معذرت یا معافی

میں صحافی حضرات اور اینکرز پرسن کو تنبیہ کرتا ہوں کہ ایم کیو ایم کے خلاف بکواس نہ کی جائے ۔ کچھ اینکرز پرسن اور رپورٹرز بلاوجہ ایم کیو ایم کے خلاف بکواس کر رہے ہیں ۔ آپ کو اختلاف کا حق ہے بکواس کرنے کا حق نہیں ہے اگر آپ نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اللہ نے ہمیں بھی ہاتھ دیے ہیں ۔ میں دھمکی نہیں دے رہا اشارہ دے رہا ہوں ۔ اسی میں تمہاری بہتری ہے ورنہ انقلاب کا راستہ جہاں اوروں کی بازپرس کرے گا وہاں تم بھی محفوظ نہیں رہو گے۔ یہ الفاظ 30اور 31 دسمبر 2012 کی درمیانی شب متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقریر کے ہیں۔

نہ جانے ایم کیو ایم کے قائد نے اپنے خطاب میں ایسا کیا مبہم اشارہ دیا ہے کہ تمام ہی اینکرز پرسن اور کالم نویس الطاف حسین کی اس دھمکی کو سنجیدہ لے بیٹھے ہیں اورتشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ بعض دبے اور کھلے لفظوں تنقید کر رہے ہیں ۔اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کل تک ایم کیو ایم کے قصیدے پڑھتے اور گن گاتے تھے اور ان کا شاید بس نہیں چلا کہ وہ پیر دھو دھو کر پیتے ۔الطاف حسین نے اپنے تقریر میں اشارہ دیا ہے اورشاید عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اپنی عقل مندی کا ثبوت پیش کر رہا ہے۔موصوف نے اینکرز پرسن ، صحافی برادری ، رپورٹرز یا میڈیا کے لیے جو کچھ کہا وہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے ۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم بھی دیگر کی طرح اپنی عقل مندی کا ثبوت پیش کر رہے ہوں۔جہاں تک ہمارا حافظہ کام کر رہا ہے ۔ لندن سے براہ راست آنے والے اس خطاب میں سیاسی ومذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کو 40 چوروں سے تشبیہ بھی دی گئی اور کسی کو سر عام مغلظات بھی بکیں گئیں جس پر صحافتی اخلاقیات کا لحاظ کرتے ہوئے نہ ہی کسی نیوز چینل نے عذر پیش کیا اور نہ ہی کسی کالم نویس نے اس پرناراضگی اور برہمی کا اظہار کیا۔شاید ہمارے ہاں سیاست ہی کو گالی بنا دیا گیا ہے اس لیے کسی سیاست دان کو گالی دینے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔

میڈیا کو یرغمال بنانے کی سیاست کا آغاز بھی ایم کیو ایم نے کیا اور صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی روایت کا سہرا بھی ایم کیو ایم کے سر جاتا ہے ۔ اگر میڈیا ٓزاد ہے تو یہ کیسی آزادی ہے کہ ایم کیو ایم کے جلسے اور پریس کانفرنسیں گھنٹوں براہ راست نشرکی جائیں ۔9ستمبر2012کو الطاف حسین کی کم و بیش ساڑھے تین گھنٹے طویل پریس کانفرنس بلا کسی وقفے کے نشر کرنا ”آزادی اظہاررائے “کی سب سے عمدہ مثال ہے ۔ کیا ٹی وی چینلز ایم کیو ایم کے کسی بھی جلسے، پریس کانفرنس کوبلا خوف و خطرنشر کرتا ہے۔ اس لیے اگر الطاف حسین کی دھمکی سے صحافی برادری میں تشویش کی لہر اٹھی ہے تو اس پر مجھے حیرت ہوئی ہے ۔بہر حال یہ ہمارا مدعا ہے ۔ الطاف حسین کی جانب سے اپنے کہے پر معذرت بھی کی گئی ہے اور ہماری محدود علمی صلاحیت کے مطابق معذرت کے معنی ہیں عذرپیش کرنا ۔ چنانچہ الطاف حسین نے عذر پیش کیا ہے عذر کیا ہے یہ نہیں بتایا گیا اور اگر کراچی میں رہنا ہے تو پھر کسی کی مجال کہ موصوف سے عذر بھی پوچھا جائے ۔ویسے بھی وہ لطیفہ تو آپ نے بھی سنا ہوگا ۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہے ۔ انڈہ دے یا بچہ اور کراچی جنگل نہ سہی لیکن کراچی میں جنگل کاسا ہی قانون رائج ہے۔اگر معذرت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو کیا الطاف حسین ماضی میں میڈیا کے خلاف اپنائے جانے والے رویہ پر بھی معذرت پیش کریں گے ۔ایم کیو ایم کی تاریخ ہے کہ ایم کیو ایم نے ماضی میں کبھی بھی سیاسی اختلاف کوپسند نہیں کیا اور اختلاف رائے رکھنے والوں کا جو انجام ہوا اس کا اندازہ کراچی میں رہنے والے ہر فرد کو بہ خوبی ہے۔ مہاجر قومی مومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک کے سفر میں کتنے بے گناہوں کو قائد سے غداری یا متحدہ قومی موومنٹ سے اختلاف پرسبق سکھایا گیا ۔کراچی کے رہنے والے آج بھی ” جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے“ کے نعروں سے واقف ہیں۔صحافیوں سے بظاہر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے والے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے انحراف کرنے والے کارکنوں اور رہنماﺅں کی اکثریت آج مقتولین کی فہرست میں شامل ہیں اور اس کی حالیہ مثال گزشتہ برس نومبر 2012 میں مہاجر قومی مومنٹ حقیقی کے سینئر وائس چیئرمین ظفر قائم خانی کا تین کارکنوں سمیت قتل ہے۔ جس کی ایف آئی آر میں متحدہ کے قائد الطاف حسین اورتنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی بھی نامزد ہیں۔

80 کی دہائی کے آخر میں ایم کیو ایم نے ملک کے سب سے بڑے اخبار کو مہاجر دشمن قرار دے کر اس اخبار کا بائیکاٹ کیا اور اس بائیکاٹ کے نتیجے میں شہر کے گلی کوچوں میں نہ صرف اس اخبار کے خلاف چاکنگ کی گئی بلکہ اس اخبار کے بنڈل تک جلائے گئے اور اخبار کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا ۔ اسی دوران کراچی کے تمام اخبارات کے ایڈیٹروں کو معافی مانگنے کے لیے90بھی طلب کیاگیا۔نوے ( 90) کی دہائی کے اوائل میں صحافی کے گھروں پر حملے کیے گئے ۔تکبیر کے ایڈیٹر سید صلاح الدین کے گلبہار میں واقع گھر کو نذر آتش کیا گیا ۔دی نیوز کے رپورٹر اور آج کل جیو نیوز کے معروف اینکر کامران خان پر خنجر سے حملہ کیا گیا۔

صحافیوں کوملنے والی دھمکیاں نئی بات نہیں ہے ۔ ماضی میں کراچی کے صحافیوں کولفافوں میں گولیوں کے تحفے بھی پیش کیے گئے اور ایک فوجی ڈکٹیٹر نے ہوا میں مکہ لہراکر بھی اپنی طاقت کا سکہ جمانے کی کوشش کی لیکن آج وہ خود بھی مفروری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ قلم کے سپاہی تب ہی سینہ سپر تھے اور آج بھی ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع کے لیے ہمارے سینئر صحافی اور استاد علاﺅالدین ہمدم خانزادہ نے نظم لکھی تھی۔
شام ِ غم ظلمت شب صبح ِ علم بولتے ہیں
جب کوئی اور نہیں بولتا ہم بولتے ہیں
بول جب بند تھے سب کے تو ہم ہی بولتے تھے
بولتا کوئی نہیں آج بھی ہم بولتے ہیں
دیدہ ور اہل صفاءاہل ِ جنوں چپ ہی رہے
سچ کو جو لکھتے ہوئے ہاتھ قلم بولتے ہیں
کیا کوئی پیار کے لہجے کو بدل سکتا ہے
پیار تو کرتے ہیں اور پیار سے کم بولتے ہیں
کربلا آج بھی جاری ہے کوئی ہے عباس
شانے کٹ جائیں تو پھر ان کے علم بولتے ہیں
سچ ہی سرمایہ ہے اس بے سرو سامانی میں
سچ نہ بولے کہو ہمدم سے کہ ہم بولتے ہیں
GJ
About the Author: GJ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.