میں گذشتہ کئی سالوں سے ایک
سیاسی تحریک سے وابستہ کارکن ہو جب بھی ہماری پارٹی کا کوئی پروگرام ہوتا
خواہ کہاں پربھی ہوتا میں اپنے دوستوں ساتھیوں کو لیکر جاتا تاکہ پارٹی کے
لوگوں میں اپنی حیثیت بھی بنا سکوں اور کوئی ہماری پارٹی کے حوالے سے یہ نہ
کہیں کہ اس میں کارکنوں کی کمی ہے اس لئے بعض اوقات اپنے جیب سے اخراجات
کرتا جو کبھی کبھار مجھے مل جاتے لیکن زیادہ تر مجھے نہیں ملے اسی طرح
پارٹی کے پروگراموں میں زندہ باد کے نعرے میں نے ہی زیادہ لگائے اپنے پارٹی
کیلئے میں نے جیل بھی کھائی اور ڈنڈے بھی کھائے- جس کی بنیادی وجہ بھی یہی
تھی کہ میں اپنی پارٹی سے مخلص تھا لیکن آج ہماری پارٹی میں لوٹوں کی بھر
مار ہے ایسے لوگ ہماری پارٹی میں گھس آئے ہیں جو پہلے نہ صرف ہمیں بلکہ
ہمار ے رہنما کو بھی گالیاں دیتے تھے لیکن اب اسی زبان سے جس سے ہمارے خلاف
باتیں کرتے تھے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں ان میں کچھ ایسے لی ڈر بھی شامل
ہیں جن کے پاس تو کچھ نہیں لیکن پیسہ وہ بھی حرام کا بہت ہے اسی وجہ سے
پارٹی میں آہستہ آہستہ یہ لوگ اپنی جگہ بنا رہے ہیں اور قبضہ مافیا کی طرح
ہر جگہ پر گھس آئے ہیں اسی پیسے کے بل بوتے پر ان کے مخصوص کارکن اب ہماری
جگہ لئے بیٹھے ہیں اپنی پارٹی کیلئے ڈنڈے جیل میں نے کاٹی لیکن اب میری
اوقات نہیں اور ان لوگوں کی اوقات ہیں جو پارٹی میں پیسہ خرچ کرتے ہوں یا
پھر چاپلوسی کرنا جانتے ہوں مجھ جیسے پارٹی کارکنوں کی کوئی وقعت نہیں اب
میرا اپنی پارٹی سمیت ہر سیاسی پارٹی سے دل بھر گیا ہے حالانکہ میں گذشتہ
15 سالوں سے اپنی پارٹی کیساتھ وابستہ رہا ہوں لیکن نہ تو ہماری کوئی سنتا
ہے نہ ہمیں کوئی لفٹ کراتا ہے پارٹی کے رہنمائوں کواب مجھ جیسے کارکنوں کی
ضرورت نہیں شائد- یہ کچھ جملے اور دل کی بھڑاس تھی جو گذشتہ دنوں ایک سیاسی
پارٹی سے تعلق رکھنے ایک کارکن نے لکھ کر دئیے تھے اس کا مقصد تھا کہ اس
طرح کرنے سے شائد ہمارے معاشرے میں پائے جانیوالے "کمی کمینوں" میں عقل
آجائے اور زندہ باد اور مردہ باد کے چکر سے نکل جائے-
کارکن کسی بھی ادارے /سیاسی تحریک میں پارٹی کا اہم سرمایہ ہوتے ہیں کتنی
ہی بڑی تحریک /ادارہ کیوں نہ ہو اگر ان کے کارکنوں میں خلوص اور کام کرنے
کا لگن نہ ہو تو ہر چیز کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے ہمارے اداروں کا تو اللہ ہی
حافظ ہے یہاں پر سیاسی پارٹیوں سے وابستہ کارکنوں کی بات کرتے ہیں ہمارے
پشتو میں ایک مثل مشہور ہے چہ دا" میخے یار سنڈا وی " یعنی دوستیاں اور
رشتہ داریاں ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہوتی ہیں خیر ہمارے
ہاں جس طرح کے سیاست دان اور لی ڈر ہے اسی طرح ان کے کارکن بھی ہے بلکہ
سیاست کے میدان میں اس ملک میں کارکن اپنے لی ڈروں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل
رہے ہیں خواہ یہ معاملہ لوٹ مار کا ہویا شوڑا ماری کا بہت سارے کارکن راقم
نے ایسے خود دیکھے ہیں جن کے اپنے پارٹی لی ڈروں کیساتھ رابطے ہیں اور انہی
رابطوں کو استعمال کرتے ہوئے شوڑا ماری کررہے ہیں یعنی بھرتیوں سے لیکر
لوگوں کے بنیادی اور جائز کام تک پیسے لیتے ہیں جن میں ان کارکنوں کا اپنا
ایک پرسنٹیج ہوتا ہے اسی چکر میں بہت سارے "تش پانڑے"ورکروں نے اپنے لئے
لینڈ کروزور اور بنگلے بھی خرید لئے ہیں-کچھ عرصہ قبل خدا کی زمین پر اپنی
بدمعاشی دکھانے والے پختون خوار کی پارٹی میں ایک سابق سالار سے راقم کی
ملاقات ہوئی تھی چارسدہ سے تعلق رکھنے والے سالار کی عمر 50سال سے اوپر تھی
اور اس نے ساری عمر اپنی پارٹی کی خدمت کی تھی بقول اس کے پارٹی کے چکر
میںاس نے شادی بھی نہیں کی اب جبکہ ہر کوئی اپنے خاندان کیساتھ زندگی
گزارہا ہے وہ سالار کچہری روڈ پشاور پر بوجھ اٹھاتے ہوئے زندگی گزار رہا ہے
اس نے پختون خوار وں کی حکومت آتے ہی اپنے لئے کوئی روزگار مانگنے کی کوشش
کی جو اسے نہیں ملی بعد ازاں اس نے زکواة کی مد میں رقم کیلئے درخواستیں دی
لیکن ایک خان سے دوسرے خان کا سفر کرنے کے باوجود اسے زکواة کی رقم بھی
نہیں ملی اسی باعث اب وہ اپنے آپ کو گالیاں دے رہا تھا اور آخر کار اس نے
جی ٹی روڈ پر اپنے سالار ی کی وردی بھی جلاڈالی بقول اس سالار کے جب اس عمر
میں میرا کوئی پوچھنے والا نہیں تو پھر اس نے اس پارٹی کو کرنا ہی کیا ہے-
ہمارے ہاں مختلف سیاسی پارٹی سے وابستہ کارکنوں کی سیاسی تربیت بالکل نہیں
ہوئی جس کا اندازہ مختلف پارٹیوں کے جلسوں پروگراموں میں ان کے کارکنوں کی
ہلڑ بازی طوفان بدتمیزی اور بدمعاشیوں سے کی جاسکتا ہے کچھ عرصہ قبل طوفان
لانے اور اپنے آپ کو پھنے خان سمجھنے والی پارٹی کے کارکن حقیقت میں طوفان
تو نہیں البتہ طوفان بدتمیزی برپا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اپنے لی
ڈرکیساتھ تصاویر لینے کے چکر میں کارکن کیا نہیں کرتے اس کا اندازہ
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو خوب ہے زیادہ تر نوجوان
طبقے پر مشتمل طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے اس پارٹی کے کارکنوں میں بات
کرنے کا سلیقہ تک نہیں -ََخدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی بنانے والے پختون
خوار کے ٹھیکیداروں کی پارٹی کے کارکنوں کا بھی یہی حال ہے ڈھول کی تاپ پر
ٹھمکے لگانے والے کارکن ہر ایک کو اسلحہ کی زور پر ٹھیک کرنا اپنا فرض
العین سمجھتے ہیں عام لوگ کیساتھ رویہ تو الگ صحافت سے وابستہ لوگوں سے بات
کرنے کا سلیقہ ان کے کارکنوں میںنہیں ہاں اگر ان کا اپنا مقصد ہو تو پھر
بقول کسی کے گدھے کو بھی باپ بنانے سے گریز نہیں کرتے -اپنے آپ کو شہداء کی
پارٹی قرار دینے والی خاندانی پارٹی کا بھی یہی حال ہے لی ڈر اگر سیر ہے تو
کارکن چوری اور اورسینہ زوری میں سواسیر ہے گذشتہ پانچ سالوں میں اس ملک کے
کمی کمینوں کا خون چوسنے والے پارٹی کے کارکن کتنی دیدہ دلیری سے لوگوں میں
پھر سے انتخابات کی چکر میں گھوم رہے ہیں ہر چیز کو پیسے کے بل بوتے پر
لینے کے خواہشمند اس پارٹی کے کارکنوں میں وفاداری نام کی کوئی چیز نہیں
ہفتہ پہلے کسی اور کے حق میں نعرے لگانے والے دو ہفتے بعد اسی کو گالیاں
دیتے ہوئے اور نئے آنیوالے کیلئے خیر مقدمی بینرز لگانے میں پیش پیش ہیں
جسے روڈ کنارے دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نہ تو ان میں شرم اور حیا
نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی انہیں برداشت کرنے والے کمی کمینوں میں غیرت
نام کی کوئی چیز ہے -ان کے مقابلے میں کسی زمانے میں مذہبی جماعتیں اس
حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے کارکن کسی حد تک منظم ہیں اور ڈسپلن کی
خلاف ورزی نہیں کرتے لیکن ان میں بھی سیاسی پارٹیوں کے دیکھا دیکھی بدتمیزی
والے جراثیم آنا شروع ہوگئے ہیں-ان حالات میں پارٹی لی ڈروں سے گزارش ہے کہ
پہلے اپنے کارکنوں کی تربیت کا اہتمام کرے ساتھ ہی ان کے حقوق / فرائض بھی
انہیں سمجھا دیں تو شائد شکایتوں کا سلسلہ تھم جائے اور کارکن اپنی پارٹیوں
سے بھی لوٹے نہ بنیں- |