الطاف حسین کا قائداعظم پر تاریخی اور سیاسی ڈرون حملہ

برطانیہ میں ہونے والا سب سے ہائی پروفائل سیاسی قتل برصغیر کے آخری برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن کا تھا ۔ انہیں 1979میں آئرش ری پبلکن آرمی نے ان کی کشتی میں نصب بم کا دھماکہ کر کے ہلاک کیا۔ لارڈ ماونٹ بیٹن، قائداعظم کا بدترین دشمن تھا۔ حملے سے صرف پانچ روز قبل لارڈ ماونٹ بیٹن نے بی بی سی کو اپنی زندگی کا آخری انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ”لیڈی ماونٹ بیٹن وفات پا کر یسوع مسیح کے پاس پہنچ چکی ہیں، میں بھی بوڑھا ہو چکا ہوں اور میرا آخری وقت اب دور نہیں۔ جی چاہتا ہے کہ اب سچ بولوں۔ میں نے دنیا کے اکثر و بیشتر حاکموں اور سیاستدانوں کو دیکھا مگر میں نے مسٹر جناح جیسا کھرا اور راست رو کسی کو نہیں پایا۔ مسٹر جناح بہت ہی ذہین شخص تھے۔ ہم نے اگر کبھی چاہا کہ کوئی لفظی کھیل کھیل کر، یہ یا وہ نکتہ لپیٹ کر پیش کردیں تو ان کی نظر فوراً اسی نکتے پر پڑتی تھی جسے ہم چھپانا چاہتے تھے۔ مجھے اپنی انگریزی زبان پر ناز تھا۔ مسٹر جناح کی مادری زبان انگریزی نہ تھی لیکن اس کے باوجود اعتراف کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے انگریزی زبان میں شکست دی۔ لارڈ ماونٹ بیٹن نے بتایا کہ اگرمسٹر جناح کسی بات پر نہیں کہتے یا ہاں کہتے تو اسکو بدلوایا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ ان کے نہیں اور ہاں مدلل دلایل کے ساتھ ہوتے تھے۔ تقسیم ہند ایک بہت بڑا مسئلہ تھا، ہم تقسیم نہیں چاہتے تھے مگر حالات نے وہاں لا کھڑا کر دیا۔ ایک شخص واحد کی جنبش سر پر فیصلے کا انحصار تھا۔ وہ برعظیم کو متحد رکھنے کے حق میں سر کو جنبش دے دیتا تو برعظیم متحد رہتا لیکن اس نے تقسیم کے حق میں سر کو جنبش دی، لہٰذا تقسیم کے سوا چارہ نہیں تھا۔ “

جب ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کا سورج غروب ہونے کو تھا ۔ ہندوستانی مسئلے کا منطقی حل قریب نظر آرہا تھا ۔ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔ مسلم لیگ اور کانگریس کا موقف جاننے کے بعد وائسرائے نے اپنی طرف سے ایک منصوبے کا بلیو پرنٹ تیار کر لیا ۔ ہندوستان میں Dominion Statusکی حامل دو ریاستوں کا قیام اس منصوبے کا سب سے اہم ترین مقصد تھا۔3 جون 1947ء کو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اصولی طور پر اس منصوبے کو منظورکر لیا۔ اسی روز شام کو آل انڈیا ریڈیو پر لارڈ ماونٹ بیٹن نے پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد مملکت کا برطانوی شہنشاہ جارج ششم گورنمنٹ کی طرف سے اعلان کیا۔ اس سے پہلے ہندوں کے رہنما گاندی جی نےقائد اعظم محمدعلی جناح کو آزاد ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بنانے کی پیشکش بھی کی تھی۔ قائد اعظم نے صاف الفاظ میں اس پیشکش کو ٹھکرادیا تھا۔ 14 اگست 1947 تک پاکستان برطانوی ہند یا برٹش انڈیا کا حصہ تھالہذا عوام پر برطانوی قانون لاگو ہوتا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اپنے 10 جنوری کے سیاسی ڈرون حملہ میں قائد اعظم محمدعلی جناع پرتاریخی اورسیاسی حملہ کیا۔ الطاف حسین نے کہاکہ " قائد اعظم محمد علی جناح سلطنت برطانیہ کے وفادار تھے، قائد اعظم محمد علی جناح نے 15اگست 1947ء کو جو حلف اٹھایا تھا اس کے الفاظ بیان کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ حلف قائد اعظم سے لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرعبدالرشیدنے انگریزی زبان میں لیا تھا"۔ حلف کے الفاظ کا اردو ترجمہ یہ ہے: ’’میں محمد علی جناح ، قانون کے مطابق قائم ہونے والے پاکستان کے دستورسے سچی عقیدت اوروفاداری کا عہد مصمم کرتا ہوں اور میں عہد کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے شہنشاہ معظم جارج ششم اور ان کے ولی عہدوں اورجانشینوں کا وفادار رہوں گا۔‘‘ یہ تاریخ کا ایسا سچ ہے جس سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے ۔الطاف حسین نے دعویٰ کرتے ہو ئے کہا کہ وہ ثابت کردیں گے کہ قائد اعظم کے پاس برطانوی پاسپورٹ تھا۔پاکستان کے99فیصدعوام کوتاریخ سے آگاہ ہی نہیں اور آج بہت سارے لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش کب بنا۔

یہ بات نہ قابل سمجھ ہے کہ الطاف حسین کو قائد اعظم محمد علی جناع سے کیا تکلیف ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہ الطاف حسین نے قائد اعظم کے متعلق بیان دیا ہو۔اب سےکچھ عرصے پہلے بھی وہ قائد اعظم کو سیکولر بناچکے ہیں ۔ اس سے قبل ہندوستانی دورئے میں الطاف حسین پاکستان کی نفی کرچکے ہیں، چند سال قبل دہلی میں الطاف حسین نے کھلے عام لفظوں میں ہندوستان کی بیورو کریسی سے التجا کی تھی کہ کراچی میں ’’مہاجروں‘‘ کیلئے بارڈر کھول دیا جائے تاکہ وہ سب اپنے گھروں میں واپس لوٹ آئیں۔ الطاف حسین کے متنازعہ بیانات سے نہ صرف ایک محبِ وطن پاکستانی کو دکھ ہوتا ہے بلکہ انکی اپنی سیاسی جماعت کو بھی نقصان ہوتاہے اور سب سے بڑھ کر ان لوگوں کو دکھ ہوتا ہےجن کے بزرگوں نے قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہا اورپاکستان ہجرت کی۔الطاف حسین کہتے ہیں کہ 99فیصدعوام کوتاریخ سے آگا ہی نہیں جبکہ وہ خود تاریخ سے نابلد نظر آتے ہیں۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہ قائد اعظم کو برٹش انڈیا کے وقت جو پاسپورٹ جاری ہوا تھا وہ برطانوی پاسپورٹ تھا، لازمی بات ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے قائد اعظم سفر کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک بات رہی 15اگست1947 کو جو حلف قائد اعظم اٹھایا تھا تو وہی حلف ہندوستان کے گورنر جنرل نے اٹھایا تھا کیونکہ یہ دونوں ملک تاج برطانیہ کے حکم پر ہی عمل میں آئے تھے اور اس وقت تاج برطانیہ کا آئین ہی تھا ۔ لیکن الطاف حسین نے برطانوی شہریت کے لیے جو حلف اٹھایا ہے اس میں الطاف حسین نے یہ حلف بھی دیا ہےکہ وہ برطانیہ کے لیےھتیار بھی اٹھاینگے۔ پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں بنا اور اسکے ساتھ ہی تاج برطانیہ کا آئین ختم ہوگیا۔ الطاف حسین کو شاید یہ بات نہیں معلوم کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کی یہ خواہش تھی وہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کا گورنر جنرل بنے، ہندو رہنماوں نے اس بات کو مانا لیکن قائد اعظم نے اس بات کو رد کردیا۔ یہ ہی وجہ ہے لارڈ ماونٹ بیٹن، قائداعظم کا بدترین دشمن تھا۔

آج ایک مخصوص گروہ یہ ثابت کرنے کی بار بار کوشش میں لگاہوا ہے کہ قائداعظم انگریزی سامراج کے وفادار تھے دراصل یہ وہی الزام ہے جو پاکستان کی تحریک کے وقت کانگریس قائداعظم پر لگایا کرتی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی یا جن سنگھ ازل سے مسلمانوں کی سخت ترین دشمن رہی ہے اور اُس کی مسلم دشمنی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔اس کے ایک رکن اور بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نےاپنی کتاب ’جناح، بھارت، تقسیم، آزادی‘ میں لکھا ہے کہ ہندوپاک میں محمد علی جناع سے بڑھ کر سامراج دشمن اور کوئی نہیں دیکھا ۔ جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے سینئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پر ایک کتاب لکھنے کی بنا پر ان کی پارٹی رکنیت ختم کر دی ہے۔ بھارت کے سابق ڈپٹی وزیراعظم اور بی جے پی کے صدرایل کے اڈوانی نے دو ہزار پانچ میں کراچی میں قائداعظم کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہا تھا کہ جناح ان شخصیات میں سے ہیں جو نہ صرف سیکولر تھے بلکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں تاریخ بنائی۔ بھارتی اکھنڈتا کا پرچم اٹھانے والی آر ایس ایس کی جانب سے تو اڈوانی کے جو درگت بنی وہ اپنی جگہ لیکن سیکولر کانگریس بھی اڈوانی کی ذاتی رائےکو برداشت نہ کر سکی اور اسکے ترجمان نے جناح کو سیکولر قرار دینے کے اڈوانی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب اڈوانی کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ انکے نزدیک سیکولر کے معنی کیا ہیں؟ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائداعظم کو ان کے کٹر دشمن بھی انکو سامراج دشمن مانتے ہیں اور وہ قائد اعظم کو ایک سیکولربھی نہیں مانتےورنہ سیکولر کانگریس کا ترجمان اڈوانی سے یہ سوال کبھی بھی نہ کرتا کہ انکے نزدیک سیکولر کے معنی کیا ہیں؟

الطاف حسین نے اپنے 10 جنوری کے سیاسی ڈرون حملہ میں قائد اعظم محمدعلی جناع پرجوتاریخی اورسیاسی حملہ کیااس سے نہ تو الطاف حسین کو اور نہ ہی انکی جماعت کو کوئی فائدہ ہوا بلکہ ان کی تقریر کو پورے پاکستان میں حدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ الطاف حسین کی تقریر خالی انکے جلسے میں بیٹھے ہوے لوگ ہی نہیں سن رہے تھے بلکہ پورے ملک میں سنی جارہی تھی اور پاکستان میں ابھی ممتاز مورخ ڈاکٹر صفدر محمود اور ان جیسے لوگ موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے اس سلسے میں بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا ہے کہ عنقریب وہ اس حوالے سے لکھیں گے، ڈاکٹر صاحب الطاف حسین کی تقریر پر افسوس کا اظہار کررہے تھے۔ الطاف حسین کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی کتاب "جہدوجہد پاکستان" ضرور پڑھیں تاکہ ان کو پاکستان اور قائد اعظم کے بارئے میں حقیقی معلومات مل سکیں۔ وہ ڈاکٹر صفدر محمود کے اگر کالم ہی پڑھ لیا کریں تب بھی وہ بہت کچھ حاصل کرلینگے۔ لگتا ہے 99 فیصد تاریخ سے نابلد لوگوں میں الطاف حسین سرفہرست ہیں ۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485681 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More