مارچ تاریخ کے آئینے میں

وطن عزیز کے عوام کی قسمت بدلنے کے بلند و بانگ دعوے ہر سیاست دان کرتا ہے ، ان کے مسائل کیا ہیں؟ بیروزگاری ، مہنگائی ، بدامنی اور توانائی کی کمی ، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا بھی یہی ہے ۔

پاکستان کے قیام سے پندرہ سال قبل پڑوسی ملک چین میں تبدیلی کا آغاز ہوا جس نے وہاں کے افراد کی حالت اور قسمت کو بدل ڈالا ، اس تبدیلی کی قیادت ”ماوزے تنگ “ نے کی جب انہوں نے عوام کی مدد سے چین کی آمریت کا خاتمہ کیا ۔ بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان اسٹڈی کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ وہی (ماوزے تنگ کا ) اصل لانگ مارچ تھا۔

چین وسیع رقبے پر پھیلا ہوا زرعی ملک تھا جہاں کے لوگوں کو متحرک اور منظم کرنا مقصود تھا ، جس کی وجہ سے ماوزے تنگ کے مارچ کو تین ، چار سال کا عرصہ لگ گیا ، اس عرصہ میں وہ کسی گاؤں یا علاقے میں پڑاؤ ڈال دیتے اور پھر آگے بڑھتے ۔ اس مارچ میں کئی لوگ بیمار ہوئے اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

پاکستان میں لانگ مارچ کی اصطلاح ایسے بڑے جلوسوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کا مقصدایک سے دوسری جگہ جانا ہو۔ سن انیس سو اٹھاون میں مسلم لیگ قیوم کے سربراہ قیوم خان کی قیادت میں ایک طویل جلوس گجرات سے راولپنڈی تک گیا ۔

اس کے بعد ایوب خان کے دور حکومت میں صدارتی انتخابات کے لیے فاطمہ جناح نے ڈھاکہ سے چٹا گانگ اور پشاور سے کراچی تک ٹرین مارچ کیا تھا۔

ماوزے تنگ لانگ مارچ سے متاثر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی لانگ مارچ کے رجحان کو اپنانے کی کوشش کی اور پارٹی کی سابق چیئر پرسن بینظیر بھٹو نے سن انیس سو بانوے میں پیپلز ڈیمو کریٹ الائنس کے زیر انتظام اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا ۔ نواز شریف پیپلز پارٹی کی اٹھارہ ماہ کی حکومت کی برطرفی کے بعد اقتدار میں آئے تھے ۔اس لانگ مارچ میں غلام مصطفی جتوئی ، فاروق لغاری اور دیگر رہنما گرفتار ہوئے اور اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل عبدالوحید کاکٹر کی مداخلت کے بعد آخر نواز شریف کی حکومت کا قبل از وقت خاتمہ ہوا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حید ر بھی اس مارچ میں شریک تھے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ لانگ مارچ جمہوریت کے خلاف نہیں تھا ۔

میاں نواز شریف کی حکومت کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی ، سیاست دانوں پر جھوٹے مقدمات بنائے جارہے تھے ، ملک میں خانہ جنگی کی حالت تھی ، صدر اور ویز اعظم ، رینجرز اور پولیس آمنے سامنے کھڑے تھے ، اس صورتحال کا حل یہی ہوتا ہے کہ عوام سے رجوع کیا جائے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے فوری بعد سپریم کورٹ کے معزول ججوں کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس فیصلے میں تاخیر پر پاکستان بار کونسل نے چودہ جون سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ججوں کی بحالی کے معاملے پر اختلاف کے باعث وفاقی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور مارچ سن دوہزار نو کو ججوں کی بحالی کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا ۔ اس مارچ کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح تب ہی کامیابی نصیب ہوئی جب بظاہر فوجی سربراہ نے مداخلت کی ۔مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پرویز رشید اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف کو بتایا کہ ججوں کی بحالی کا فیصلہ ان کا تھا ، انہوں نے ہی جنرل پرویز کیانی کو آگاہ کیا تھا ، اس میںعوام کا دباؤ موجود تھا کسی ادارے یا شخص کا دباؤ نہیں تھا۔

کچھ عرصہ قبل دفاع پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف اسلام آباد تک مارچ کیا تھا( لہذا اس مارچ کی نوعیت دوسرے سیاسی مارچوں سے ہٹ کر تھی۔)، جبکہ اس سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف وزیر ستان تک مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا وہ وہاں تک پہنچ نہ پائے ۔

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد آئے ہیں جو پاکستان کے نظام میں تبدیلی کے لیے انتخابی اصلاحات کے خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں ان کی نظریں افواج پاکستان پر مرکوز ہیں کہ وہ ان کی کامیابی کو کندھا دے۔

اکثر و بیشتر ایسے مارچ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ، اور ان سے شہرت ملتی ہے لیکن کوئی مثبت تبدیلی لانے میں ایسے مارچ کامیاب نہیں ہوتے۔
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.