اکتوبر 2012 میں میں نے ایک
مضمون دہری شہریت کے نام سے لکھا تھا اسکا پہلا پیراگراف کچھ یوں تھا:
"اب سے کوئی پانچ سال پہلے پی آی اے کی پرواز جو جدہ جارہی تھی میں بھی اُس
میں سفر کررہا تھا ۔ پرواز کے ایک گھنٹے بعد ایرہوسٹس نے کھانا دینا شروع
کیا اور جب وہ میرے برابر والے صاب کے کھانے کی میز کھولنے لگی تو اُن صاب
نے ایرہوسٹس کو بتایا کہ وہ کھانا نہیں کھاینگے اور وہ دل کے مریض ہیں اور
اِس وقت اُن کی طبیت بہت خراب ہورہی ہے، ایرہوسٹس نے اپنے سپروائزر کو
اطلاع کری وہ صاب میڈیکل میں اچھی معلومات رکھتے تھے، باتوں سے پتہ چلا کہ
وہ اپنے گاؤں سے تین دن پہلے کراچی آگے تھے اور ڈاکٹر کو دکھایا تھا اور
ڈاکٹر نے اُن کو کچھ ٹیسٹ بتاے تھے مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ جہاز میں
بیٹھ گے- سعودی عرب کے ایک شہر قسیم میں ایک بقالہ میں 1200 ریال یعنی 40
ریال روزانہ پر کام کرتے ہیں یا تھے- ہر ماہ 1200 ریال میں سے 1100 ریال
پاکستان بھیج رہے تھے۔ یہ صاحب صرف پاکستانی تھے اور سعودی عرب میں تھے اور
اُنکو دہری شہریت کا بخار بلکل نہیں تھا۔ یاد رہے سعودی عرب وہ ملک ہے جہاں
سب سے زیادہ پاکستانی تارکین وطن کام کرتے ہیں اور جہاں تک باہر سے رقوم
بھيجنے کا معاملہ ہے تو سعودي عرب ميں مقيم پاکستانی تارکين سرفہرست ہيں۔
گذشتہ سال کل آنے والی رقم 10.2 ارب ڈالر میں سے سعودي عرب سے 2987.9 ملين
ڈالر (27.5فيصد)، امريکا سے 1922.4 ملين ڈالر (17.7 فيصد)، برطانيہ سے صرف
1263.7 ملين ڈالر (11.6فيصد) ہے۔ مشرق وسطي، دیگر عرب اور افریقی ملکوں میں
رہنے والے پاکستانیوں کو بھی دہری شہریت کا بخارسرے سے نہیں ہے۔ سب کو نہیں
ایک مخصوص ٹولے کو جو برطانیہ اور امریکہ میں رہتا ہے اُسکو دہری شہریت کا
بخار آجکل شدت سے چٹرھا ہوا ہے- کیونکہ انکے مفادات پر عدالت عظمٰی نے چوٹ
لگای ہے۔ اب تک دوہری شہریت کے حامل قومی اسمبلی کے چار، سینیٹ کے ایک اور
صوبائی اسمبلیوں کے چار اراکین کی رکنیت معطل کر چکی ہے، ان میں سے اکثریت
کا تعلق حکمران پیپلز پارٹی ہے۔ جن اراکین پارلیمان کی رکنیت معطل کی گئی
ہے ان میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور صدر زرداری کی میڈیا کوارڈینیٹر
فرح ناز اصفہانی بھی شامل ہیں۔ اور یہ زرداری کے عزیز ترین ساتھی ہیں۔"
متحدہ قومی مومنٹ کےقائد الطاف حسین نے 10 جنوری کو سیاسی ڈرون حملہ کرتے
ہو ئے دعویٰ کیا کہ وہ ثابت کردیں گے کہ قائد اعظم کے پاس برطانوی پاسپورٹ
تھا۔ وہ دراصل قائد اعظم کے پاس برطانوی پاسپورٹ کاذکر یوں کررہے تھے تاکہ
اپنی اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی دہری شہریت کا دفاع کرسکیں۔ الطاف
حسین نے دہری شہریت کے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ "آج پاکستان میں دہری شہریت
کے بارے میں ہر جگہ بحث چل رہی ہے ۔دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو نہ
صرف یہ کہ طرح طرح کے طعنے دیئے جاتے ہیں بلکہ ان کی حب الوطنی پر بھی شک
کیا جاتا ہے ۔ میں یہاں تمام پاکستانیوں سے ایک سوال پوچھنا چاہوں گا کہ
کیا کوئی شہری اپنی خوشی اور رضا سے اپنا ملک چھوڑ کر دیار غیر میں بسنا
چاہتا ہے ؟ 70لاکھ پاکستانیوں کی حب الوطنی کوشک کی نگاہ سے دیکھناکسی بھی
طرح جائز نہیں کیونکہ وہ ہرسال کھرربوں روپے کازرمبادلہ پاکستان کوبھیجتے
ہیں جوپاکستان کی کمزورمعیشت میں ایک مضبوط ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
ہماری معزز ومحترم عدلیہ اورمقننہ کو دہری شہریت کے معاملے کے فیصلوں پر
نظر ثانی کرنی چاہئے اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سمیت کسی بھی پاکستانی
شہری کے دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرنے کے عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے
بجائے ان حالات اورمشکلات کو پیش نظر رکھنا چاہئے جن کے باعث انہیں کسی
دوسرے ملک ہجرت کرنی پڑے اور وہاں کی شہریت اختیار کرنی پڑی۔ اسکے علاوہ
میں مجبور ہوں کہ میرے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ نہیں، کئی لوگ دس دس سال
ڈپلومیٹک پاسپورٹ پرملک سے باہر رہے"۔ اس کے علاوہ الطاف حسین نے سوال کیا
کہ "کیامسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے 8 سال ملک سے باہر نہ
گزارے ؟ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے جلاوطنی نہیں گزاری
؟ کیا ان کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں نے جلاوطنی نہیں گزاری ؟ انہوں نے یہ
بھی کہا کہ سعودی عرب کےبادشاہ میرے دوست نہیں لہذا میں نے برطانوی شہریت
لی کیوں کہ پاکستان میں میری جان کو خطرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا
کہ اس کی وفاداری مشکوک ہوگئی یا وہ اپنے وطن اور ہم وطنوں سے بے خبر یا
لاتعلق ہوگیا۔
الطاف حسین کا کہنا کہ سترلاکھ پاکستانیوں کی حب الوطنی کوشک کی نگاہ سے
دیکھناکسی بھی طرح جائز نہیں کیونکہ وہ ہرسال کھرربوں روپے کازرمبادلہ
پاکستان کوبھیجتے ہیں جوپاکستان کی کمزورمعیشت میں ایک مضبوط ریڑھ کی ہڈی
کی حیثیت رکھتی ہے۔الطاف حسین کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ ان ستر لاکھ میں سے
اکثریت محنت کشوں کی ہےجو نہ صرف اپنے پیاروں سے دور رات دن محنت کرتے ہیں،
جبکہ ملکی معیشت کو ان سے بہت سہارا ملتا ہے، یہ تمام محنت کش مجبوری سے گے
ہیں ۔ان محنت کشوں کے نہ تو کوئی سیاسی عزام ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی حکومتی
عہدے کی آرزو۔ یہ ستر لاکھ پاکستان کا سرمایہ ہیں اور سب کے سب محب وطن
ہیں۔ یہاں انکے ماں باپ بیوی بچے موجود ہیں اور وہ ہم سے زیادہ ملک کے لیے
فکر مند رہتے ہیں۔ میری اس بات کو وہ لوگ اچھی طرح سمجھ جاینگے جو خود یا
انکے گھر کا کوئی فرد باہر ہو۔ اصل مسلہ چند سو افراد کا ہے اور یہ دہری
شہريت کے حامل افراد ميں سے اکثر بيرون ملک رہائش رکھتے ہيں يا پھر محض
پاکستان ميں اہم حکومتي عہدوں کا حصول کرنے کیلے آتے ہیں مگر بنيادی طور پر
اپنے تعلقات امريکا، کنيڈا، برطانيہ جيسی رياستوں يا يورپی ممالک سے منقطع
نہيں کرنا چاہتے۔ الطاف حسین کی برطانیہ میں رہنے کی وجہ جو بھی ہو مگر ان
کا یہ دعوی نہ قابل قبول ہےکہ قائد اعظم اور وہ دونوں دہری شہریت کے حامل
ہیں۔قائد اعظم کے جس پاسپورٹ کا الطاف حسین ذکر کررہے ہیں وہ 1946 میں برٹش
انڈیا کی حکومت کا جاری کردہ ہےاور اس وقت پاکستان کا وجود نہیں تھا اور جب
پاکستان بن گیا تو قائد اعظم کبھی ملک سے باہر نہیں گےاور جلدہی انکا
انتقال ہوگیا۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف جوضیا الحق کی دین ہیں، جب وہ مشرف
کی گرفت میں آئے تو انہیں اپنا انجام ذوالفقار علی بھٹو کی طرح نظر آنے لگا
لہذا انہوں نے سعودی حکومت کے کہنے پر دس سالہ معاہدہ پر ملک سے جانا منظور
کرلیا ۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی مرضی سے جلاوطنی گذاری اور آصف علی زرداری نے
جلاوطنی اپنے کرپشن کی وجہ سے گذاری- الطاف حسین توگذشتہ 22 سال سے
پاکستانی عوام سے رابطے میں ہیں لیکن آج پاکستان میں کسی کو نہیں معلوم کہ
دہری شہریت رکھنے والے معین قریشی اور شوکت عزیز کہاں ہیں، دونوں پاکستان
میں وزیر اعظم کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔ معین قریشی اور شوکت عزیز اپنے اپنے
مقاصد پورے کرکے جاچکے۔اسلیے اب پاکستان کے عوام اور پاکستان کی عدلیہ آئین
کے اوپر عمل چاہتے ہیں تاکہ صرف اور صرف پاکستان کا ہی شہری پارلیمینٹ کا
ممبر بنے اور وہی سرکاری عہدے دار۔ حال ہی میں جب ایم کیو ایم کے کچھ
اراکین اسمبلی نے استعفی دیے ہیں تو پتہ چلا کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت
میں دہری شہریت کے حامل افراد موجود ہیں۔ روزنامہ جنگ بتاریخ 6 جولائی 2012
میں احمد نورانی نے دُہری شہريت والوں کا اصل مسئلہ کيا ہے؟ کے عنوان سے
لکھا ہے کہ "دہری شہريت کے بيشتر حامی جو کچھ پاکستان ميں اور کچھ غير
ممالک ميں مقيم ہيں ہر قيمت پر امریکی موقف کی حمايت اور اسلام آباد کے
اقدامات کی مخالفت کررہے ہيں خواہ يہ کيری لوگر بل کا معاملہ ہو، دہشت
گردوں کے خلاف جنگ کا معاملہ ہو ، وزيرستان آپريشن اور نيٹو سپلائی کی
بحالی کا معاملہ، ريمنڈ ڈيوس کا معاملہ ہو يا کچھ اوروہ اپني تحريروں اور
دلائل ميں واشنگٹن کے موقف کی کھلی حمايت کرتے ہيں"۔ حسین حقانی اس کی ایک
مثال ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو کڑڑوں روپے خرچ
کرکے وہ سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے جس کی انکو توقع تھی۔ کیا وجہ ہے کہ اس
کرپٹ حکومت کے مقابلے میں پاکستانی عوام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے
دلفریب نعروں کے باوجود الیکشن کا انقاد چاہتےہیں۔ سیدھی سیدھی بات یہ ہے
کہ 65 سال بعد پاکستانی عوام کو جمہوریت کا تسلسل نظر آرہا ہے اور اس تسلسل
کو وہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہر دہری شہریت رکھنے والے پاکستانی سے پاکستان
میں کوئی مسلہ نہیں ۔ اصل مسلہ وہ چندسولوگ ہیں جو دہری شہریت کی آڑ میں
غیر ملکی مفادات کی تکمیل اور لوٹ مار کا کاروبار جاری رکھنا چاہتے ہیں اور
ان کو ہی اس بات کی سب سے زیادہ تکلیف ہے۔ الطاف حسین کو چاہیے اس قانون کی
بھر پور حمایت کریں کیونکہ یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ جب الطاف حسین
پاکستان میں تھے تب بھی وہ کسی اسمبلی یا سرکاری عہدے کے امیدوار نہیں تھے۔ |