Fiscal Cliff یا مالیاتی بحران

ہر بیجان بے معنی سلسلے کو نام دینا کوئی امریکہ سے سیکھے اب اس فسکل کلف کو دیکھئے کلف وہ چٹانی عمودی پہاڑی چوٹی ہوتی ہےجس پر چڑھنا اترنا بغیر کسی سہارے کے انتہائی مشکل ہوتا ہے-

ٹیکس بڑھانے کی شرح اور حد کو لیکر جو معاملات طے ہونے تھے اسکو فسکل کلف کا نام دیا گیاہے-

اسکو اسقدر اہمیت دی گئی اور اس معاملے کو اتنا اچھالا گیا جیسے کہ سن دو ہزار کی آمد سے پہلے وائی ٹو کے کو اچھالا گیا تھا کہ اگر نئے سال کے آغاز تک یہ پاس نہ ہوسکا تو نہ جانے امریکہ کس انجام سے دوچار ہوگا- میڈیا اور خبر رساں ادرے ہر بات کو مشتہر کر کے اور آسمان پر پہنچا دیتے ہیں - سال نو کی رات کو ہر گھڑی یہ اعلان ہوتا رہا کہ اب اس چوٹی کو سر کرنے میں بس تھوڑا ہی وقت کافی ہے اور اگر یہ بحران دور نہ ہوسکا تو نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں- نیا سال حسب معمول دھوم دھڑکے سے بھی آیا اور آج اسکا دوسرا دن بھی اختتام پذیر ہے کہ خبر آئی کہ کانگریس کے دونوں پارٹیوں میں اس بل پر مفاہمت ہوگئی ہے اور متوسط طبقے پر ٹیکس عائد نہیں کئے جائینگے- جبکہ بالائی طبقہ زیادہ ٹیکس کی لپیٹ میں آجائیگا-

امریکہ کے شمال مشرقی , وسطی ریاستوں میں اور پڑوسی ملک کینیڈا میں سخت سردی کا موسم ہے-

جب چاروں طرف ڈھیروں برف پڑ چکی ہو اور حد نظر تک سفیدی ہی سفیدی چھائی ہودرجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی گر چکا ہو اس منجمد کردینے والی سردی میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک زبردست گرما گرمی اور چہل پہل چل رہی تھی - اوبامہ ہوائی میں کرسمس مناکر سال نو کی چھٹیوں کو مختصر کرکے واشنگٹن دوڑے آئے - کانگریس اور سینیٹ کے اراکین بھی سال نو کو بھول بھال کر واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے ہیں - حالانکہ سال نو کی یہ چٹھیاں یہاں کے معاشرے میں بے انتہا اہم ہیں یہ وقت عام طور پر لطف اندوزی کا ہوتاہے سیر و تفریح کا ہوتا ہے کچھ ہمارے ہاں کے رمضان اور عید والا حال ہوتا ہے- لیکن اسوقت امریکی قوم کو ایک چوٹی پر لٹکا دیا گیا تھا اس چوٹی سے لڑھکے یا گرے تو چاروں شانے چت، دونوں صورتوں میں تباہی اور بربادی ہے- البتہ آرام سے رسی وغیرہ لگا کر اتار دیا گیا تو بچ گئے-  ایک بار پھر ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کا معرکہ تھا-

اوبامہ اور اسکی ٹیم بیحد خوش ہے کہ اسنے اپنے انتخابی وعدے کو پورا کردیا ہے اور سرخرو ہو گئے ہیں اوبامہ انتظامیہ کا یہ وعدہ کہ متوسط طبقے پر ٹیکس نہیں بڑھایا جائے گا پورا ہو گیا ہے - حالانکہ سارا شور اسکا تھا کہ 31 دسمبر 2012 کے خاتمے سے پہلے فیصلہ ہونا چاہئے- متوسط طبقے پر ٹیکس کم کیاجائے اور مالدار طبقے پر زیادہ ٹیکس لاگو کیا جائے اوبامہ نے اسکی حد ڈھائی لاکھ سالانہ رکھی ہے جبکہ ریپبلکن اسکی حد پانچ لاکھ سالانہ رکھنا چاہتے ہیں کانگریس کی اکثرئیتی پارٹی کے لیڈر ہیری ریڈ ( ڈی) اور ریپبلکن پارٹی کے لیڈر میں زور شور سے مذاکرات چل رہے ہیں دونوں اس پر متفق ہوگئے ہیں کہ ٹیکس بڑھانے کی حد ساڑھے چار لاکھ سالانہ ڈالر رکھی جائے- ملیئن ڈالر سالانہ کمانے والے 11-1/2٪ ٹیکس ادا کرینگے جب کہ باقی کا ٹیکس ساڑھے چار سے پانچ فیصد بڑھ جائگا- وارن بفے امریکہ کے امیر ترین شخص جسکی سالانہ آمدن 66 ملین ڈالر ہے اور اسکا ٹیکس اپنی سکرٹری سے کم تھا اب دو ملین ڈالر زیادہ ٹیکس ادا کریگا صدر اوبامہ اس کامیابی کا جشن منانے اپنے بیوی بچوں کے پاس ہوائی چلے گئے ہیں جاتے ہوئے اوبامہ نے کہا کہ یہ ایک انتخابی وعدہ تھا جو وہ پورا کر رہا ہے،کل انکو اس بل پر قانون بنانے کےلئے دستخط کرنے ہیںاب وہ راتوں رات واپس آتے ہیں یا بل انکے پاس جاتا ہے -یہ کل بتایا جائے گا- کیونکہ اس پر دستخط کل ہونے چاہئیں اور یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے-

چونکہ یہ مضمون اردو میں ہے اسلئے چونکہ اہل پاکستان اور بھارت کی زندگی میں ٹیکسوں کی ادائیگی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اور خلیجی و عرب ممالک میں کام کرنے والے ٹیکس سے مستثنی ہیں -لیکن یہاں کسی کا باپ بھی ٹیکس کی ادائیگی میں کوئی ہیر پھیر نہیں کر سکتا اور ایک سے ایک نامی گرامی لوگوں کو زبردست سزائیں دی جاتی ہیں اسمیں حالیہ مثال مارتھا اسٹیورٹ اور کینیڈئین ٹائی کون رابرٹ بلیک کی ہے جنکو ٹیکسوں میں ہیرا پہیری کرنے پر جیل کاٹنی پڑی- جبکہ پاکستان میں ٹیکس چوری ایک عام بات ہے اربوں ، کھربوں میں کھیلنے والے برائے نام ٹیکس ادا کرتے ہیں پچھلے دنوں نامی گرامی پاکستانی سیاستدانوں کی ٹیکس ادائیگی کی خبر آئی تھی جو چند ہزار سے زیادہ ہرگز نہیں تھی- یہی وجہ کہ ملک غریب سے غریب اور ایک طبقہ امیر سے امیر ہوتا جارہا ہے- ایک مرتبہ کراچی کے ایک مشہور ڈاکٹر کے متعلق معلوم ہوا کہ تکیوں اور گدوں میں نوٹ برے ہوئے ہیں اب زمین میں گاڑنے والی بات تو نہیں ہو سکتی بہت سے ساہوکار اور تاجر کالے دھن کو سفید کرنیکی کوششوں میں ہوتے ہیں- اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے ہیں-

امریکہ میں اس کا سدباب یوں کیا جاتا ہے کہ فلاحی ادارے ٹرسٹ وغیرہ کھول دئے جاتے ہیں ،بڑے بڑے امدادی عطیے دئے جاتے ہیں تمام بڑے بڑے ہسپتالوں ، مخیر اداروں کو خطیر عطیات دئے جاتے ہیں تیسری دنیا کے ممالک میں چلنے والے این جی اوز بھی اسی امداد سے چلتے ہیں- دیگر بھی کئی طریقے ہیں لیکن حکومت ایک مقررہ ٹیکس برابر لیتی رہتی ہے جو بعد میں پنشن یا سوشل سیکورٹی کی صورت مٰیں دیا جائیگا-

سال نو کی آتش بازیاں اور دیگر ہنگامہ میں پوری قوم کی ساری توجہ اس چوٹی کو سر کرنے پر لگی ہوئی تھی - اگر یہ چوٹی سر نہ کی جاتی تو بقول ڈیموکریٹ کے امریکہ ایک شدید مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے گا قرضوں کی ادائیگی مشکل ہوجائیگی اور ملک شدید کساد بازاری کا شکار ہوجاتا- اوبامہ اور جو بائڈن کے چہرے خوشی سے کھلے پڑ رہے تھے اوبامہ کے لئے یہ بڑی کامیابی ہےکہ کانگریس نے اس بل کو منظور کر لیا ہےاب متوسط درجے پر ٹیکس نہیں بڑھایا جائیگا اس بل کی حمایت میں 257 ووٹ اور مخالفت میں 167ووٹ آئے ہیں اوبامہ نے کہا کہ اقتصادیات کو مستحکم کرنیکے لئے یہ محض ایک قدم ہے، امیر لوگوں کے ٹیکس میں اضافہ ہوگا اور حکومتی امداد میڈی کئیر اور سوشل سیکورٹی میں کمی نہیں کی جائیگی-آج جیسے ہی خبر آئی سٹاک مارکیٹ کا بھاؤ انتہائی تیزی سے چڑھ گیا امریکہ کے علاوہ تمام دنیا کے سٹاک مارکیٹ پر اسکے مثبت اثرات مرتب ہوئے اور کافی تیزی دیکھی گئی- اس سے طالبعلموں کو ٹیکس پر کٹوتی ، توانائی کی صاف فراہمی اور دیگر بہت کافی سہولیات حاصل ہونگی اب یہ وقت بتائے گا کہ آیا یہ فیصلہ امریکہ کے مالیاتی مفاد میں ہوا ہے یا محض ایک بڑا ڈرامہ ہے؟
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 235903 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More