عالم رویا کی باتیں کرنے والا ، کیا کرے گا؟

عالم ِ رویا کی باتیں کرکے لوگوں کو مرعوب کرنے والے طاہرالقادری جس دن سے پاکستان میں وارد ہوئے ہیں اس روز سے میرے ذہن میں تین سوالات اچھل کود کررہے ہیں۔ ان سوالات کے تذکرے سے قبل میں یہ واضع کردینا چاہتا ہوں کہ پہلے ہی روز سے مجھے طاہرالقادری کی ملک میں اچانک آمد نیک شگون نہیں لگ رہی ہے۔جس کی وجہ شائد یہ ہو کہ مجھے ذاتی طور پر کسی دوہری شہریت رکھنے والے سیاسی لیڈر ، خاص یاعام آدمی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جس کی وجہ یہ ہے ایسا شخص ہم کو ملک اور قوم سے محبت کا یقین نہیں دلاسکتا ۔رہی بات کہ بحیثیت مسلمان میں کسی ایسے آدمی سے کس طرح متاثر ہوسکتا ہوںجس کے بارے میں یہ اطلاعات ہو کہ اسے مصر کی الاظہر اسلامک یونیورسٹی متنازعہ شخصیت قرار دے چکی ہے؟۔جس کے سعودی عرب میں داخلے پر پابندی کی خبریں عام ہو۔؟ طاہرالقادری میں کوئی تو خامی ہوگی یا نا پسندیدہ بات کہ وہ سعودی عرب ہی نہیں جاسکتے؟۔ سعودی عرب وہ ملک ہے جس کا وہ خواب سناتے ہیں اور آپﷺ کا ذکر کرتے ہیں۔یو ٹیوب اور آزاد میڈیا پر اس خواب کا ویڈیو لنک موجود ہے ،کوئی بھی باآسانی دیکھ سکتا ہے۔مولانا خواب کے بارے میں جو تفصیلات بیان کرتے ہیں وہ بہت سو کے لیئے نا قابلِ یقین ہیں۔

عالم رویا کا مطلب ہے ”خواب کی حالت “۔ مولانا کی خواب کی حالت کے حوالے سے دو مختلف ویڈیو میڈیا مارکیٹ میں ہیں ایک میں مولانا نے بتا یا کہ انہوں نے پندرہ ، بیس سال تک امام اعظم سے فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی ۔ جبکہ دوسری ویڈیو میں انہوں نے ذرا مختلف انداز سے قسم کھا کر بتایا کہ” میں نے نو سال تک امام اعظم سے عالم ِ رویا میں پڑھا ہوں“ ۔اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے نو سال اور پندرہ بیس سال کا یہ فرق دو الگ مقامات کی تقاریر میں کیوں کیا ؟ یہ تو وضاحت مولانا ہی کرسکتے ہیں ۔ قارئین اگر چاہیں تو گوگل سرچ انجن پر Tahir-ul-Qadri۔ٹائپ کرکے اس ویڈیو اور دیگر ویڈیوز کو تلاش کرسکتے ہیں۔

حنفیت کی تربیت حاصل کرنا یا ان کا خواب میں پندرہ بیس سال تک امام اعظم کی شاگردی حاصل کرنا اس لیئے سمجھ سے بالا تر ہے کہ آدمی زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے سو سکتا ہے ۔ ظاہر ہے خواب سوتے میں ہی آتے ہیں اگر حقیقی خواب ہوں تب! ۔ لیکن کیا مولانا 15، 20 سال سوتے رہے؟اگر یہ سچ ہے تو ان کا نام گنیز بک میں بھی آنا چاہئے۔لیکن سنا ہے کہ گنیز بک کی ٹیم اپنے سامنے مظاہرہ کرواتی ہے۔

خواب کی باتیں کرنے والے اس شخص پر یقین کرنے اور اس کے گرد جمع ہوجانے والے لوگوں پر بھی مجھے حیرت اور افسوس ہے۔ مجھے اس بات پر بھی دکھ ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا طاہرالقادری کو اس قدر کیوں اہمیت دے رہا ہے؟طاہرالقادری کی غیر اسلامی جدوجہد پر اور تحریک منہاج القرآن کاغیر سیاسی ہونے کے باوجود سیاسی دنگل سجانے پر کیا کوئی ایک بھی ان کے مجمے میں ایسا نہیں ہوتا کہ ان سے یہ پوچھے کہ یہ سب کس بنیاد اور کن وجوہات کے باعث کیا جارہا ہے؟

لوگوں کو چاہئے کم از کم یہ تو سوچ لیں کہ جسے نفسیاتی مریض قرار دیا جاچکا ہے ، جو گذشتہ پانچ سال سے ملک سے باہر رہا ہواور جس نے کینیڈا کی شہریت قبول کرلی ہو ،وہ بھلا کس بنیاد پر اپنے آپ کو ملک اور قوم سے مخلص قرار دے رہا ہے؟سچ تو یہ بھی ہے کہ مولاناطاہرالقادری نے اپنے آپ کو ملک اور قوم سے مخلص ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔آئندہ کب تک وہ ملک میں قیام کریں گے یہ بھی واضع نہیں کیا ،اس کے باوجود لوگ ان کے پیچھے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔آخر کیوں ؟ کیا اس عمل سے ہمارے ملک اور یہاں کے لوگوں کی ساکھ متاثر نہیں ہوگی؟جن جماعتوں نے طاہرالقادری کے مارچ کی حمایت کی ہے کم از کم لوگوں کو ان جماعتوں اور ان کے لیڈرز کے بارے ہی میں ذرا غور کرلینا چاہئے ۔ ایک صاحب لندن کی شہرت رکھتے ہیں ، قانون کا احترام کرنے اور کسی سے نہ ڈرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن عدالت کے طلب کرنے کے باوجود واپس آنے سے گریزاں ہیں۔عدالت کو تحریری درخواست دی ک جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ان کی جان کو پاکستان میں خطرہ ہے،اس لیئے انہیں عدالت میں پیش ہونے سے استثنا دیا جائے۔ دوسرے حمایتی وہ ہیں جنہیں صدر آصف علی زرداری ایک عرصے تک ” قاتل لیگ “ سے مخاطب کیا کرتے تھے۔مولانا طاہر کے دونوں سیاسی حمایتی حکومت میں بھی ہیں اور بھر پور اختیارات اور سہولیات سے فائدے بھی اٹھا رہے ہیں ،لیکن حکومت کے خلاف ہونے والے لانگ مارچ کی حمایت بھی کررہے ہیں۔گوکہ منافقت سے بھر پور سیاست کا عملی مظاہرہ دھڑلے سے کیا جارہا ہے ۔ شائد مولانا کے مذہب میں اس طرح کی منافقت کی اجازت ہو؟ ۔

چلیں بات کرتے ہیں ان سوالوں کی جو مولانا طاہرالقادری کے آمد سے میرے اور تقریباََ ہر مخلص پاکستانی کے ذہن میں ہیں۔14 جنوری کا لانگ مارچ اگر کامیاب ہوگیا تھا کیا ہوگا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کامیابی کا فائدہ اٹھانے والے کون ہونگے ؟ تیسرا سوال یہ بھی ہے کہ لانگ مارچ کامیاب یا ناکام ہونے کی صورت میں ملک پر کیا اثرات پڑیں گے؟۔

تو عرض ہے جناب طاہرالقادری کا یہ مارچ کامیاب ہونے کا مطلب تو صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے کارکن اور طاہر صاحب کے چاہنے والے جمع ہوکر پارلیمنٹ ہاﺅس کی طرف جائیں گے اور پھر وہاں سے پرامن طور پر واپس پلٹ آئیں گے۔جن قوتوں نے بھی اس احتجاجی مارچ کا اسکرپٹ لکھا ہے اس کے منظر نامے ممکنہ طور پر دو ہیں۔ایک مقام وہ جہاں سے مارچ شروع ہوگا دوسرا وہ جہاں پہنچ کر دھرنا دیا جائے گا۔کسی اور ملک میں تو یہ ممکن ہوتا کہ جلوس اس مقام تک پرامن طور پر پہنچ جائے جہاں دھرنا دینا ہو ۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کو بھی پارلیمنٹ ہاﺅس تک اس کا گھیراﺅ کرنے کے لیئے راستہ دے دیا جائے۔پارلیمنٹ پاﺅس کے قریب پہنچنے سے قبل ہی جذباتی نعروں کے دوران کسی مقام پر پولیس اور سیکیورٹی کے ادارے ریلی کوروکنے کی کوشش کریں گے اور اسی مقام پر خدشہ ہے کہ صورتحال کنٹرول سے باہر ہوجائے گی جس کے نتیجے میں لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کا بھی امکا ن ہے۔ممکن ہے کہ یہاں بے نظیر بھٹو کے 27 دسمبر 2007 کے جلسے کی طرح کی کارروائی ہوجائے یعنی پہلے دھماکہ اور پھر فائرنگ یا پہلے فائرنگ اور پھر دھماکہ ہوجائے خدانخواستہ ۔ اب چونکہ رحمٰن ملک بھی یہ خبر دے چکے ہیں کہ لانگ مارچ پر حملہ ہوسکتا ہے ۔اس حملے کی وجہ سے کیا کچھ ہوگا یہ ابھی کہنہیں کہا جاسکتا اس بات کا خدشہ ضرور ہے کہ شرپسند عناصر کا ہدف مولانا طاہر ہونگے ۔اگر ایسا کچھ ہوگیا تو دارالحکومت کی حالت انتہائی خراب ہوجائے گی اور پھر ایمرجنسی بھی لگائی جاسکتی ہے ۔بہت امکان ہے کہ آصف زرداری اسی صورتحال کے باعث اسمبلیاں توڑ کر ملک بھر ایمرجنسی کا نفاد کردیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ فوج اس صورتحال کو بہانہ بناکر اقتدار سنبھال لے ، لیکن اس کے امکانات کم ہیں کیونکہ اب ہمارا ملک مارشل لاءجیسا نظام برداشت نہیں کرسکتا۔اگر ریلی خوش قسمتی سے پرامن رہی تو
تب بھی طاہرالقادری سمیت متعدد رہنما ﺅں کی گرفتاری کا امکان ہے ۔

ایسی صورت میں فائدہ اٹھانے والے ایک بار پھر آصف زرداری ہونگے۔لیکن کتنے دنوں کے لیئے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جن کے اشارے پرمولانا طاہر پاکستان آئے ہیں وہ ہی قوت انہیں یہاں سے واپس لے جائے گی۔اگر ملک کی ابتر صورتحال کا بہانے سے مارشل لاءآیا تو اس کا سب سے بڑا نقصان آزاد عدلیہ کو پہنچے گا جو ایک ہی حکم سے ختم کردیں جائیں گی۔لیکن ملک کی تمام صورتحال خصوصاََ طاہرالقادر کی پشت پناہی میںبین الاقوامی ہاتھ واضع ہوجائے گا۔ بہرحال جو کچھ ملک میں ہوگا اس کے قصور وار صرف اور صرف طاہرالقادری اور ان کی حمایتی جماعتیں ہونگی ۔

یادرکھئے کہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی موت کے بعد برسراقتدار آنے والی پیپلز پارٹی اوراتحادی جماعتوں کی حکومت جمہوریت سے بدتر ثابت ہوئی ہے۔جس کے باعث بعض حلقے گذشتہ دو سال سے موجودہ حکومت کاخاتمہ چاہتے ہیں۔عام لوگ اس جمہوریت سے اس قدر نالاں ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ فوج ہی اقتدار میں آجائے کیونکہ عام تاثر یہ ہی ہے کہ فوجی اقتدار میں مجموعی طور پر ملک میں امن و امان، روزگار، معاشی صورتحال بہت بہتر ہوتی ہے ۔

یہ سب اسی صورت ممکن ہوگا جب طاہرالقادری اپنے احتجاجی پروگرام پر عمل درامد کریں گے ۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومت طاہرالقادری سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تاکہ ان کو احتجاج سے روکا جاسکے۔

18 اکتوبر 2007 کو بے نظیر کی کراچی آمدکے موقع پر شاہراہ فیصل پر ہونے والے بم دھماکہ کے واقعہ کو ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔اس واقعہ میں بے نظیر بچ گئیں تھیں لیکن متعد د افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے جس میں اے آر وائی نیوز کا کیمرہ مین عارف بھی شہید ہوگیا تھا۔بعدازاں 27 دسمبر 2007 کو اسلام آباد میں ہونے والے واقعے نے ملک کی پوری صورتحال کو ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ملک اور اسلام دشمن قوتیں ملک میں کسی نا کسی بہانے گڑبڑ کرنا چاہتی ہیں، ان عناصر کو پاکستان کی جمہوریت اورخوشحالی سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ وہ تو صرف اپنے مفادات میں چالیں چلتے ہیں اور اس کے لیئے ہمارے مفادپرستوں کو استعمال کرتے ہیں۔

ذرا غور کریں کہ پاکستانی طالبان کی سرگرمیاں جاری ہیں 2007 میں بھی جاری تھیں اور ان دنوں بھی چل رہی ہیں۔ طاہرالقادری کی کراچی آمد اور متحدہ کے جلسے سے خطاب کے بعد فیڈرل بی ایریا میں ہونے والے جلسے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے اس واقعہ کو بھی بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔اللہ ہمارے ملک کی اور ہم سب کی حفاظت کرے ،آمین۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152702 views I'm Journalist. .. View More