پاکستان۔۔۔۔نوجوانوں کی قیادت کا منتظر

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

موجودہ ملکی صورتحال کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ ہر کوئی ملک کی بھاگ دوڑ سبھلنے کے لئے تیار ہے۔اس میں گزری ہوئی، موجودہ اور مستقبل قریب کی بھی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔لوگوں کا یقین اور آخری اُمید تحریکِ انصاف کے چیئرمین سے وابستہ ہے نہ کہ ان کے کسی پارٹی کے ممبر یا کارکن سے، ہاں اس موقعہ پر یہ سوچنے کی بات ہے کہ اتنے عرصہ میں دوسری پارٹیوں میں رہنے کے بعد جب یہ لوگ سوچتے ہیں کہ عمران خان کی تحریک انصاف کا منشور یا ایجنڈا ملک اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہے۔ تو یہی سیاسی لوگ پچھلے 15,16سالوں سے عمران کے منشور یا ایجنڈا کا پتہ کیوں نہ تھا۔ کیوں اس وقت عمران خان کو سپورٹ نہیں کیا ؟ کیوں عوام نے بغیر سوچے سمجھے کے ہر دفعہ کی طرح ایک ہی پارٹی اور اپنے اپنے پسندیدہ ممبروں کو ووٹ دیئے۔کیوں اس وقت عمران خان یاد نہ آیا؟ اب کیوں اور کس وجہ سے عمران خان سے اُمیدیں وابستہ ہیں۔ اب عوام اپنے ہی منتخب کئے ہوئے ممبروں سے کیوں تنگ ہے ؟کیا اُس وقت عمران خان یاد نہیں آیا تھا جب ووٹ ڈالنے گئے تھے؟ اب عمران خان نے کیا ایسا کردیا جو ہر کوئی تحریک انصاف کی دُم پکڑنا چاہتا ہے اور اس تحریک میں شمولیت کو اپنی عزت سمجھتا ہے۔یعنی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہوئی۔جس کو کوئی کام نہیں ملتا وہ جوق در جوق حکمرانی کی لالچ میں شامل ہورہا ہے اور خود کو پارٹی اور تحریک کا کارکن شمار کر رہا ہے۔یہ جو پارٹی ممبرز تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں کیا کبھی انہوں نے یہ سوچا ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لیے کیا کیا ہے؟ یہ جو بڑے مان سے کہتے ہیں کہ ان کو سیاست میں 30سے 40سال ہو گئے ہیںکبھی انہوں نے سوچا کہ پاکستان کو کتنا نقصان دیا؟ اور کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی اپنی پارٹیوں میں کا م کیا اور تجربہ ہے تو پھر ان کے تجربہ تو فضول ہوا جو ان کے تجربہ سے ان کی اپنی پارٹی کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔یا یہ سمجھ لیں کہ یہ اپنی اپنی پارٹیوں میں انٹرشپ پر تھے جو صرف اور صرف وظیفہ دیتی اور دورانیہ ختم ہونے پر سرٹیفیکٹ دے کر فارغ کر دیتی ہیں۔اور جو خودانٹرشپ پر ہو تو وہ ملک و قوم کی بھلا کیا خدمت کرے گا؟جب بھی کو کسی جگہ پر ملازمت کرتا ہے تو انٹرویو لینے والا اس سے پوچھتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تم اتنا تجربہ ہونے کے باوجود پہلی والی جاب چھوڑ رہے ہو، یا تم کو نکل دیا گیا ہے یا تمہھاری پرفارمنس سے کو ئی مطمئن نہیں تھا تو وہ سب کچھ بتا دیتا ہے لیکن وہ ذہین میں یہ بھی سوچ رکھتا ہے کہ اگر یہاں نوکری نہ ملی تو شکر کر کے ادھر پہلی والی جگہ پر کا م کرتا رہوں گا جب تک کو ئی اور نوکر ی نہیں مل جاتی ۔تو ان ممبرز کا بھی یہی حال تو نہیں ہونے والا تحریک انصاف میں کہ اگر کام مل گیا تو ٹھیک ورنہ وہی پُرانی یا کوئی اور پارٹی ہی سہی؟کیونکہ بات تو تجربہ کی ہے۔سب کو حکمرانی کا نشہ بھولتا نہیں اس لئے نام پاکستان اور غریب عوام کا کرکے حکومت کرنا چاہتے ہیں لیکن اب عوام میں کچھ سمجھ لگ رہی ہے ہر کوئی خود مختیار لگ رہا ہے جو کہ آخری دن تک اﷲ کرے خودمختیار ہی رہے۔تحریک انصاف میں جوق در جوق شمولیت سے تحریک انصاف میں جلد ہی دھڑے بن جائیں گے۔کیونکہ جن لوگوں نے ہمیشہ اعلیٰ پایہ کی سیاست کی ہو وہ کبھی غریبوں والی سیاست کو پسند نہیں کرتے ۔کبھی عمران خان نے اپنے پُرانے کارکنوں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کبھی ان سے بھی رائے لی کہ کن کن کو پارٹی ٹکٹ دینا چاہیے؟کیوں یہ لوگ جوق در جوق تحریک انصاف کو جوائن کر رہے ہیں جو کہ کافی عرصہ سے اس تحریک کو ملک کی چھوٹی جماعت اور کبھی حکمرانی میں نہ آنے کا خیال کرتے تھے۔تحریک انصاف کے منشور یا پارٹی کے کیا اصول ہیںجو یہ لوگ اپنی اپنی سیاسی لیڈروں کو اپنے تجربہ کی بنیاد پر منوا نہ سکے۔عمران خان نے سوچا کبھی کہ یہ جو اتنا عرصہ پارٹیوں میں رہے ہیں حکومت میں بھی رہے پھر کیا وجہ ہے کہ ملک بجلی، گیس، بے روزگاری، معاشی طور پر ترقی نہ کر سکا؟ الیکشن سے پہلے ہی ہرممبرجو کہ دوسری پارٹیوں سے ہجرت کر کے آئے ہیںسے خود عمران خان کو ان کا احتساب کرنا چاہیے کہ کیوں ملک و قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ کیوںملک میں بدامنی ، کرپشن، مہنگائی اور ہڑتالیں ہوتی رہیں اور یہ سب چپ کر کے دیکھتے رہے؟بے گناہ لوگوں کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا کہ جس کی مرضی ہو راہ روک کر قتل کر دیتا ہے؟لوٹ مار، منشیات کی روک تھام کیوں نہ کی گئی؟ڈرون حملوں کے خلاف کیوں کوئی حکمتِ عملی نہ بنائی گئی؟ کوئی عمران خان سے پوچھے کہ کس بنیاد پر ان لوگوں سے امید رکھے ہوا ہے۔جب کہ ملک کو سبھلنے کے لئے ابھی نوجوان قیادت موجود ہے جو کہ ان سے اچھی طرح پلاننگ کرسکتی ہے۔نوجوانوں کو اب ملک کی بھاگ دوڑ سبھلنے دی جائے نہ کہ ان کو جو پہلے بھی ملک کو دھچکے دے چکے ہیں۔ اگر عمران خان سوچ رہے ہیں کہ وہ ان تجربہ کارلوگوںکے ساتھ مل کر ملک کا نظام تبدیل کر دیں گے تو یہ خواب ہو گا۔لیکن اگر عمران خان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو چانس دے تو پاکستان اور قوم کے لئے سوچے گئے سب خواب پورے ہوسکتے ہیں۔میری گزارش ہے کہ خداراہ پاکستان ابھی تک قائداعظم اور علامہ اقبال جسے دو عظیم لیڈروں کا غم ابھی تک نہیں فراموش کر سکا۔ پاکستان کے بازوں میں اب پہلی والی طاقت نہیں رہی، کمزروی لاحق ہو گئی ہے،دوسروں کی سازشوں کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے،روز روز کے فسادات، ہڑتالوں، بے روزگاری، مہنگائی، معاشی نظام کی تباہی، توانائی اور دوسرے بڑے مسائل نے اس کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔اب اس کو جوانوںکے لہو کی ضرورت ہے، نوجوان قیادت کی ضرورت ہے جو قائداعظم اور علامہ اقبال جیسی سوچ رکھتے ہوں۔فاطمہ جناح جیسی عورتوں کی ضرورت ہے جو ملک و قوم پر ہر چیز قربان کر دیں۔محمد بن قاسم جیسے دلیر لیڈروں کی ضرورت ہے جو ملک و قوم پر انچ نہ آنے دیں۔اسلامی ریاست کے حامی لوگوں کی ضرورت ہے۔جب نوجوان قیادت اور باہمت لوگ پاکستان کا سہارا بن جائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان خود کو جوان محسوس کرے گا۔اس لئے پارٹی جو بھی ہو ملک و قوم کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جاہیں۔اندرونی طاقت کو مضبوط کیا جائے اور اسلامی نظام کو فوقیت دی جائے۔ہمیشہ زمین میں دانہ ڈال کردرخت بنتا ہے اور پانی زمین کو دیا جاتا ہے جبکہ اثر اس کا اوپر آخری پتہ پر پڑتا ہے۔ اس لئے اوپر سے لوگوں کو ترجیح دینے کی بجائے نیچے سے لوگوں کو اوپر لایا جائے ۔اور اگر یہ ترجیح نوجوانوں کو دی جائے تو ملک و قوم کے دن بدل جائیں۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 97541 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.