ٹرانسپورٹ ۔ نیازی اور شہباز شریف

پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ میٹروبس منصوبہ تاریخ کا ایک عجوبہ ہے جس سے ٹرانسپورٹ کلچر میںنمایاں تبدیلی آئے گی ۔ یہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت کا ایک تاریخی کارنامہ ہے جس سے شہریوں کو آرام دہ ، محفوظ ، تیز رفتار اور باکفایت سفری سہولت میسر آئے گی۔ ہم نے آزمائشی طورپر بس چلا دی ہے مگر چند روز میں باقاعدہ سفری سہولتوں کی فراہمی شروع کر دیں گے۔ ای ۔ٹکٹنگ کا جدید نظام بھی لایا جا رہا ہے۔ 6میڑوبسیں لاہور پہنچ چکی ہیں اور باقی بھی جلد پہنچ جائیں گی۔ ان میں ہر ایک بس میں 150سے زائد مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے اور ہر سٹیشن پر بس ہر تین (3)منٹ کے بعد دستیاب ہو گی۔

میانوالی کے نیازی خاندان کے سپوت عمران خان نے لاہور میں ایک انتہائی کامیاب جلسہ کیا ۔ جسے اُس نے سونامی کا نام دیا تھا ۔ یہ کامیاب جلسہ یقینا مسلم لیگ (ن) کے لیے انتہائی فکر کا باعث تھا۔ مسلم لیگ (ن) لاہور کا اپنا قلعہ سمجھتی تھی اور سمجھتی ہے۔ اس لیے یہاں عمران کا ایک بڑا جلسہ مسلم لیگ (ن) کے لیے پریشانی کا باعث ہونا کچھ عجب نہیں۔ میاں شہباز شریف کے طرز عمل میں اور ترقیاتی کاموں کی رفتار میں اُس کے بعد ایک نمایاں تبدیلی آئی۔ کہتے ہیں کہ کسی سردار کے گھر چور آگیا ۔ سردار صاحب آہٹ سن کر اٹھ گئے۔ اور چور کو پکڑنے کے لیے لپکے۔چور بھاگ کھڑا ہوا۔ سردار صاحب اُس کے پیچھے ۔ تھوڑی دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ سردار صاحب چور کو پکڑنے کی بجائے اُس کے برابر سے آگے نکل گئے ہیں۔ لوگوں نے بڑی مشکل سے روکا تو بولے ” کرنی چوریاں اور دوڑ میرے ساتھ لگانی دو میل پیچھے چھوڑ آیا ہوں“۔ میاں صاحب نے مسلم لیگ (ن) کو اسی جذبہ کے تحت عوامی خدمت پر لگا دیا ہے۔ عمران تو جلسہ کرنے کے بعد چل دیا۔ میاں صاحب ابھی تک رک نہیں پائے۔ مگر کیا کیا جائے میاں صاحب ابھی سانس ہی لینے نہیں پائے کہ جناب طاہر القادری آگئے ۔ بھاگ بھاگ کر میاں صاحب کا پہلے ہی حال کچھ اچھا نہیں۔ اب دیکھیں قادری صاحب کے ڈر سے سپیڈ زیادہ ہوتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) تھک کر گرتی ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انتظار کرنا ہو گا۔ ویسے حالات بتا رہے ہیں کہ چودہ تاریخ سے پہلے کچھ تو ہونا ہے ۔

پنجاب میں کئی دہائیوں سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں نیازیوں کی اجارہ داری ہے۔ ٹرانسپورٹر نیازی ، ڈرائیور نیازی، کلینر نیازی۔ میٹرو ٹرانسپورٹ کا منصوبہ نیازی ٹرانسپورٹروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اوران کی اجارہ داری کو ایک عظیم جھٹکا۔ آزمائشی بس کا افتتاح بھی یہاں شہباز شریف نے اتفاق بس سٹینڈ سے گجومتہ تک خود بس چلا کر کیا او ریوں نیازی ڈرائیوروں کی اجارہ داری پر کاری ضرب لگائی۔ بس میں سوار بہت سے ایم این اے اور ایم پی اے کلینر کی ڈیوٹی دیتے رہے۔ ویسے بھی ہمارے سیاسی کلچر میں ایک آدھ لیڈر کے بعد سیاسی پارٹی میں جو لوگ ہوتے ہیں اگر اُن سے سرمایہ چھین لیا جائے تو وہ کلینر سے زیادہ حیثیت کے مالک ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن بہرحال جب تک نئے آنے والے لیڈر بشمول طاہر القادری صاحب انقلاب نہیں لاتے ہمیں انہی لیڈروں پر گزارہ کرنا پڑے گا۔

ایک پاکستانی ڈرائیور ایک جاپانی کو ائیر پورٹ چھوڑنے اپنی پرانی کھٹارہ اور مریل سی میڈ ان پاکستان ٹیکسی میں جا رہا تھا۔ اچانک ایک ٹویوٹا گاڑی تیزی سے اس کے پاس سے گزری۔ جاپانی بولا ”ٹویاٹا میڈ ان جاپان ویری فاسٹ“ ۔ تھوڑا فاصلہ اور طے کیا تو ایک ہنڈا فراٹے بھرتی گزر گئی۔ جاپانی نے پھر نعرہ لگایا ”ہنڈا میڈ ان جاپان۔ویری فاسٹ“ ۔ پاکستانی ڈرائیور نے سنی ان سنی کی اور اپنی مخصوص رفتار سے چلتا رہا۔ ائیرپورٹ کے قریب پہنچے تو ایک مسٹو بشی تیزی کے ساتھ پاس سے گزر گئی۔ جاپانی پھر چہک کر بولا، ”مسٹو بشی ، میڈ ان جاپان ۔ ویری فاسٹ“۔ چند منٹ میں ائیر پورٹ آگیا ۔ جاپانی نے کرایہ پوچھا۔، ڈرائیور نے 800روپے بتایا۔ بہت زیادہ بہت زیادہ مگر کیوں۔ جاپانی نے سوال کیا۔ ڈرائیور نے ہاتھ میٹر پر رکھا اور کہا ”میٹر ۔ میڈ ان جاپان ۔ ویری فاسٹ“۔ لگتا ہے شہبازشریف بھی کچھ کچھ میڈ ان جاپان کی طرح کے ہو گئے ہیں۔

جس طرح وقت مرگ یوم حساب کے ڈر سے لوگ اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ اقتدار کے آخری ایام میں نئے الیکشن کے ڈر سے سیاسی پارٹیاں عوام کو یاد کرنے لگتی ہیں۔ زبانی جمع خرچ میں تو پاکستان پیپلز پارٹی بھی بہت کچھ کر چکی ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ کرپشن کے جو الزامات اُن پر پچھلے ساڑھے چار سال میں لگ چکے ہیں انہیں دھونا بہت مشکل ہے۔ عزت بنانے اور اچھی ساکھ حاصل کرنے میں برسوں کا عرصہ لگتا ہے مگر گنوانا لمحوں کا کام ہے۔ اس مختصر عرصے میں اپنی ساکھ بحال کرنا پارٹی کے لے ممکن نظر نہیں آتا۔ پنجاب میں البتہ میاں شہباز شریف اپنی ان تھک محنت کے لے اپنے لیے بہتر مقام بناتے نظر آرہے ہیں۔ ان کی میڈیا ٹیم بھی قابل ستائش اور مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے میاں صاحب کی کارکردگی کو جائز اور موثر انداز میں لوگوں پر اجاگر کیا۔ الزام لگانا تو اس ملک میں فیشن ہے لیکن پنجاب حکومت کی بھر پور کارکردگی اپنے خلاف کسی بھی الزام کی خود تردید کرتی ہے۔ عوام کو سہولتیں ملیں گی تو وہ بھی اُسی انداز میں سیاستدانوں کا احترام کریں گے۔ اب تو دنیا میں اصول ہی پیار کے بدلے پیار کا ہے۔ سو سیاستدانوں نے جو سلوک لوگوں سے کیا ہے اُسی انداز میں الیکشن میں لوگوں کے رویوں کے اور جواب کے منتظر رہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500807 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More