ایوان ریڈلی کی تین اکتوبر کی ڈائری 13

 اتنے میں ایک ”واردات“ ہو گئی.... جس کا بہترین اظہار، میری 3اکتوبر کی ڈائری میں ہو سکا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
”میں نے بے دھیانی میں طالبان کے دیے ہوئے نئے کریم اوربراﺅن لباس پر جڑے ہوئے منکوں کی قطار پر انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں۔ اچانک ایک لڑی اور تین زیبائشی چھلے میرے ہاتھ میں آگئے۔ میں نے نیچے دیکھاتو مجھے مقدس تثلیث کا خیال آگیا۔ خدا بطور باپ، خدا بطور بیٹا اور روح القدس.... پتہ نہیں مجھے کون ترغیب دے رہا تھا کہ میں اُن سے دعا کروں، چنانچہ میں نے مدد کی دعا کرنا شروع کر دی۔“

”اچانک مجھے اپنے جسم میں سے خوف رفتہ رفتہ خارج ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ تھوڑی دیر بعد حیرت انگیز طور پرمیرے اندر قوت کا احساس پیدا ہو گیا ۔ یہ بڑا ہی گہرا روحانی لمحہ تھا۔ چنانچہ اسی لمحے میں نے فیصلہ کر لیا میں اس دوزخ میں سے نکل کر قیدی بن جانے کو تیار ہوں اور اب تفتیش کاروں کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گی اور نہ ہی کسی قسم کا تعاون کروں گی۔“

اسی دن شام کے سات بجے مجھے اطلاع دی گئی کہ کل میں گھر جا ر ہی ہوں اور میں عیسائیوں کے اس گروپ میں شامل ہوں جن پر الزام تھا کہ وہ مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔اس سے میری ہمت بڑ گئی اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری دعا قبول فرما لی ہے۔

اگلے روز میں صبح 5:30پر ہی جاگ گئی۔ وقت کا مجھے اس لئے پتہ چلا کہ حامد نے مجھے اپنی گھڑی مستعار دے رکھی تھی۔ میں بے حد جوش و خروش میں تھی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ خدا نے میری دعا کا اتنی جلدی کیوں جواب دیا؟ میرے دل میںتھوڑا سا احساسِ گناہ آ موجود ہوا کہ میں جلد بازی کی وجہ سے دعا مکمل نہیں کر سکی اور اس میں یہ فقرہ شامل نہیں تھا کہ ”ہمیں شیطان سے نجات دےنا۔“.... اگر یہ بھی کہہ دیتی تو اس کا میرے سنگین حالات پر خصوصی اثر پڑ سکتا تھا۔

حامد اور عبداﷲ خوش خوش آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک پشتو اخبار تھا ،جس کا نام ”طالبان بگل“ تھا۔ اس کے صفحہ اول پر میری دو تصاویر چھپی ہوئی تھیں۔ ایک صرف میرے ”سر“ کی تصویر تھی اور خبر میں کہا گیا کہ ”سنڈے ایکپریس“ نے اسے افغانستان بھیجا ہے۔ دوسری تصویر میں مجھے درّہ خیبر میں کھڑی ہوئی دکھایا گیا۔

حامد نے کہا:
” ہر کوئی جانتا ہے کہ آپ کون ہیں؟ آپ بہت مشہور ہےں ۔ جلا ل آباد میں آپ کا چہرہ ہر کہیں ہے۔“
میں نے اس سے پوچھا کہ اخبار کی ہیڈلائن میں کیا لکھا ہوا ہے ؟

اس پر اس نے ہنستے ہوئے کہا:
” یہ اخبارکہتا ہے کہ ایون ریڈلی بہت خوش ہے۔ “

مجھے یاد ہے کہ اس وقت مجھے بہت ہنسی آئی تھی۔ یہ بات مضحکہ خیز تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر ڈاکٹر نے میرے بلڈ پریشر کے حوالے سے ”لیک“ کر دی ہوگی یا کسی اور نے اخبار کوبتا دی ہوگی۔

عبداﷲ نے کہا کہ کابل ایئر پورٹ تک گاڑی وہ چلائے گا۔ میں نے حامد سے پوچھا کہ کیا آپ بھی ہمارے ہمراہ ہوں گے؟ لیکن اس نے معذرت کر دی۔اب میں روٹی کا ایک ٹکڑا کھانے پر رضا مند ہو گئی ،جس سے میرے وہ دونااُمید دوست خوش ہو گئے۔ میں نے اپنا سارا سامان سمیٹ کر ایک پلاسٹک بیگ میں ڈال لیا۔جب میں جانے کیلئے اٹھی، تو حامد نے میرے پاﺅں کی طرف دیکھا تو اسے پتہ چل گیا کہ میرے تو جوتے نہیں ہیں۔ وہ جلدی سے جوتوں کے لئے گیا۔ میں نے کہا:
”نہیں، نہیں!.... یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے.... واپس آجائیے ، چھوڑ دیجئے۔“

کیونکہ میں جانتی تھی کہ اس سے واپسی میں تاخیر ہوجائے گی۔اُدھر وہ جوتوں کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ واپس آکر اس نے جلدی جلدی میرے پاﺅں کا ناپ لیا اور پھر تقریباً آدھے گھنٹے کے لئے چلا گیا۔ یہ انتظار بہت کر بناک تھا اور میں گھبرانا شروع ہو گئی۔

انٹیلی جنس کے لوگوں نے میرے ساتھ چند نفسیاتی کھیل کھیلے تھے۔ وہ مجھے بار بار بتاتے رہے کہ بس اب تم جا رہی ہو، مگر یہ بتانا درست نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”تم ایک جاسوس ہو۔“ جس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ اس کا مطلب سزائے موت ہوتا ہے، اس سے کوئی سوالات نہیںپوچھے جاتے۔ ان کے پاس میرے متعلق ایک فائل تھی، مگر وہ مجھے دکھانے کیلئے تیارنہیں تھے۔

آخر میں ، میں نے کہاکہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس میرے خلاف کوئی واضح چیز نہیں اور یہ بھی کہ میں ایک صحافی ہوں۔ انہوں نے یہاں تک بھی کہا کہ ”ایکسپریس نیوز پیپرز“ نے میری رہائی کی بات چیت کیلئے ایک ”اعلیٰ ڈائریکٹر“ بھیجا ہے۔ ان سب باتوں نے میرے ذہن میں ایک کھلبلی مچا رکھی تھی، مگر میں نے انہیں جھٹک دیا کہ جو ہوا سو ہوا، اب گھر تو جا رہی ہوں۔

حامد ”فلپ فلاپ“ قسم کے سکینڈل لے کر آگیا، جن پر ”لندن“ کا ”لوگو“ لگا ہوا تھا۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ یہ تو بالکل فٹ آ گئے ہیں۔ اس پر اس نے مجھے مبارکباد دی اور مجھے بیٹھ جانے اور انتظار کرنے کا کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
پھر کیا ہوا....؟

جو کچھ ہوا اس سے میرا خون جم کر رہ گیا۔اس کا ذکر میں نے اپنی ڈائری میں کچھ اس طرح کیا :
”حامد نے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ مجھے کوئی ملنے آیا ہے۔ میراخیال ہے کہ اس نے کہا تھا کہ مولانا آیا ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے مجھے اندازہ ہوا کہ اب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اتنے میں کمرے میںایک لمبا پتلا شخص داخل ہوا، اس کی جلد صاف اور بے داغ اور چھوٹی چھوٹی بھوری آنکھیں تھیں۔ ہاتھ میں تسبیح تھی، جسے وہ آہستہ آہستہ رول رہا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا ، تمہارا مذہب کیا ہے؟ اور اسلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ یہ سن کر میرا منہ خشک ہو گیا، میں نے بتایا کہ میں ایک عیسائی ہوں ۔مگر وہ جاننا چاہتا تھا کہ میں کسی قسم کی عیسائی ہوں ؟ میں نے جواب دیا کہ میں پروٹسٹنٹ ہوں۔وہ بدشگونی کے انداز میں مسکرایا، جس سے مجھے محسوس ہوا کہ مجھے پھنسایا جا رہا ہے۔ میں نے اپنی بات آگے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک دلکش مذہب ہے۔ جس کے پیروکار بہت اچھے جذبات اور عقائد رکھتے ہیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ میں لندن واپس جا کر مذہب کا خصوصی مطالعہ کیا کروں گی۔ وہ ایک بار پھر مسکرایا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا ابھی اور اسی وقت مذہب تبدیل کرنا چاہتی ہو؟“

”میں خوفزدہ ہوگئی کہ اگر میں ”ہاں“ کہتی ہوں تو وہ سوچے گا کہ میں رنگین مزاج ہوں۔ یوں وہ مجھے سنگسار کر ا دے گا۔ اگر ”نہ “ کہتی ہوں تب بھی موت کا خطرہ مول لیتی ہوں۔ میں نے اس پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اتنا بڑا فیصلہ ، جس سے میری ساری زندگی ہی بدل جائے، اس حالتِ تشویش واضطراب میں نہیں کر سکتی۔ اس پر وہ ایک بار پھر مسکرایا اور پھرمیرے سامنے سے چلاگیا۔“

اُس لمحے مجھے یوں لگا،جیسے وہ ایک نورتھا،جواچانک میری نظروں کے سامنے سے غائب ہوگیا۔
جب حامد واپس آیاتو میں لرز رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا سب ٹھیک جا رہا ہے؟ اس نے اچانک مجھے کہا کہ اب میں جا سکتی ہوں۔پھر اُس نے حکم دیا کہ روانگی سے پہلے برقع پہن لینا ۔ یہ سن کر میری انکھوں سے آنسو آگئے۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے اس پر مجبور نہ کرو۔ اس نے انٹیلی جنس کے ایک افسر کی طرف دیکھا، جس نے سر ہلا تے ہوئے کہا:
”ٹھیک ہے....!“
پھرمیں حامد کے پاس سے گزرنے لگی تو اس نے میری طرف ایک چادر پھینکتے ہوئے کہا:
”تو پھر یہ لو اور خود کو ڈھانپ لو۔“

میںپک اَپ ٹرک پر سوار ہونے کے لئے گئی تو وہاں مختلف لباسوں میں ملبوس تقریباً چالیس طالبان موجودتھے۔ میں مسکراتے ہوے ان کے پاس سے گزری۔ پھر مجھے دو آدمی نظر آئے جو میرے ہمراہ گرفتار کےے گئے تھے، میں نے انہیں نظر انداز کر دیا، مگر دل ان کےلئے پسیج رہا تھا۔وہ زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے اور چھوٹی لڑکی بھی پیچھے بیٹھی ہوئی تھی۔

میں آگے کی جانب جاکر پک اپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی، دو مسلح طالبان گارڈ اور اسکالر دکھائی دینے ولا، انٹیلی جنس افسر بھی ساتھ بیٹھے تھے۔ میں کچھ جذباتی ہو رہی تھی ، تاہم میں نے آنسو ضبط کر لئے۔ عبداﷲ نے اس وقت پہلی بار اپنی انگریزی بولی، جب اس نے مجھے ”گڈبائی“ کہا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کیا یہ شروع سے انگریزی جانتا تھا ، مگر اس کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ ٹرک نے حرکت شروع کی تو میں آنسوﺅں کو اپنے رُخساروں پر رواں ہونے سے نہ روک سکی۔ میں نے پچھلے واقعات یاد کرنا شروع کئے تو آخری نظر بندی کے دن خاص طور پر نمایاں تھے، میں اس دفتر کو ”ہاﺅس آف ٹرکس“ کہتی تھی۔ میں نے تصور میں اپنی والدہ سے مخاطب ہو کر کہا:
”مام!.... میں گھر آ رہی ہوں۔“

کابل تک کا سفر سخت تکلیف دہ تھا، جو چھ گھنٹوں سے کچھ زیادہ دیر میں طے ہوا۔ راستے میں خوبصورت میدان، دریا ، چشمے، رنگا رنگ مناظر ،عظیم الشان پہاڑ اور سینکڑوں زمین دوز مورچے اور غاریں تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ صدر بش نے ان سب کو ”دھواں بنا کر اُڑا دینے“ کی جو دھمکی دی تھی، وہ انتہائی غیر حقیقت پسندانہ تھی۔

اب خوبصورت مناظر تبدیل ہو گئے اور ہم بنجر میدانوں، پتھریلی ڈھلوانوں اور چڑھائیوںمیں سے گزرنے لگے۔ کہیں کہیں زمین اتنی سرخ تھی جیسے اس کو مسلسل جلایا جاتارہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، یہ خدائی زمین کا پچھواڑا ہے۔ ہم راستے میں مختلف جگہوں پر ٹھہرتے رہے، جہاں لوگ نمازیں پڑھتے اور اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہے۔

مجھے سگریٹ ینے کی اجازت دے دی گئی تھی ، وہ میرے لئے ”افغان سگریٹ“ لائے تھے ، جو بہت سٹرانگ تھے۔ تاہم میں ان کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتنا خیال تو رکھا۔نکوٹین کے رسیاﺅں کا مقولہ ہے کہ ”طوفان آجائے تو جس بندرگاہ میں بھی پہنچ جاﺅ، وہیں دبک جاﺅ“ چنانچہ میرا گزارا بھی ہو گیا۔دوران سفر ڈرائیور نے گنے اور انار خریدے اور ہمیں پیش کر دئیے۔

گنے چوسنے سے ہم بہت محظوظ ہوئے ، وہ فرحت بخش تھے، اس لئے جلدی ختم ہوگئے۔ پھر ایک طالب نے انار کے دانے نکالنے شروع کےے، ان رس بھرے دانوں کو بڑے کاغذی لفافے میں جمع کرکے ہمیں پیش کرتا رہا۔ مجھے یاد آنے لگا کہ جب میں چھوٹی سی بچی تھی، میری ماں مجھے آدھا انار اور ایک پن(سوئی) دے دیا کرتی تھی، تاکہ پن سے ایک ایک رس بھرا دانہ چنتی رہوں اور منہ میں ڈالتی رہوں۔ اس طرح میں گھنٹوں مصروف رہتی۔ لیکن کھانے کایہ انداز زیادہ اطمینان بخش تھا۔میں نے جب انہیں اس کا انگریزی نام ”پوم گرینیٹ“ بتایا تو ہنسی کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا۔ میرے خیال میں یہ نام اتنا مضحکہ خیز تو نہیں تھا، مگر میں سوچتی رہ گئی کہ اس نام کا ماخذ کیا ہے۔ ڈرائیور نے مجھے چیونگ گم دیے، جو میں نے بخوشی قبول کر لئے۔چنانچہ اب میں سگریٹ پیتی اور چیونگ گم چباتی رہی، اگریوں مجھے میری امی دیکھتی تو چیخ اٹھتی۔

سفر کے عین درمیان ڈرائیور نے اپنا چیونگ گم ڈیش بورڈ میں پھنسایا ، جو حرارت کی وجہ سے سخت گرم تھا اور اپنا منہ انار کے دانوں سے بھر لیا، تقریباً نصف گھنٹے کے بعد اس نے چیونگ گم دوبارہ منہ میں ڈالا تو وہ اتنا لیس دار ہو چکا تھا کہ اس کا کچھ حصہ اس کے ہونٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سٹیرنگ وہیل کے گرد چپک چکا تھا ۔ یہ دیکھ کر میں لوٹ پوٹ ہو گئی، میری ہنسی رکنے میں ہی نہیں آ رہی تھی، کیونکہ یہ مادہ پگھل کر ہر طرف پھیل چکا تھا، اس کے ہاتھ، سر اور ڈاڑھی کے بال ہر چیز لتھڑ چکی تھی۔

اس نے ٹرک روک لیا اور کوسنے دینے لگا ،جبکہ باقی لوگ اس پر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے اسے پونچھنے کےلئے وہ چادر دے دی، جو حامد نے مجھ پر پھینکی تھی، کیونکہ میں اپنے گھر جا رہی تھی، جہاں اس کا کوئی مصرف نہ تھا۔ کابل روڈ پر ہمارا سفر چیونگ گم کے واقعہ کے بعد بھی جاری رہا، لیکن ٹرک پتھروں اور گہرے کھڈوں پر لڑکھڑاتا ہوا چل رہا تھا، اس میں ڈرائیور کی جھنجھلاہٹ کا بھی دخل تھا۔ اس سڑک کو پچھلی بمباری نے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، سٹرک کے کنارے بیٹھے ہوئے بچے اپنے ننگے ہاتھوں سے ان گڑھوں میں سنگریزے اور مٹی بھر رہے تھے، تاکہ گاڑیوں والے ترس کھا کر انہیں چند افغانی نوٹ پکڑا دیں۔ یہ بچے کہاں سے آئے اور کہاں رہتے تھے اس کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔

ہم متعدد یک منزلہ مکانوں والے ایک دیہات کے قریب سے گزرے، یہ مکان یا تو مٹی کے ڈھیلوں سے سے بنے ہوئے تھے یا ان کی دیواروں میں سیمنٹ کی بجائے گارا استعمال ہوا تھا اور لپائی کیچڑ سے ہوئی تھی۔ ان مناظر نے مجھے بچوں کیلئے لکھی گئی ایک کتاب میںچھپے ہوئے خاکے یاد دلادیے۔ اس کتاب کا نام ”چلڈرنز ہائیبل“ تھا۔ مجھے یہ اس زمانے میں دی گئی تھی،جب میں تقریباً دس سال کی تھی۔ ان مکانات میں سے بعض کھنڈرات تھے ، بعض بمباریوں سے تباہ ہو گئے تھے اور بعض سابقہ زمانوں سے ترک شدہ تھے۔

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں ماضی میں سفر کر رہی ہوں۔ مجھے ایک دوست کی یاد آئی، جس نے کہا تھا کہ طالبان کا مقصد اس زمانے کا ملک تخلیق کرنا ہے، جب اﷲ زمین پر چلا کرتا تھا۔ ان کی ”مکمل مسلم سٹیٹ“ کے قیام کی وحشیانہ مہم مجھ جیسے لوگوںکو محض ایک پاگل پن لگتی ہے، کیونکہ ہم لوگ ٹی وی ، ٹیلی فون ، ٹھنڈا اور گرم پانی ساتھ ساتھ چلنے، میوزک ،ڈانس اور گانے بجانے کے زمانے کی پیداوار ہیں۔

ہمارا سفر تقریباً ایک گھنٹے کا رہ گیا ہوگا کہ ٹرک اچانک رُکا۔ ایک سپاہی نے اتر کر جان کی ہتھکڑی کھول دی، جو پیچھے جا کر سکالر دکھائی دینے والے انٹیلی جنس افسر کے پاس بیٹھ گیا۔پھر اس نے میرے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا:
”پریشان نہ ہونا مقدمہ انصاف سے چلے گا۔ “
میں نے پیچھے مڑکر دیکھا اور تھوکتے ہوئے کہا:
”معلوم نہیں تم کون ہو؟ مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہ کرنا۔“
چند لمحوں کے بعدمیںنے کن اَنکھیوں سے دیکھا کہ وہ افسر جان کو کہنی مار رہا ہے۔
اس کے بعد جان نے پھر میرا کندھا تھپتھپایا اور پھر بولا:
”آپ کی بیٹی کیسی ہے؟ کیا آپ کے پاس اس کی وہ فوٹو ہے، جو آپ اپنے پاس رکھا کرتی ہیں؟“
میں نے جان کو ڈیزی کی تصویر دکھائی تھی، مگر وہ اس قیمتی سامان میں رہ گئی تھی، جو میں پاشا کے پاس رکھ آئی تھی۔ میں نے اس کی چال کو سمجھتے ہوئے جواب دیا:
”کیسی باتیں کر رہا ہے تو .... اپنے کام سے کام رکھ!“
اس کے بعدہم نے سفر خاموشی سے جاری رکھا۔ افسر نے جان سے کچھ سرگوشیاں کرنے کے بعد ایک بار پھر اسے کہنی ماری تو اس نے مجھے کہا:
”ڈریے بالکل نہیں، ہم سب آپ کے دوست ہیں۔ “
اب تو حد ہو چکی تھی، میں نے اپنے ہاتھ اوپر اُٹھا کر کہا:
“ روکو اس بدبخت ٹرک کو.... میں پیدل چل کر بھی کابل تک جا سکتی ہوں.... اگر جانا پڑ جائے تو....!“
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ٹرک روکا گیا اور جان کو پیچھے لے جا کر دوبارہ ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں۔ مجھے بہت برا لگا مگر ہم نے اپنی سٹوری پر قائم ہی رہنا تھا، تب ہی تو میں سٹوری کے باقی ماندہ حصے کو آگے بڑھا سکتی تھی، جتنا میں جانتی تھی، وہ یہ تھا کہ ممکن ہے کہ یہ ساری باتوں کا اعتراف کر چکے ہوں، لیکن مجھے اس کا یقین تو نہیں آیا تھا۔

ٹرک نے پھر سفر شروع کیا تو مزید ڈرامائی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے میں سوچنے لگی کہ افغانستان، اپنے باشندوں جیسا ہی ہے، یہ تضادات کا ملک ہے، اور اس کے لوگ ایک لمحے میں انتہائی فیاض ہوتے ہیں اور اگلے لمحے کڑوے اور انتہائی درجے کے وحشی بن جاتے ہیں۔

کابل پہنچتے پہنچتے شام ہو چکی تھی۔ کوئی چیز واضح طور پر شناخت نہیں ہو رہی تھی۔ یہ دارالحکومت کا سا شہر تو یقیناً نہیں لگ رہا تھا۔ میری نظریں ائر پورٹ تلاش کر رہی تھیں ۔اسی دوران ہم اچانک موڑ کاٹ کرا یک شاندار عمارت کے اندر پہنچ گئے، جو سرکاری لگ رہی تھی۔ انٹیلی جنس افسر اس کے اندر چلا گیا۔ دس منٹ کے بعد واپس آکر اس نے ڈرائیور سے کچھ کہا۔اورپھرہم مزید پانچ منٹ تک چلتے رہے اور پھر ایک قلعہ نما عمارت میں داخل ہوگئے، جس کے بارے میں انکشاف ہوا کہ یہ کابل جیل کا شعبہ ¿ دہشت گردی ہے۔ طالبان کے ساتھ گزرے ہوئے دنوں کے دوران میرے سامنے کئی مشکل مقامات آئے تھے اور یہ ان میں سے تلخ ترین مقام تھا۔

مجھے ایک چراچراتے ہوئے گیٹ میں سے گزار کر اندر ایک صحن میں پہنچا دیا گیا ، اندر اندھیرا تھا اور مجھے ایک ڈیوڑھی میں سے لے جا کر ایک اور بڑی لیکن سنسان ڈیوڑھی میں پہنچا دیا گیا۔ میرے سامنے ڈیڑھ میٹر اونچا (تقریباً پانچ فٹ چار انچ) آہنی دروازہ تھا۔ سیاہ پگڑی باندھے ایک شخص نے جو جیل کا نگران تھا، اسے دھکیل کر کھول دیا۔

میں نے متجسّس نظروں سے اندر جھانکا، تو وہاں دو افغان عورتیں آلتی پالتی مارے بیٹی تھیں، ان کے پاس چیختا ہوا ایک لاغر سابچہ بھی تھا۔میں نے پیچھے مڑکر گورنر اور انٹیلی جنس کی طرف دیکھا، جنہوں نے مجھے اندر جانے کا اشارہ کیا، میں ہکاّ بکاّ رہ گئی۔ میں نے غصے میں آکر ایسی زبان چلائی کہ اس سے پہلے کبھی یہاں تک نوبت نہیں پہنچی تھی۔

میں نے ان سے کہا:
”کیا تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو.... میں اندر نہیں جاﺅں گی.... میں تو بذریعہ ریڈ کریسنٹ طیارہ گھر جاﺅں گی.... میں اس کوٹھڑی میں قدم تک نہیں رکھوں گی.... میں غلیظ کام نہیں کرتی.... میں ایک برطانوی صحافی ہوں.... تم مجھ سے ایسا سلوک نہیں کر سکتے.... میں جب گھر پہنچوں گی تو تمہارے پول کھول دوں گی.... اور تمہارے (دونوں کی طرف باری باری انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے) بار ے میں بھی لکھوں گی.... یہاں میرا تم سے مطالبہ ہے کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہراﺅ.... اس کے اخراجات میرا اخبار دے گا.... کیا تم مجھے کوئی سر پھری عورت سمجھتے ہو.... جھوٹے فریبی مکارّ.... تم نے تو مجھے گھر جانے کے لئے کہا تھا۔“
دونوں آدمی، جنہوں نے پہلے کہا تھا کہ وہ انگریزی بول سکتے ہیں، میرے جملے کو اچھی طرح سمجھ گئے۔ انٹیلی جنس افسر، مجھے غصے میں دیکھ کر دل میں خوش ہو رہا تھا، جس کا اظہار اس کے چہرے سے ہو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انہوں نے مجھ سے کھیل کھیلا تھا، اور اس پر میرا احتجاج بالکل بجا تھا۔ اس نے کہا:
”یہ افغانستان ہے.... تم نے ہمارا قانون توڑا ہے.... تم اس ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئی.... اب تمہیں یہیں پر ٹھہرنا ہوگا۔“

میں خوف، غم اور غصے کی ملی جلی کیفیات میں تھی، ان کیفیتوں کا یکجا ہونا کسی کےلئے بھی خطرناک ہو سکتا تھا۔ میں نے بدستور چلاّتے ہوئے کہا:
”میں یہاں ہر گز نہیں ٹھہروں گی.... کیا تم سمجھ نہیں رہے ہو؟.... میں مہذّب ہوں.... میں برٹش شہری ہوں.... تم مجھ سے ایسا سلوک نہیں کر سکتے۔“

اسی لمحے ایک اور کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ اس میں سے چھ افغانی لباس والی عورتیں باہر جھانک کردیکھنے لگیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ان میں سے ایک سیاہ بالوں والی عورت نے، جس نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا، پوچھا:
”کیا تمہارا تعلق ریڈ کراس سے ہے۔“
میں نے اِدھر اُدھر نظر ڈالی اور اسی برہمی کی حالت میں بولی:
”نہیں، میں وہ نہیں.... لیکن میں بلڈی کراس ہوں اور تم؟ کیا تم انگریزی بولتی ہو؟“ .... میں درمیان میں رُک گئی تھی اور حیران تھی کہ یہ کون ہیں؟
عورت نے جواب دیا:
”جی ہاں! میں آسٹریلین ہوں، یہ دو امریکن ہیں اور دیگر تین جرمن ہیں۔ “
یہ ان طالبان اور غالباً میری بھی خوش قسمتی تھی کہ میری توجہ ذرا بٹ گئی ، میرے چہرے پر میری اپنی شناخت واپس آگئی، میں چہک کر بولی:
”اوہ میرے خدایا!.... تو آپ کرسچئن ہیں، لیکن مجھے تو بتایا گیا تھا کہ آپ سب ہوٹل کے کمروں میں رہتی ہیں، آپ کے پاس ٹی وی ، ویڈیوز اور کمپیوٹرز وغیرہ ہیں۔“

میرے ریمارکس پر وہ کھلکھلا کر ہنسیں اور بتایا کہ وہ جرمنی میں قائم ایک فلاحی ادارے ”شیلٹر ناﺅ انٹرنیشنل “(Shelter Now International )کی کارکن ہیں، ان کے دو مرد ساتھیوں پر اس الزام کے تحت مقدمہ چل رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو عیسائی بنا رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ پشتو جانتی ہیں؟ جواب ملا کہ ہم سب پشتو جانتی ہیں۔ یہ سن کر مجھے بے پناہ خوشی ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ ان طالبان سے کہیں کہ میں یہاں ہر گز نہیں ٹھہروں گی، انہیں میرے لئے ہوٹل میں بندوبست کرنا ہوگا، یہی ان کےلئے بہتر رہے گا، ورنہ اس کے نتائج انہیں بھگتنا ہوں گے۔“

یہ سن کرجرمن عورتوں میں سے ایک، جس کا نام ”کیتھی“ تھا، مجھے یوں دیکھنے لگی جیسے میں پاگل ہو چکی ہوں۔ پھر اس نے ان کے سامنے میرے فقرے ذرا نرم کرکے آہستگی سے دہرائے۔ دونوں مرداِن لڑکیوں سے کچھ گفتگو کرتے رہے۔ آسٹریلین لڑکی ”ڈیانہ“ نے کہا کہ تمہارے لیے بہتر یہی رہے گا کہ آج رات ہمارے پاس ہی ٹھہرو، صبح تمہارے لےے کچھ نہ کچھ ہو جائے گا، پریشان نہ ہو۔

میں بڑبڑاتی اور ان مردوں کو برا بھلا کہتی ہوئی اُس کوٹھڑی کے اندر چلی گئی ،جو اندر سے سات میٹر لمبی اور پانچ میٹر چوڑی (23فٹ 16xفٹ) تھی ۔ میں نیچے بیٹھ گئی اور خوب روئی۔ پھر میں نے پوچھا :
” اگر میں تمباکونوشی کروں تو آپ میں سے کوئی برا تو نہ منائے گی؟“
جواب ملا:” ہم سب بُرا منائیں گی۔ “

میں ڈر گئی لیکن میرے غصے میں کوئی کمی نہیں آئی، تاہم کرسچئن ہونے کے ناطے انہیں اس کا حق حاصل تھا۔ میں نے کہا، اچھا سگریٹ بعد میں سہی ،آﺅ اب باتیں کریں۔

مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں تقریباً سات دنوں سے عورتوں کی ہم نشینی سے محروم رہی تھی اور کسی کی زبانی بھی روانی سے بولی جانے والی انگلش سننے کو ترس گئی تھی، اس لئے میں ان کے پاس بیٹھنے سے بے حدراحت محسوس کرنے لگی اور خوب جی بھر کر باتیں کیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے اندر ان محرومیوں کا غبار تھا، اس لئے میں ان ”دوغلے“ آدمیوں کے سامنے پھٹ پڑی تھی۔پھر میں نے انہیں اپنی کہانی سنائی۔

میں نے انہیں بتایا کہ میں ہفتے کے بیشتر حصے میں بھوک ہڑتال پر رہی۔ اور ڈیانہ نے بتایا کہ ان میں سے بعض نے بیس دن روزے رکھے تھے۔

ان کے منہ سے ”روزے“ اور بیس دن کے الفاظ سن کر مجھے اپنے گھٹیا ہونے کا احسا س ہوا۔ چنانچہ میں نے اعلان کیا کہ میں ایک گندا احتجاج کروں گی اور جب تک رہائی نہ ہوں گی، نہانا دھونا نہ کروں گی۔

”نہ، نہ.... ایسا نہیں ہوگا“ ڈیانا نے ہنستے ہوئے کہا....”وہ دیکھو!“ اس نے اپنی ایک امریکن ساتھی ہیتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔اس نے یہ اشارہ واضح مگر خوشگوار انداز میں کیا ، اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ غالباً اس چھوٹے سے گروپ کی لیڈر ہے۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166612 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More