ریکوڈک معاہدے کی منسوخی کا تاریخی فیصلہ

مجیب الرحمان ایڈوکیٹ

سپریم کورٹ نے ملکی تاریخ کا ایک اور اہم فیصلہ سنایا ہے جس کی رو سے بلوچستان میں سونے اورتانبے کی تلاش کا ریکوڈک معاہدہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ اطالوی کمپنی ٹی تھیان کے ساتھ ہونے والا یہ معاہدہ ملک کے معدنیاتی قواعد اور ملکیت کی منتقلی کے قوانین کے خلاف ہے۔ معدنیات کی غیرقانونی تلاش کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ریکوڈک میں 2.2ارب ٹن سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں۔ 33لاکھ 47ہزار ایکڑ رقبے پر محیط یہ دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ ہے۔ 1993ءمیں اس کا ٹھیکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نے آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کو دیا۔ معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لئے تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لئے بغیر مزید کام کے لئے اطالوی کمپنی ٹی تھیان سے اپنے طور پر معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے۔ معاہدے کے تحت آمدنی کا 75فیصد کمپنی اور صرف 25فیصد بلوچستان کی حکومت کو ملنا تھا۔ صوبائی حکومت نے بی ایچ پی کی اس بے قاعدگی پر اس سے معاہدہ منسوخ کردیا لیکن مشرف دور کے گورنر نے بعض ترامیم کے ساتھ اس کی منظوری دے دی۔ اس کے خلاف حکومت بلوچستان کا موقف تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ صوبائی حکومت اس منصوبے پر خود کام کرنا چاہتی ہے جس سے ساری آمدنی بلوچستان کو ملے گی جو پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جس ملک اور معاشرے میں عدالتوں کا احترام نہیں انصاف نہیں اور لاقانونیت کا دورورہ ہے وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔ پاکستان میں تاخیر سے ہی سہی مگر عدلیہ اس وقت آزادہے۔ ایک وقت تھا جب عدلیہ کو قانون کی بجائے زیادہ تر مصلحتوں پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے انتظامیہ کا ”ربڑسٹیمپ“ ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی فیصلہ انتظامیہ کی منشا کے خلاف آجاتا تو ضروری نہیں تھا کہ حکومت اسے مان لے۔ اس سے ملک میں ناانصافیوں اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کی ظالمانہ روایتوں نے جنم لیا اور نظام عدل کے بارے میں عوام میں مایوسی اور بداعتمادی پھیل گئی۔ مگر وقت کے ساتھ اس رحجان کے خلاف مزاحمتی عمل بھی شروع ہوا اور ایک وقت آیا کہ خود جج اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور وکلا سمیت معاشرے کے ہرطبقے نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ایک زبردست تحریک چلی جس کے نتیجے میں عدلیہ کی آزادی بحال ہوئی اور اب یہ حقیقی معنوں میں عدل و انصاف کا ادارہ بن چکا ہے۔ حکومت اور بالادست طبقوں پرواضح ہوگیاہے کہ عدالتوں کے فیصلے خواہ کتنے ہی کڑوے کیوں نہ ہوں ماننے ہی پڑیں گے۔ بہت پہلے، امریکہ اس تبدیلی سے گزرچکا ہے۔ وہاں بھی عدالتیں مجبور محض بن کررہ گئی تھیں مگر چیف جسٹس مارشل نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینے شروع کئے جو اس وقت کی حکومت نے تو نہیں مانے مگر اگلی حکومت نے ان پر عملدرآمدکرکے انصاف کی راہ ہموار کردی۔ پاکستان میں بھی چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی فعالیت نے آزادانہ اور منصفانہ فیصلوں کی بنیاد رکھی جسے اندرون ملک ہی نہیں، جنوبی ا یشیا کے کئی ملکوں میں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے۔ عوام بجاطورپر توقع کرسکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ہرسطح پر عدلیہ کا ادارہ مزید مضبوط ہوگا اور عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا جو پوری دنیا میں پاکستان کی شناخت بنے گا۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 14 Articles with 9300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.