عالم اسلام ایک عظیم قائد سے محروم ہوگئیں

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک نے ایک نہ ایک دن یہ دنیا چھوڑ کر جانا ہے لیکن ہم میںسے کچھ لوگ ایسے بھی کہ انکے وفات سے معاشرے میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوجاتا ہے اور لوگ اسکی کمی کو تا دیر محسوس کرتے ہیں ،ایک ایسی شخصیت معروف مذہبی اسکالر ،جماعت اسلامی کے سابق امیر یکجہتی کونسل کے موجودہ صدر قاضی حسین کا بھی تھا جو ہفتے اور اتوار کے درمیانی شب اسلام آباد میں دل کا دورہ پڑنے جانبر نہ ہوسکے اوراپنے خالق خقیقی سے جا ملے -

قاضی صاحب 1938ء میں ضلع نوشہرہ (خیبرپختونخوا) کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب صاحب ایک ممتاز عالم دین تھے اوراپنے علمی رسوخ اور سیا سی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدرچنے گئے تھے۔قاضی صاحب اپنے 10بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمن اور مرحوم قاضی عطا الرحمن اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھے۔ قاضی حسین احمد بھی ان کے ہمراہ جمعیت کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے۔ لٹریچر کا مطالعہ کیا اور پھر اپنا سب کچھ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف کردیا۔قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والدِ محترم سے حاصل کی۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔ بعد ازاں جہانزیب کالج سیدو شریف سوات میں بحیثیت لیکچرارتعیناتی ہوئی اور وہاں 3برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کردیا۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی موجودگی کے نقوش ثبت کیے اور سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ دورانِ تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970 ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے،پھرجماعت اسلامی پشاورشہر اور ضلع پشاورکے علاوہ صوبہ سرحدکی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ 1978 ء میں آپ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور1987ء میں آپ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب کر لیے گئے۔ وہ 4مرتبہ (1999ئ،1994ئ، 1992ئ، 2004ئ) میں امیرمنتخب ہوئے۔وہ 22سال تک جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہے۔قاضی حسین احمد 1985 ء میں 6سال کیلیے سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1992 ء میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے،تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینیٹ سے استعفیٰ دے دیا۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب 2حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم 2007ء میں جامعہ حفصہ میں فوجی آپریشن اور جامعہ کی طالبات کے بہیمانہ قتل عام پر احتجاجاً اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ واضح رہے کہ قاضی حسین احمد نے لال مسجد سانحے سے پہلے وہاں جاکر لال مسجد انتظامیہ سے اظہاریکجھتی کے طور پر ایک دن بطور اعتکاف لال مسجد میں گزارا"قاضی حسین احمد نے ہمیشہ اپنی ایک ہی شناخت پر فخرو اصرار کیا ہے اور وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے شناخت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے اتحاد کی سعی کی۔تمام مکتبہ ہائے فکر کی اہم پارٹیوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل آپ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔کسی منصب یا عہدے کی خواہش نہ رکھنے کے باوجود مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کی وفات کے بعد آپ کو اتفاق رائے سے اس کا صدر چناگیا۔ اس سے پہلے شیعہ و سنی اختلافات کی بنیاد پر بھڑکائی جانے والی آگ پر قابو پانے کے لیے آپ کی کوششوں سے ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں آیا، آپ اس کے روحِ رواں تھے۔جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد انہوں نے قومی اور بین الاقوامی امور پر مشاورت کے لیے ادارہ فکر وعمل کی بنیاد ڈالی۔ 80ء کے عشرے میں متحدہ شریعت محاذ وجود میں آیا تو آپ اس کے سیکرٹری جنرل تھے کراچی میں لسانی تعصبات کے شعلے بلند ہوئے تو اپریل 1988ء میںآپ پشاور سے کاروانِ دعوت ومحبت لے کرکراچی پہنچے اور پورے ملک کو محبت و وحدت کا پیغام دیتے ہوئے واپس پشاور آئے۔ تحریک نظام مصطفی میں امت متحد ہوئی تو آپ نے صوبہ سرحد کا محاذ سنبھالا اور پسِ دیوارِ زنداں بھی رہے۔اتحاد امت کی ان کوششوں کا دائرہ پاکستان تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ قاضی صاحب نے یہ پیغام دنیا بھر میں عام کیا۔ قاضی حسین احمد نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے قائدین اور علما و مفکرین کوساتھ ملا کر ان اختلافات کو پاٹنے کی مسلسل کوششیں کیں‘اتحاد و وحدت کی یہی کاوشیں کشمیر میں بھی جاری رکھیں‘ سوڈان میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر حسن ترابی اورصدر مملکت جنرل عمر حسن البشیر کے درمیان قاضی صاحب کے حکم پرصلح کا معاہدہ عمل میں آیا‘عراق کویت جنگ ہویا مسئلہ فلسطین، بوسنیا اور کوسوو میں مسلم کشی ہو یا چیچنیا میں قتل عام،برما کے خون آشام حالات ہوں یا اریٹریا کے غریب عوام کے مصائب، قاضی حسین احمد نے پورے عالم میں امت کی توانائیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمیشہ امت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔1997 ء میں ممبرسازی کی ملک گیر مہم شروع کی گئی اور 45لاکھ افراد نے جماعت اسلامی کی دعوت و پروگرام کی حمایت کرتے ہوئے تنظیم جماعت کا حصہ بننے کا اعلان کیا۔ قاضی حسین احمد صاحب نے بھی ہر حق گو کی طرح قیدو بند کی صعوبتوں اور گرفتاریوں کا سامنا کیا۔ تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران گرفتاری کے علاوہ افغانستان پر امریکی حملوں اور یورپ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی خاکوں پر احتجاج کرنے کی پاداش میں بھی انہیں گرفتار کیاگیا۔ دوران گرفتاری انہوں نے متعدداہم مقالہ جات لکھے، جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔قاضی حسین احمدکے 2بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔ اور وہ سب اپنی والدہ سمیت جماعت اسلامی کی دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں میں پوری طرح فعال رہتے ہیں۔قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو،انگریزی،عربی، فارسی،پنجابی اور ہندکو پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبالؒ کے بہت بڑے خوشہ چین تھے، انہیں فارسی و اردو میں ان کااکثر کلام زبانی یاد تھا اور وہ اپنی تقاریر و گفتگو میں اس سے استفادہ کرتے تھے-

آج قاضی صاحب کے فوت ہوجانے سے نہ صرف اہل پاکستان مغموم ہیں بلکہ دنیا بھر کے اسلا می مزاحمتی تحریکیں اپنے روحانی قائد سے محروم ہوگئیں -

آخر میں کالم کا اختتام اس دعا سے کرتا ہوں کہ الله پاک قاضی صاحب مرحوم کے درجا ت بلند کرکے ان جنت الفردوس میں مقام عطاء فرماۓ اور اہل پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کو یہ غم سہنے کی توفیق عطاء فرماۓ آمین۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 115172 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More