئی فوجی مقام ہے۔ ایک چھوتی سی ندی باغ کے گرد گھومتی ہوئی گزرتی ہے اور سورج کی روشنی اس سے خوب منعکس ہوتی ہے۔کاش SASوالے مجھے چھڑوالیں، میرا خیال ہے کہ وہ ملک میں ضرور موجود ہوںگے۔پتہ نہیں، انہیں میرے بارے میں کچھ بتایا جا چکا ہے یا نہیں۔ اگر انہیں معلوم ہو چکا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی تدبیر کر ہی رہے ہوں گے۔

کبھی سوچتی ہوں کہ کیا میں فرار ہو جاﺅں۔ انہوں نے برقع تو ابھی تک میرے پاس ہی رہنے دیا ہے۔ہو سکتا ہے کہ آدھی رات کو نکل جاﺅں۔ یہ خطرناک تو بہت ہوگا۔ اگر خطرہ یہاں اندر ہی بن گیا .... تو پھر کیا کروں گی؟
خداوندا یہ کیا طوفان ہے....!

اگلے دن تفتیش نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا۔ کسی وجہ سے طالبان میرے خاندان کے مردارکان کے بارے میں متجسس ہو گئے۔ انہوں نے دادا کا نام پوچھا، وہ تو مجھے یاد نہ تھا۔ نہ بتا سکی تو وہ ہکاّ بکاّ رہ گئے اور اسے میری طرف سے بے ادبی کا اظہار سمجھا۔

”وہ تو میری پیدائش سے پہلے فوت ہو گئے تھے، مجھے تو کسی نے ان کا نام نہیں بتایا۔“ میں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا میں کبھی ایران گئی تھی؟
میں نے نفی میں سر ہلایا اور سوچا کہ کیسا بے تکا سوال ہے۔
یہ منگل 2اکتوبر کا دن تھا۔

اس بار تین یا چار افراد سوالات کی بوچھاڑ کر رہے تھے۔ میں چکرا کر رہ گئی۔ان کے جانے کے حامد واپس آیاتو میں سوچنے لگی کہ کہیں یہ خود بھی انٹیلی جنس افسر تو نہیں۔ اس کے سرپر پگڑی نہیں تھی، داڑھی کم مقدار مگر بکھری ہوئی تھی، مجھے بعض اوقات اس سے وحشت ہونے لگتی تھی۔اس نے مجھ سے کہا:
”آپ سخت مصیبت سے دوچار ہونے والی ہیں۔ آپ نے مجھے اپنی زندگی کے بارے میں سچ مچ نہیں بتایا۔ اپنی بیٹی کا ذکر ہی نہ کیا ، جس کا نام ڈیزی ہے اور بھی کئی باتیں ہیں جن سے آپ نے طالبان کو بے خبر رکھا ہے۔ یہ آپ کیلئے بہت بری خبر ہے۔میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر آپ سچ نہیں بتائیں گی تومیں آپ کی مدد نہیں کر سکتا۔ آپ نے اپنے ہمراہ پکڑے گئے دو آدمیوں کے بارے میں بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ اُن سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور انہیں مارا پیٹا بھی جا رہا ہے۔“

مجھے محسوس ہونے لگا جیسے مجھے بخار ہو گیا ہو۔ اب میں حامد پر اعتبار نہیں کر سکتی تھی اور نہ اسے اعتماد میں لینا چاہتی تھی۔ تاہم میں نے اس سے اتناضرورکہا:
”تم نے کبھی مجھ سے پوچھا ہی نہیںکہ کیا میری کوئی بیٹی ہے۔ میں نے کہا میں سنگل ہوں اور تم سیدھے دوسری بات کی طرف چلے گئے۔ میں ڈیزی کے باپ کے ساتھ اب نہیں رہتی۔کیا آپ کے اِس ملک کے لوگ علیحدگی کے تصور سے بالکل ناواقف ہیں۔“

میں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:
”ڈیزی کا والد ایک فلسطینی ہے۔ سنی مسلمان ہے۔ اس کا نام ابو حاکم یا داﺅد زار ورہ ہے۔ اپنی تاریخ کی کتابوں میں دیکھئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کتنا بڑا جنگجو تھا۔“

میں نہایت بے شرمی کے ساتھ اس کا نام استعمال کر رہی تھی تاکہ اس سوراخ میں سے کسی طرح نکل جاﺅں۔ مجھے یقین تھا کہ داود کانام لینامیری رہائی میں مدد کر ےگا، لیکن جب میں نے یہ نام لیا توحامد کوذرابھی حیرت تک نہیں ہوئی ۔کچھ سرگرمیاں جاری تھیں مگر مجھے ان کی نوعیت معلوم نہ تھی۔ اس نے مجھ سے دوبارہ ان دو آدمیوں کے بارے میں پوچھا اور اپنی بات دہرائی کہ انہیں بہت مارا پیٹا جا رہا ہے۔میں نے کہا:
”جو چاہو ان سے کرو.... مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر آپ لوگ بے گناہوں کو اذیت دے کر مزا لیتے ہیں۔ تو لیتے رہیے.... مجھے لکھنے کو ایک اچھی سٹوری مل رہی ہے، جو میں رہائی کے بعد لکھوں گی.... اپنے طالبان دوستوں کو یہ بات ضرور بتا دینا۔“

پھروہ باہر نکل گیااور باقی سارا دن میں نے اکیلے گزارا۔ بلکہ بعض پہلوﺅں سے یہ زیرِ تفتیش رہنے سے بھی بدتر تھا۔ مجھے یہ فکر لگ گئی کہ میں بہت دور جا نکلی ہوں۔ اب کسی اذیت سے دوچار کر دی جاﺅں گی۔ میں تو سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیل رہی ہوں۔اگر ایک پوائنٹ جیتتی تھی تو دوسرے پوائنٹ سے دھڑام نیچے جا پڑتی تھی۔

میں نے 2اکتوبر کو جو ڈائری لکھی، اس کے آغاز ہی میں اپنی مایوسیوں کااظہار کر دیا:
”اب سات بجے شام کا وقت ہے۔ مجھے دن بھر تنہائی کی اذیت برداشت کر نا پڑی ہے۔ فضا میں بے حد کشیدگی ہے۔ دہشت ناک مستقبل سے دوچار ہونے والی ہوں۔ کھانا لانے اور واپس لے جانے کےلئے آنے والوں میں سے کوئی بھی میرے چہرے کی طرف نہیںدیکھتا۔ بے حد اُلجھن ہے۔ شدید خوف محسوس ہور ہا ہے۔بڑی گھمبیر فضاءطاری ہے۔ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ اب میں گھر واپس نہیں جا سکتی۔ شاید یہ مجھے ہلاک کرنے والے ہیں۔ مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہوگا، کیونکہ اب مجھے کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ باتھ روم میں ایک پرانا نگی آلودہ ریزر بلیڈ پڑا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں اسے اپنے صابن میں چھپالوں ۔ اگر میں موت کو گلے لگانا چاہوں تو اس کا طریقہ مجھے خود سوچنا ہے۔ اگر وہ مجھے قتل کرنے جا رہے ہیں تو وہ اس کےلئے کونسا عمدہ طریقہ اختیار کریں گے؟ ....عبداﷲ اور حامد کہاں ہیں؟“

”میں نے ابھی ابھی اپنے کمرے سے نکل کر، سامنے ڈائریکٹر کے کمرے کے دروازے پر دسکت دی۔ ایسے محسوس ہوا جیسے میں نے کسی چڑچڑے آدمی کو نیند سے جگا دیا ہو۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے” چلو ہٹو“ کہہ دیا۔ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا، لیکن مجھے اس سے بہت خوف محسوس ہوا۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے ڈائریکٹر سے بات کرنی ہے۔“

یہ عجیب رات تھی....!

جب میں ڈائریکٹر کے کمرے سے واپس آئی تو عبداﷲ اور حامد دوڑتے ہوئے میرے پاس پہنچے اور کہا :
” ہمیں آواز آئی تھی کہ آپ ڈاکٹر کے بارے میں پوچھ رہی تھیں، خیریت تو ہے ناں!“
ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے کہا:
” میں بالکل ٹھیک ہوں، لیکن مجھے ڈائریکٹر سے بات کرنی ہے، ڈاکٹر سے نہیں۔“

میں نے حامد سے کہا کہ صاف نظر آگیا ہے کہ میں افغانستان سے نہیں نکل سکتی ۔لہٰذا مجھے ایک قانون دان کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنی آخری وصیت لکھوا سکوں۔

اس نے مجھے حیرت سے دیکھا اور کمرے سے نکل گیا۔ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ڈائریکٹر مجھ سے ملنے آیا۔ اس کے ساتھ حامد بھی تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چاہتی ہوں؟ میں نے اسے ایک قانون دان کی خدمات کی ضرورت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے اور مجھے اس سے کوئی محروم نہیں کر سکتا اور نہ انکار کر سکتا ہے۔“

میں جب بھی اپنی ڈائری کے اس حصے پر پہنچتی ہوں ۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے، یہ اس ریزر بلیڈ کی وجہ سے ہے جسے میں ہر روز باتھ کی ایک سائےڈ پر پڑا پاتی تھی، لیکن اس روز میں نے اسے اُٹھا لیا۔یہ پاکستان میں بنا ہوا تھا۔ مجھے اسے اپنے پاس رکھ لینے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ یہ مجھے خود پر قابو پانے میں کچھ مزید مدد دے گا او رمیں فیصلہ کر سکوں گی کہ کیا مجھے اپنی جان لے لینی ہے.... اور لینی ہے تو کب....؟

میں طبعاً مائل بہ خود کشی انسان نہیں ہوں، لیکن میں چاہتی تھی کہ میری موت اگر واقع ہو تو خون زیادہ بہہ جانے سے ہو، نہ کہ پتھر لگ لگ کر مر جاﺅں، یا کسی ایسے طریقے سے اذیت دی جائے کہ وہ حدِ برداشت سے بڑھ جائے۔

یہ باتیں مجھے اب دن کی ٹھنڈی روشنی میں اپنے گھر میں محفوظ بیٹھے ہوئے بڑی مضحکہ خیز لگتی ہیں۔ لیکن لمحہ بھر کے لئے پیچھے جا کر 11ستمبر کے واقعہ کو سوچئے!.... ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں موازنہ کرنا درست نہ لگتا ہو۔ لیکن ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعض آفس ورکرز نے اوپر سے چھلانگ لگا کر موت کی آغوش میں چلے جانے کو اس دوزخ میں جل کر مرنے پر ترجیح دی تھی، جس نے انہیں اچانک آلیا تھا۔ اسی طرح مجھے بھی ایک انتخاب کرنا تھا، چنانچہ میں نے یہ بلیڈ، ترکی کے بنے ہوئے صابن کی ٹکیہ کے اندر چھپا لیا تھا۔ طالبان نے مجھے یہ صابن قید کے پہلے ہی دن دیا تھا۔

اگلا روز میرے لئے پھر ایک ہنگامہ خیز دن تھا۔ اس کا آغاز بہت اچھا ہوا تھا۔ مجھے نئے کپڑے دیے گئے تھے۔ پہلے تو تقریباً سات دن رات میں نارنجی لباس، شلوار قمیض میں رہی، جن میں آپ تصور کر سکتے ہیں کہ گرمی اور پسینے سے میں کتنی بدبودار ہو چکی تھی۔عبداﷲ نے مجھے نئے کپڑے پیش کئے ۔ ان کپڑوں میں سے ایک براﺅن اور کریم کاٹن جوڑا مع براﺅن شلوار تھا اور دوسرا انتہائی سادہ جیل کا عمومی لباس تھا۔ مجھے شبہ ہوا کہ یہ شادی کا لباس ہے۔

یہ دن میرے لئے باعثِ غم بھی تھا، کیونکہ یہ ڈیزی کی نویں سالگرہ تھی۔ میں نے اس کےلئے گانا گایا، اپنی آنکھیں بند کیں، اپنے بازو اپنے گرد لپیٹے اور اس کی شبیہ کو اپنے ذہن میں لاتے ہوئے سوچنے لگی کہ کیا اب کبھی میں اُسے چھو سکوں گی۔ پھر یہ سوچا کہ میرے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد کیا وہ مجھے یاد کرے گی؟.... اور کیا اُسے ہماری آخری گفتگو یاد آیا کر ے گی؟

میں نے اسے بتایاہوا تھا کہ اُسے جب کبھی بھی میری ضرورت ہو تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلے، میںذہنی طور پر اُس کے پاس آ موجود ہوا کروں گی۔ اس بات نے مجھے رُلا دیا اور میں بہت افسردہ ہو گئی، کیونکہ میں نہ صرف بے بس تھی بلکہ غیروں کے بس میں تھی۔ میرے پاس دو نہایت ضرر رساں چیزےں تھیں ،مثلاً ریزر بلیڈ، اور بھوک ہڑتال....!
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166600 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More