ضرورت سے زیادہ کھانے والے، لمبا
عرصہ جی نہیں پاتے
باون فیصد پاکستانی کا کہنا تھا کہ وہ گوشت کھانے کو ترجیح دیں گے جبکہ
سینتیس فیصد نے سبزیاں اور صرف دس فیصد نے کہا کہ وہ دال کھانا پسند کریں
گے
جوں جوں عید قرباں قریب آرہی ہے۔ پورے ملک میں منڈیا ں مویشیاں لگ رہی ہیں۔
اور قربانی کے جانور دور دارز سے شہروں میں لائے جارہے ہیں۔ جب عید پر
لاکھوں جانوروں کی قربانی ہوگی تو پھر گوشت کھانے کا اہتمام بھی کیا جائے
گا، گوشت کی نئی نئی ڈشیں تیار ہوں گی۔نئی نئی تراکیب استمال ہوں گی، فریج
میں گوشت رکھنے کی گنجائش بڑھائی جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ کھانے کے لیے جیتے ہیں اور کچھ جینے کے لیے کھاتے
ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کےلئے جینے والے، یعنی جسمانی ضرورت سے
زیادہ کھانے والے، لمبا عرصہ جی نہیں پاتے ،تاہم جو جینے کے لیے کھاتے ہیں،
وہ طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔
کھانے پینے کی عادات کے بارے میں ملک میں ایک سروے کیا گیا۔ اس سروے کے
مطابق پاکستان کے زیادہ تر لوگ کھانے میں گوشت کھانا چاہتے ہیں اور سب سے
کم تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں دالیں کھانے کا شوق ہے۔ جائزوں کے دوران
پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں کے اڑھائی ہزار سے زائد لوگوں سے ان کی
رائے معلوم کی گئی۔گوشت خوری سے متعلق سروے کے دوران لوگوں کے سامنے یہ
سوال رکھا گیا کہ اگر مالی مشکلات ختم ہوجائیں اور اشیائے صرف کی قیمتیں
مستحکم ہوجائیں تو وہ کس غذا کو ترجیح دیں گے، گوشت، سبزی یا دالیں۔رپورٹ
کے مطابق باون فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ گوشت کھانے کو ترجیح دیں گے
جبکہ سینتیس فیصد نے سبزیاں اور صرف دس فیصد نے کہا کہ وہ دال کھانا پسند
کریں گے۔رپورٹ میں پچھلے تئیس سالوں میں ملک کے اندر گوشت خوری کے رجحان کا
بھی جائزہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق ملک میں مرغی کا گوشت سب سے زیادہ
کھایا جاتا ہے۔جائزے میں بتایا گیا ہے کہ انیس سو تراسی سے دو ہزار آٹھ تک
گوشت کی مختلف اقسام میں مرغی کے گوشت کا استعمال سب سے زیادہ بڑھا ہے جبکہ
بکرے کے گوشت کے استعمال میں سب سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔سروے کے مطابق اس
عرصے کے دوران مرغی کے گوشت کا استعمال چودہ سے بڑھ کر پینتالیس فیصد اور
بڑے گوشت کا استعمال چونتیس سے بڑھ کر سینتیس فیصد تک پہنچ گیا ہے جبکہ
بکرے کے گوشت کا استعمال اکاون فیصد سے کم ہوکر پندرہ فیصد رہ گیا ہے۔
پاکستان کا شمار اب ان ملکوں میں ہونے لگا ہے۔ جہاں گوشت خوری میں اضافہ
ہورہا ہے۔ مہنگائی کا رونا تو ضرور رویا جاتا ہے۔ لیکن گوشت کھانے کے شوقین
کم ہوتے ننظر نہیں آتے۔ گوشت خوری ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اس کے دلائل بھی خوب
ہیں۔ مثلا دنیا میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں گھاس کا تنکا بھی پیدا نہیں
ہوتا ، یہاں کے لوگوں کی زندگی کا دارومدار مچھلی اور ان جانوروں کے گوشت
پر ہوتا ہے جو وہاں پائے جاتے ہیں۔ کیا گوشت کھانے پر پابندی لگانا ان کو
بھوکامارنا نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں وہ زندگی سے محروم ہوجائیں گے؟۔ پھر
یہ کہ پالتو جانور جب تک دودھ اور بچے دینے کے قابل ہوںاپنے مالکوں کے لےے
فائدہ مندہوں گے لیکن جب اس قابل نہ رہیں توان کے اخراجات کا بوجھ کون
اٹھائے گا؟جب جانوربوجھ بننے لگیںگے تو ان کو پالنے کی ذمہ داری کون لے گا
؟
سب سے بڑھ کر یہ کہ گوشت میں پروٹین ہی پروٹین ہوتی ہے ، گوشت کے پروٹین
انسانی جسم کا جزو بننے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے ڈاکٹروں کی
رائے ہے کہ متوازن غذا میں گوشت کا ہونا ضروری ہے۔
اسلام ،یہوددیت ،اور عیسائی مذہب گوشت خوری کی اجازت دیتے ہیں بدھ مت کے
بانی گوتم بدھ کے زمانے میں گوشت خوری عام تھی اور انہوں نے کبھی اس کی
مخالفت نہیں کی۔ وہ خود بھی گوشت کھاتے تھے۔ بدھ مت کے ماننے والوں میں
جانور ذبح نہ کرنے کا رجحان ڈھائی سو سال قبل مسیح کے ایک بدھ حکمراں اشوک
کے زمانے سے پیدا ہوا ہے۔ اس عہد میں دیوتاوں کے نام پر اور ان کے آستانوں
پر جانوروں کی قربانی کرنے اور ان کا گوشت کھانے کا عام رواج تھا ، اشوک نے
اس پر پابندی لگادی اور اس قانون کو سختی سے نافذ کیا۔رام چندر جی کو
ہندومت میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے جب چودہ سو سال کا طویل عرصہ
اپنی بیوی سیتا اور بھائی لچھمن کے ساتھ بن باس میں گزارا تو اس دوران
جنگلی پھلوں کے علاوہ ہرن اور دوسرے جانوروں کا شکار کیا اوران کا گوشت
کھایا ۔ گوشت کھانے کے لئے ڈاکٹر منع نہٰ کرتے لیکن احتیاط کا ضرور کہتے
ہیں۔ سائنسدانوں بھی اس بارے میں رائے دیتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک نئی
تحقیق میں کہا ہے کہ زیادہ گوشت کھانا اور محفوظ کرنے کے عمل سے گزارے گئے
گوشت کا کھانا مضرِ صحت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گوشت کی
پیداوار میںگزشتہ مالی سال کے دوران 5.76فیصد اضافہ ہواہے۔ گذشتہ سال گوشت
کا پیداواری ہدف 3ملین ٹن تھا جبکہ پیداوار 3.2 ملین ٹن ہوئی۔ وزارت نیشنل
فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ نے رواں مالی سال 2012-13 کیلیے گوشت کا پیداواری
ہدف 3.3ملین ٹن مقرر کیا ہے۔تاکہ گوشت کی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے
ساتھ ساتھ گوشت اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کیا جا
سکے۔حکام کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 1.76ملین ٹن بڑے گوشت اور
0.629ملین ٹن بکرے کے گوشت کی پیداوار حاصل ہوئی اور اس طرح مالی سال
2011-12 کے دوران بڑے گوشت کی پیداوار میں 4.7 فیصد جبکہ بکرے کے گوشت کی
پیداوار میں 3.4فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ افغانستان میں اتحادی فوج کی مو
جود گی کے سبب بھی ملک میں گوشت کی کھپت زیادہ ہوئی ہے۔ افغانستان چوری
چھپے اور قانونی طریقہ پر گوشت پاکستان ہی سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس بارے
میں پشاور کی ایک عدالت میں ایک مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ جس نے عبوری حکم کے
ذریعہ افغانستان کو گوشت سپلائی معطل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ پشاور کی
تاجر برداری نے پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے افغانستان کو پرمٹ کے ذریعے سے
گوشت اور پولٹری کی برآمد تاحکم ثانی معطل کرنے کے حکم کی تعریف کی ہے اور
کہا ہے کہ اس سے صوبہ میں مہنگائی میں کمی واقع ہوگی اور غریب عوام کو
فائدہ ہوگا۔سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئیر نائب صدر ضیاء الحق
سرحدی کہتے ہیں کہ ’ کئی سال سے افغانستان کو پرمٹ کے ذریعے سے گوشت اور
مال مویشی سمگل کیے جا رہے تھے‘۔ اس ا سمگلنگ کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے
مختلف شہروں میں گوشت اور مرغی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ضیاء
الحق سرحدی کا کہنا ہے کہ گوشت کی برآمد کے پرمٹ سیاسی بنیادوں پر یا بھاری
رقوم کے عوض جاری کیے جاتے ہیں اور یہ زیادہ تر وفاقی محکموں کی طرف سے ہی
جاری ہوتے ہیں۔ پشاور میں عدالت نے گوشت اور مرغیوں کی قلت اور ان کی
قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
انٹرنل میڈیسن میں شائع کی گئی ایک تحقیق میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا
کے ڈاکٹر بیری ہاپکنز نے کہا ہے کہ ’گوشت کھانے میں کمی کرنا ضروری ہے‘۔
محققین کے مطابق ’ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ برگر اورگوشت کھانا بند کر دیا
جائے بلکہ صرف اس میں کمی لائے جائے‘۔اس تحقیق میں پتہ چلا کہ وہ افراد جو
زیادہ گوشت کھاتے ہیں ان کی جلدی موت کے امکانات زیادہ ہیں اور خاص طور پر
ان کو امراض قلب یا سرطان ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔تحقیق کے مطابق
زیادہ گوشت کھانے والے افراد ایک سو ساٹھ گرام جبکہ کم گوشت کھانے والے
افراد اوسطاً صرف پچیس گرام گوشت کھاتے ہیں۔تحقیق کے مطابق اگر گوشت کھانے
میں کمی کی جائے توگیارہ فیصد مرد اور سولہ فیصد عورتیں جلد موت سے بچ سکتی
ہیں ۔امریکا میں کی جانے والی تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر آپ کو اپنی
عمر سے دس سال زیادہ جینے کی خواہش ہے تو گوشت چھوڑ کر پھلوں اور سبزیوں پر
انحصار کریں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مناسب مقدار میں متوازن خوراک آپ کو طویل عرصے
تک جینے میں مدد دیتی ہے۔یونیورسٹی آف میری لینڈ میں کی جانے والی تحقیق کے
مطابق مرنے والوں میں سب سے کم شرح پھل سبزیاں اور مچھلی کھانے والوں کی
ہے۔ ایک جانب تو ملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ دوسری
جانب اشیاءخورد نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں
اشیائے خور و نوش کی قیمتیں ہمیشہ کم و بیش ایک ہی سطح پر رہتی ہیں، لیکن
ہمارے یہاں آئے روز اشیاء خور دونوش کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں
آتا ہے۔ موجودہ وقت میں، کہ جب دنیا ایک گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کرچکی
ہے، ڈبلیو ٹی او پر دستخط کرنے کے بعد ہر ملک دوسرے ممالک کے ذرائع پر اتنا
اختیار رکھنے کے قابل ہوگیا ہے جتنا کہ وہاں کے مقامی لوگوں کو اختیار حاصل
ہے۔ دیگر دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو چیز جہاں پیدا ہورہی ہے،
اب وہ باآسانی اس جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں اس کی صحیح قیمت مل سکے۔ اس کا
مطلب ہے کہ اگر کسی پاکستانی کی اشیاءزیادہ قیمتیں ملنے کی وجہ سے دیگر
ممالک میں پہنچ جاتی ہیں تو پاکستانی میں ان کی شدید قلت پیدا ہونے کا خدشہ
ہے۔ اس مشکل سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہر ملک اپنے عوام کی قوت
خرید میں اضافہ کرے۔ یعنی دنیا بھر میں کم از کم اجرت اتنی ہونی چاہئے کہ
ہر شخص کم از کم اپنی خوراک خریدنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
انسان کے لئے خوراک ہمیشہ بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان میں حکومت نے
بنیادی ضروریات کی اشیاءکے کنٹرول سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک
میں خوراک کو حصول روز بروز مشکل ہورہا ہے۔ دودھ جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت
میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اسی طرح گوشت کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچ رہی
ہیں۔ بکرے کا گوشت تو اب صرف ایک خاص طبقہ تک محدود ہوگیا ہے۔ اس لئے حکومت
کو اس سلسلے میں ایسی پالیسی بنانی چاہیئے جس سے ایک امیر اور غریب کی
خوراک کی ضورت یکسان طور پر پوری ہوسکیں، عوام کو بھی اپنی بے جا خواہشات
پر قابو پانا چاہیئے، اور گوشت خوری سے نکل کر سبزی اور دیگر اشیاءخورد و
نوش کا اپنانا چاہیئے۔ |