گلگت بلتستان کی داخلی خود مختاری کی حقیقت

گلگت بلتستان کا عدالتی نظام پاکستان اور آزاد کشمیر کے عدالتی نظام سے یکسر مختلف ہے، گلگت بلتستان کے عوام کو اپیل کا حق مہیا کرنے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے28 مئی1999ء کے فیصلے کی روشنی میں گلگت بلتستان کورٹ آف اپیل معرض وجود میں لائی گئی تھی لیکن اس کورٹ نے اپنے کام کا باقاعدہ آغاز ستمبر2005ءمیں کیا ۔کورٹ آف اپیل اسٹیبلشمنٹ آرڈر 1999ءکے تحت یہ کورٹ ایک چیئرمین اور 2 ممبروں پر مشتمل تھی جن کا کام چیف کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل سننا تھا ، ان کی تقرری تین سال کے لئے کی جاتی تھی۔ دسمبر2007ءمیں کورٹ آف اپیل کا نام تبدیل کر کے سپریم اپیلٹ کورٹ رکھا گیا، چیئرمین کا نام چیف جج اور ممبران کا نام جج رکھ دیا گیا، ان کی تنخواہ اور مراعات آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر کر دی گئیں جبکہ تین سالہ کنٹریکٹ کے نظام کو برقرار رکھا گیا ۔ستمبر 2009ءمیں گلگت بلتستان میںسیاسی اصلاحات کےجاری کیے گئے ”گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009“ کے تحت سپریم اپیلٹ کورٹ کو مذید با اختیار بنانے کے لئے اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرز پر اختیارات دیے گئے ۔

سپریم اپیلیٹ کورٹ کا دائرہ کار میں وہ تمام علاقے شامل ہیں جو یکم نومبر 1947کو گلگت بلتستان میں شامل تھے ،سپریم اپیلٹ کورٹ کے چیف جج اور ججوں کی مراعات سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کے برابر کر دی گئیں ، البتہ ان کی مدت ملازمت پرانے کنٹریکٹ سسٹم کو بحال رکھتے ہوئے تین سال ہی رکھی گئی جبکہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ کے جج صاحبان 65سال کی عمر پوری ہونے تک فرایض انجام دیتے ہیں ، گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ کے ججوں کوتین سال تک کنٹریکٹ پر خدمات سرانجام دینے کے بعد وہی پنشن اور دیگرمراعات ملتی ہیںجو سپریم کورٹ آف پاکستان اور سپریم کورٹ آف آزاد جموں کشمیر کے ججوں کو 65 سال کی عمر تک فرائض سرانجام دینے کے ملتی ہیں،یعنی ہر تین سال کے بعد نئے بھرتی ہونے والے ججوں کو تقریباً6 لاکھ روپے ماہوار پنشن اور پٹرول ،گیس، بجلی اور تاحیات فراہم کئے جانے والے دو ملازمین کی مد میں تقربنا دو لاکھ ماہانہ دیے جاتے ہیں اس طرح انھیں دی جانے والی مراعات کا حجم تقریباً 8 لاکھ روپے ماہوار بن جاتا ہے ،ان اخراجات کے باعث ایک طرف گلگت بلتستان کے خزانے پر بھاری بوجھ پڑھ رہا ہے اور دوسری طرف عوام کو انصاف کے حصول میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ کے دو جج ہیں اور دونوں جج صاحبان جسٹس سید جعفر شاہ اور جسٹس محمد یعقوب اپنی تین سالہ مدت پوری کرنے کے بعد26 مئی 2012ءکو سبکدوش ہو چکے ہیں،سات ماہ گزرنے کے باوجود ان کی جگہ نئے ججوں کی تقرری عمل میں نہیں لائی گئی ہے جس کے باعث گلگت بلتستان کی عدالت عظمیٰ عضو معطل بن کر رہ گئی ہے اور عوام کو انصاف کی فراہمی کا عمل مکمل طور پر معطل ہو چکا ہے کیونکہ قانون کے مطابق چیف جج رانا محمد ارشد خان اکیلے کیسوں کی سماعت نہیں کر سکتے ہیں،اس وقت شاہد یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جس میں انصاف کی فراہمی کا اعلیٰ ترین ادارہ عملاً موجود نہیں ہے۔

گلگت بلتستان کی حکومت اور گورنر گلگت بلتستان کی طرف سے سپریم اپیلیٹ کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کو مختلف اوقات میں سمریز بھجوائی گئی ہیں مگر وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے یہ سمریز منظوری کے لئے وزیر اعظم پاکستان کو بجھوانے کی بجائے اپنے پاس ہی دبا کر رکھی ہوئی ہیں حالانکہ گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 اور گلگت بلتستان رولز آف بزنس2009ءکے مطابق وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی یہ آئینی اور قانونی زمہ داری ہے کہ وہ ان سمریز کو بغیر کسی تاخیر کے وزیر اعظم پاکستان تک پہنچائے،اس کا کام حکومت گلگت بلتستان اور حکومت پاکستان کے درمیان محض ڈاکخانے کے فرایض انجام دینا ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی کردار نہیں ہے اس کے باوجود وہ گلگت بلتستان کے عوام کو انصاف کے حصول کے ”بنیادی حق“ سے محروم رکھنے کی مرتکب ہو رہی ہے جس کا سدھا سادہ محفوم یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو داخلی خود مختاری دیے جانے کے دعووں میں کوئی صداقت نہیں ہے ،آج بھی تمام اختیارات وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے پاس ہیں ،وزارت امور کشمیر کے اس رویے کے باعث مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ کیسی خود مختاری ہے جس میں گلگت بلتستان کے عوام کی منتخب حکومت اپنے انتظامی،آئینی اور قانونی امورانجام دینے کےلئے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی محتاج ہے ۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے 16 ستمبر2011ءکو گلگت بلتستان کی عدالت عظمیٰ سے متعلق امور کے حوالے سے ایک متفقہ قرارداد پاس کی تھی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ گلگت بلتستان میں قائم کنٹریکٹ عدالتی نظام کو ختم کر کے گلگت بلتستان میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی طرز پر مستقل ججوں کی تعیناتی عمل میں لائی جائے جو کہ 65 سال کی عمر مکمل ہونے تک اپنے فرائض انجام دیں ۔وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے قانون ساز اسمبلی کی اس قرار داد کو بھی قابل غور نہ سمجھا اوروہ تین سالہ کنٹریکٹ کے نظام کو قائم رکھنے پر بضد ہے جس کی وجہ سے وہاں کی حکومت مالی مشکلاتاور عوام انصاف کے حصول کے لئے مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کی اعلیٰ ترین عدالت سات ماہ سے بغیر ججوں کے عضو معطل بنی ہوئی ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جب ستمبر2008ءمیں اس وقت کے چیف جج اور دو ججز اپنی تین سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہو گئے تھے توچار ماہ کے بعد چیف جج کا تقرر عمل میں لایا گیا تھا اور 27 مئی 2009ءکو تقربناً 9 ماہ کے بعد ججوں کی تقرری کی گئی تھی ۔ گلگت بلستان اسمبلی ، وکلا کی بار ایسوسی ایشنز اور ماہرین قانون کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان میں کنٹریکٹ پر چلنے والے عدالتی نظام کو ختم کرتے ہوئے اگرمستقل عدالتی نظام رائج کر دیا جائے تو اس سے نہ صرف حکومت کی مالی مشکلات کم کی جا سکتی ہیں بلکہ عوام کو فوری انصاف کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا سکتی ہے ۔گلگت بلتستان سے کنٹریکٹ نظام کے خاتمے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دو علیحدہ آئینی درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے موجودہ عدالتی نظام کو ختم کر کے وہاں پاکستان اور آزاد کشمیر کی طرز پر عدالتی نظام کے قیام کے لئے احکامات جاری کیے جائیں۔
Sardar Sheeraz Khan
About the Author: Sardar Sheeraz Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.