توجہ فرمائیں ۔۔۔۔۔آپ پاکستان میں ہیں

شروع اﷲ کے نام سے جوبڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

عوام بے بس، بے یارومددگار نہ حال کا پتہ نہ مستقبل کی فکر کا علم، کیا ہوگیا،کیا ہو رہا اور کیا ہونے جا رہا ہے کچھ نہیں معلوم۔کھوپڑی کے اندر موجود دماغ نے اپنا کام کر نا چھوڑ دیا ہے۔ہوش و حواس کا پتہ نہیں۔عوام ، حکومت کی غلط پالیسوں کی وجہ سے ایک ایسی بند گلی میں جا پہنچے ہیں جہاں سے زندہ واپسی ممکن نہیں۔سب کے سب سیاسی ارکان بے فکر ہو کر اس عوامی ڈپریشن کا کھیل دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کیا کچھ ایسا کیا جائے کہ مچھلیاں خود بخود ہی کانٹے میں لگ جائیں۔کوئی عوام کو سونامی تو کوئی کرپشن،کوئی سوئس بنکوں سے رقم واپسی تو کوئی خادم اعلیٰ بن کر بیوقوف بنا رہے ہیں۔ہر کوئی میدان چھوڑنا بھی نہیں چاہتا لیکن حکومت کے خلاف بھر پور مخالفت کرتے ہوئے کے ساتھ ساتھ چل بھی رہے ہیں۔عوام کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی دن کے وقت مار کے بھی چلا جائے تو ایک نظر دیکھ کر اپنی راہ چل دیے والا حال ہوگیا ہے۔ہزاروں گھروں کے چولہے صرف اور صرف غلط حکمت عملی اور غلط پالیسوں کی وجہ سے بجھ گئے ہیں۔مزدور طبقہ جو رزق حلال کمانے کو ترجیح دیتا تھا اب چوری ،قتل و غارت اور لوٹ مار کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔میں نے خود ایک ٹی وی پر ایک فیکٹری مزدور کی منہ سے یہ بات سنی کہ اب کام تو رہا نہیں اب چوری کروں گا، کیونکہ بچوں کا پیٹ تو پالنا ہے۔انصاف صرف نام کا انصاف رہ گیا ہے۔اب تو جب بھی عدالتوں کا نام آتا ہے بندہ کو اعتبار ہی نہیں رہ کہ ان سے کوئی اچھے کی امید رکھی جائے۔عوام کا پیسہ اتنی آسانی سے ضائع کرنے باوجود بھی یہ حکمران سزاﺅں کے باوجود بھی آزادی سے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔لیکن قانون خود ہی ان کی حفاظت کرنے کا حکم بھی دیتا ہے جبکہ اس ملک میں عام شہری اپنی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔جہاں سرعام لڑکیوں کی عزتوں سے کھیلا جا رہا ہو۔جہاںسرعام قتل وغارت، ڈاکہ، کرپشن، دھوکہ دہی سب عام ہو اورقانون کا یہ حال ہوکہ درجنوں ثبوت ہونے کے باوجود بھی گناہگار بڑے مزے سے آزاد ہے ۔ہمارے سیاسی پروگرام بھی اب پیسے کمانے کا ذریعہ رہ گئے ہیں۔روز روز ہر ٹی وی پر سیاسی لوگوں کی دکانیں لگی ہوتی ہیں جو عوام کو گاہکوں کی طرح اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ان سیاسی پروگراموں سے نہ ملک ٹھیک ہونا اور نہ ہی عوام کو کوئی سہولت ملنے والی ہے۔ملک میں ان ٹائم پاس سیاسی ارکان کی وجہ سے عوام کسی کو بھی منہ دیکھنے کے نہیں رہے۔ہر گھر میںان سیاسی ارکان کے بچوں کی طرح بچے رہتے ہیں۔جو کہ بجلی کی بندش کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں،گندا پانی پینے اور بعض جگہوں پر تو پانی نہ ہونے پر گزر کررہے ہیں۔کیا ان بچوں کے خواب نہیں؟ملک میں جان بوجھ کراتنے مسائل پیدا کردیے گئے ہیں کہ بیچاری غریب عوام ان مسائل کو حل کرتے کرتے قبر میں چلے جائیں۔نہ یہ مسائل عوامی پیدا کردہ ہیں اور نہ ہی یہ مسائل عوام سے حل ہونے ہیں۔قائداعظم نے یہ سوچ کر پاکستان بنایا تھا کہ آج دنیا بھر میں اس کی یہ عزت رہ گئی ہے کہ کسی بھی ملک کے ایئرپورٹ پر جب بتایا جاتا ہے کہ میں پاکستانی ہوں تو سب کے سب سکیورٹی الرٹ ہوجاتی ہے اور ایسے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ خدایا میں نے کوئی جرم کردیا۔یہ ان غریب عوام کا قصورنہیں بلکہ ہمارے ان سیاسی ارکان کے کارنامے ہیں جو چند پیسوں کی خاطر اپنے ملک سے بھی غداری کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔موجودہ حکومت کا ہر وزیر اپنی وزارت میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ہر وزیر دوسرے وزیر سے آگے نکلنے کی کوشش کر تا رہتا ہے۔جہاں ہوائی جہاز گرنے شروع ہو جائیںاور کسی کو بھی پرواہ نہ ہو۔پی آئی اے کا یہ حال ہو کہ لوگ سفر کو آخری سفر سمجھ کر کر رہے ہوں کیا پتہ کب کیا ہو جائے۔ریلوے کا تو اﷲ ہی حافظ اب تو ٹرینوں کے ٹائموں کا بھی پتہ نہیں۔اب وقت آئے گا کہ ہسٹری میں لکھا جائے گا کہ پاکستان میں بھی کبھی ٹرین چلتی تھی۔حتٰی کہ کوئی بھی منسٹر اپنے کام میں ذاتی دلچسپی نہیں لے رہا۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی محکمہ کرپشن سے پاک نہیں۔جہاں میٹرک پاس لوگوں کو اعلی عہدے دیے جائیں۔جہاں لوگ حج جیسے اسلامی فریضہ سے بھی کرپشن کرنے سے بعض نہیں آئے۔اب تو لکھاریوں کو بھی ڈپریشن ہو نے لگ گئی ہے کہ روز روز کالم لکھ لکھ کر پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ملک میں کوئی ایک مسئلہ ہو تو عوام بھی سکھ کا سانس لے ۔یہاں تو سکھ کا سانس بھی لینا ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ملک میں بے روزگاری کی بڑھتی رفتار اور معاشی نظام کی تباہی ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ماسٹرز، بیچلرز کی ڈگریاں اور بے تحاشہ سرٹیفیکٹ ہاتھوں میں لیے دربدر پھر رہے ہیں۔اکثر تو اپنے اور گھروں کے خرچے پورے کرنے کے لئے چور بن گئے ہیں۔بہت سارے توذہینی مریض بن گئے ہیں۔اور اکثر نے تو مزدوری تک شروع کر دی۔ملک میں لیپ ٹاپ کی تقسیم ضروری تھی یا بجلی کی پیداوار پر توجہ دینے کی، نئے پراجیکٹس لگانے کی،معاشی نظام کی بحالی کی یا نئی یونی ورسٹیوںبنانے کی ضرورت تھی؟ملک کے سب کے سب اثاثے جن میں پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا وغیرہ وغیرہ بربادہ ہوگئے ہیں۔اور ان کی بربادی کی اہم وجہ اعلیٰ عہدوں پر نااہل لوگوں کی بھرتی ہے۔نوجوانوں میں ڈپریشن دن بدن بڑھ رہی ہے۔ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر کوئی الیکشن کو ترجیح دے رہا ہے میں پوچھتا ہوں کہ کس منہ سے غریبوں کے پاس یہ سیاسی لوگ ووٹ مانگنے جائیں گے۔لاکھ آزما لیں ان کو یہ پھر بھی جیت جائیں گے اور ہماری قسمت صرف ان ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔جس ملک کے حکمران صرف میٹرک، ایف اے اور بی اے پڑھے ہوئے ہوں اور ان کو ووٹ دینے والے لوگ ماسٹرز، پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر ہوں تو کیا آپ سب امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ جیت کر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے کی طاقت رکھتے ہیں۔پاکستان کو موجودہ صورت حال تک جہاں پہنچے میں ان سیاسی لوگوں کا ہاتھ ہے وہی پر سب سے زیادہ قصور عوام کا بھی ہے۔سوچئے کیونکہ صرف سوچ ہی باقی رہ گئی ہے جس کو ہم استعمال کرکے کوئی بہتر انسان آنے والے الیکشن میںبنا سکتے ہیں۔کیونکہ غریب کی طاقت صرف ووٹ ہے باقی سب سہولیتں ختم ہو گئی ہیں۔کیونکہ توجہ فرمائیں آپ پاکستان میں موجود ہیں۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90555 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.