الحمد للہ پاکستان 65 برس کا ہونے جا رہاہے
- ترقی یافتہ دنیا میں اسکی حیثئیت عمر کے لحاظ سے ایک سینئیر کی ہو جائیگی
یعنی معمرہو جائیگا 14 اگست 1947 کو رمضان المبارک کی 27 شب کو پاکستان
معرض وجود میں آیا-امسال 14 اگست پھر 27 رمضان کو پڑ رہا ہے آللہ تبارک و
تعالی اس تاریخ اور مہینے کو ہمارے لئےمتبرک بنائے--
تقسیم ہند کے دوران خاک و خون کے دریا پاٹے گئے - عالمی تاریخ میں ایک اور
انوکھی مثال قائم ہوئ، لاکھوں لوگ ہجرت کرکے ایک سر زمین سے دوسری سرزمین
پر آگئے- بے بسی ، تباہی و بربادی ، ایثار و قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم
ہوئی -اس مملکت کے ناخدا کو جلد ہی مایوس ہوکر بالآخر یہ بھی کہنا پڑا"
میری دونوں جیبوں میں کھوٹے سکے ہیں"- ایک سال کے اندر وہ کمزور و ناتواں ،لیکن
گھن گرج والی آواز اور اصولوں کا پکا مخلص ناخدا اس کشتی کو بیچ منجدھار
چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوا- اسکے بعد بڑے زیر و بم آئے- اکتوبر 1951 کو
قائد کے دست راست ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپینڈی میں
قتل کردیا گیا-اسی لیاقت باغ نے دوسری بھینٹ بے نظیر بھٹو کی صورت میں لی--
کڑی آزمائیشوں اور ناگفتہ بہ حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوۓ یہ وطن اور ملت
اپنی بقا کی کوششوں میں مصروف رہا ہے اور اسوقت زیادہ شدت سے ہے -بقول
اقبال'
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فا تح عالم -جہاد زندگانی میں ہے یہ مردوں کی
شمشیریں-
اگر ہم پاکستانی تاریخ کا ایک سرسری اجمالی جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے
آتی ہے کہ اس مملکت خداداد کو ابتداء سےہی بیرونی و اندرونی سازشوں کا
سامنا کرنا پڑا - دائمی حریف بھارت سے پے در پے کئی جنگیں ہوئیں 1971 کی
جنگ کے نتیجے میں اپنے ایک حصے اور تقریبا نصف مملکت مشرقی پاکستان سے ہاتھ
دھونے پڑے- اور یہ کتنا سنگین اور کسقدر اندوہناک المیہ تھا کہ اسکی شدت ،
تباہی و بربادی، ہلاکت آفرینی اور قتل و غارت گری کا ا حاطہ کرنا نا ممکن
ہے- یہاں ہرگز کفر و اسلام کا معرکہ نہیں تھا بلکہ زبانوں (بولیوں) ، تہذیب
اور نظریات ، نا انصافی اور غلط فہمیوں کے معرکے تھے- دشمنوں نے انہیں خوب
خوب ہوا دی - سب سے بڑی اسلامی مملکت دو لخط ہوئی-- پاکستانی فوج کو حد
درجہ حزیمت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا-
کشمیر کے تصفیئے کے لئے پاکستان کو بے انتہا قربانیاں دینی پڑیں جبکہ یہ
مسئلہ ابی تک تصفیہ طلب ہے اور پاکستان کی پوزیشن بھارتی دباؤ کے پیش نظر
کافی کمزور ہو چکی ہے- افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد کے ساتھ پاکستان
افغان مسئلے میں اتنا الجھ گیا کہ الجھتا ہی چلا گیا - وقت اور حالات کے
پلٹنے سے جہاد افغانستان اور مجاہدین دھشت گرد بن گئے اور وہ جو امریکہ کی
آنکھ کا تارا تھے اور جنکی وجہ سے روس کے ٹکڑے ٹکڑ ے ہو گئے وہ امریکہ کی
نظر میں سب سے زیادہ خطرناک اور بڑے مجرم کہلائے - پھر 11 ستمبر 2001 کا
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقع ہوا- اسکا ملبہ جہاں افغانستان ، عراق اور دیگر
مسلم دنیا پر گرا وہاں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا بند،
ساتھی اور ہراول دستہ بن گیا- ان مسائیل میں الجھ کر پاکستانیوں اور
پاکستان کے حالات عراق، افغانستان اور فلسطین جیسے ہو گئے--وہ جو ہم سوچتے
تھے، کس کے گھر جائیگا طوفان بلا میرے بعد -اس طوفان بلا نے ہمارے اپنے
گھروں ، شہروں ،گلیوں ، درسگاہوں ، مساجد، فوجیوں اور پولیس کو لپیٹ میں لے
لیا - خود کش دھماکے ، فوجی رد عمل ، ڈرون حملے اور امریکی در اندازی نے
جہاں ہمیں خانہ جنگی اور ایک نئی تباہی و بربادی میں ڈالدیا -وہاں حفاظتی
تدابیر کی خاطر تمام حساس اداروں ، بلکہ تجارتی مراکز،ہسپتالوں، بنکوں اور
دفاتر تک کو بم اور بارود کی نشاندہی والے آلات ، سکینرز اور ڈیٹیکٹرز
لگانے پڑے-- جگ ہنسائی، طنز و تشنیع کے مواقع بھی اغیار کو مئیسر آئے-
مدینہ منورہ میں ایک بنگالی سے بنگلہ میں گفتگو ہو رہی تھی لیکن جب اسے
معلوم ہوا کہ اصلا میں پاکستانی ہوں تو کہنے لگا" آپ پاکستانی لوگ بھی کیسا
ہے - پہلے ہم سے مارا ماری کیا اب خود سے مارا ماری کرتا ہے"-
لاکھوں جانیں اس تباہی کی بھینٹ چڑھ گیئں - مرنے والے بھی اپنے ، مارنے
والے بھی اپنے-
پھر کراچی شہر جو پاکستان کی شہ رگ کہلاتا ہے اور یقینا ہے 2 ڈھائی کروڑ
آبادی والا شہر ، علم و دانش کا گہوارہ، جو منی پاکستان کہلاتاہے ، پاکستان
کا غریب پرور شہر جہاں پاکستان کے ہر خطے ہر بولی والے لوگ آباد ہیں- اس
شہر کو لسانئیت ، شدت پسندی اور بد امنی کی آماجگاہ بنا دیا گیا- اسکی خون
آشامیاں اور خونریزیاں بے حساب ہیں ، جہاں روزانہ دس ، بارہ بیگناہوں یا
گناہگاروں کا قتل بیشتر کچھ رقم چھیننے کی کوشش، موبائیل فون چھیننے کی
کوشش میں یا گاڑی چھیننے کی کوشش میں ایک عام بات ہے جہاں کے باشندوں کو
اسی بد امنی اور قتل و غارتگری کے ساتھ جینے کی عادت سی ہو گئی ہے- اسکے
علاوہ ایک اور محاورہ ٹارگیٹ کلنگ کا عام ہے - جنمیں مخالفین کو نشانہ
بنایا جاتا ہے--اب کون شہید ہے اور کون غازی یہ فیصلہ عالم بالا میں طے
ہوگا--
بلوچستان اسوقت شدید بد امنی کی لپیٹ میں ہے روزانہ افسوسناک واقعات کی
خبریں آتی ہیں جن سے دل لرزتا رہتا ہے آۓ دن خونریزی کے بڑے بڑے واقعات
ہوتے ہیں- ایک نئی خبر یہ کہ بہت سارے ہندو خاندان بھارت نکل مکانی کر رہے
ہیں کیونکہ انہیں پاکستان میں اپنے اقدارکی بربادی کا خدشہ ہے-
کرپشن اور بد عنوانی کا عفرئیت تو ایسا ہے کہ اوپر سے نیچے تک سب کو لپیٹا
ہوا ہے رشوت ستانی اور بدعنوانی کا ایک بازار گرم ہے اپنا کام کرنے کیلئے
آپ دینے پر مجبور ہیں - پچھلے دنوں اسلام آباد میں سی ڈی اے سے کچھ کام تھا
میرا ایجنٹ کہنے لگا " باجی پندرہ ہزار انڈر دی ٹیبل دینے سے کام فوری
ہوجائیگا" اور یہ انڈر دی ٹیبل والے ماتھے پر سجدے کا ٹیکہ اور اکثر بڑی
بڑی داڑھیاں بھی رکھتے ہیں اور پہر اسی رقم سے حج اور عمرے بہی ادا کرتے
ہیں - نہ معلوم وہ اسکو کوئی جائز نام کیوں نہیں دیتے؟
اس سب کے باوجود پاکستان ایک واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے یہ جہاں
پاکستانیوںکیلئے باعث صد افتخار ہے- وہاں ساری دنیا کیلئے باعث تشویش ہے -
لیکن اس سب کے باوجود میری یہ قوم ایک باہمت، محنتی ، جفا کش، زندہ دل ،
بہادر ، نڈر اور دلیر قوم ہے - ساری دنیا ہاکستان میں ہونے والی دہشت گردی
سے خوف زدہ اور تھر تھرا رہی ہے - اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر کے بارے
میں محتاط رویہ اپنانے کا مشورہ دیتی ہے- لیکن پاکستانی بے پرواہ ہیں موت
کو وہ ایک کھیل اور مقدر سمجھتے ہیں- اس قوم اور ملک پر ناگہانی اور قدرتی
آفات بھی بھر پور انداز سے آئیں 2005 کے تباہ کن زلزلہ اور 2010 کے تباہ کن
سیلاب سے ہمت اور جرآت سے نمٹنے کے بعد زندگی ایک نئی سمت اور جہت کے ساتھ
رواں دواں ہے - تمام ملک میں قرئے قرئے میں وہ بے پناہ چہل پہل اور رونق
ہوتی ہے کہ چند لمحوں کے لئے تمام بد امنی، لاقانونئیت اور دہشت گردی کے
قصے محض افسانہ لگتے ہیں- گرانی اور مہنگائی جھوٹ اور فریب دکھائی دیتا ہے
اگر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی جائے اور دولت و دکھاوے کی ریل پیل
دیکھی جائے --لوگوں کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے علاوہ
معدودے چند کے-
زندہ قوموں کی طرح ہم اپنا یوم آزادی بیحد دھوم سے مناتے ہیں- میڈیا تو اسے
اور شد و مد کے ساتھ مناتی ہے لیکن عوام مین جذبہ حبالوطنی بڑھ چڑھ کر نظر
آتا ہے-ہر طرف لہراتا ہوا پاکستان کا ہلالی پرچم ، لڑکے لڑکیوں کے سبز ،سفید
لباس بلکہ لڑکیوں نے اسی مناسبت سے چوڑیاں پہن رکھی ہیں ، ہر طرف بجتے ہوئے
ملی نغمے ایک زندہ اور پائیندہ قوم کو ظاہر کر رہے ہیں-اور پھر آتش بازیاں
جنکی چکا چوند ایک ہلچل پیدا کرتی ہے-
بیرونی ممالک میں بھی پاکستانی بساط بھر یوم آزادی منانے کی کوشش کرتے ہیں
--ٹورنٹو میں سٹی سنٹر جسکا نام ناتھن فلپس اسکوائیر ہے میں یوم آزادی جوش
و خروش سے منایا جاتا ہے-ایک میلے کا سا سماں ، اسمیں سفیر پاکستان اور
پاکستانی کمیئونٹی حکومت کینیڈا کے اہلکارعام طور سے اونٹاریوکے پریمئیر کو
مدعو کرتی ہے - سہیل رعنا کی ٹیم انکے دائمی ملی نغموں کے ساتھ موجود ہوتی
ہے - وہ نغمے جنکو سنکر ہم اپنی ماضی میں کھو جاتے ہیں-
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے- سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم
آباد تجھے-
دعا کریں کہ اللہ تعالی اس سرزمین کو ظلم و استحصال و استبداد کے پنجے سے
نجات دے اور پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی اسلامی ریاست بنائے---آمین |