کوئٹہ میں جاں بحق ہونے والے 86
افراد کی تدفین بدھ کو چار دن بعد باالاخر ہوگئی۔لیکن بلوچستا ن کی حکومت
اس سے پہلے دفن کی جاچکی ۔نا جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کرپٹ حکومت
کی ”آخری رسومات “ کا وقت بھی قریب ہے۔ اس حکومت کا جنازہ اٹھانے کے لیئے
طاہرالقادری اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ موجود ہیں۔ پونے پانچ سال کی اس
حکومت نے جو کچھ کیا اس کے نتیجے میںڈر ہے کہ ایک بار پھر کہیں ” جمہوریت“
بریک پر نا چلی جائے۔1973سے 1977تک بھی پیپلزپارٹی کو طویل جمہوری اور
منتخب حکومت کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔قیام پاکستان کے بعد اسے” طویل جمہوری
دور “ کی سند ملی تھی ۔۔ ۔۔۔لیکن اس کے بعد کیا ہوا یہ ہم سب دیکھ چکے ہیں
اور دیکھ رہے ہیں۔
میں جمہوریت کا کسی طور پر بھی مخالف نہیں ہوسکتا البتہ مجھے ایسی جمہوریت
سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ ایسی جمہوریت جس میںبم ، دھماکے ہوتے رہے،
فائرنگ ہوتی رہی،تین صوبوںسندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے لوگ لاشیں
اٹھاتے رہے۔ لیڈر خود حکومت میں رہنے کے باوجود فوج کو آواز دیتے رہے ، جو
مخالف تھے انہوں نے اپنے مفادات کے لئے نائب وزیراعظم بننے کو ترجیح دی
لیکن انہیں نہ اپنے بڑے صوبے کی لاج کا خیال رہا اور نہ ہی انسانوں کی
ضروریات کا احساس۔
جو ملک اس دور سے پہلے ترقی کررہاتھا جہاں غیر ملکی سرمایہ آرہا تھا جس کا
سب سے بڑا شہر امن کی طرف گامزن تھا ،ترقیاتی کاموں کا سیلاب ہر جگہ نظر
آتا تھا ،جہاں بجلی کی کمی تھی لیکن بحران نہیں، جہاں گیس کی شیڈنگ کا
امکان نہیں تھا ، سی این جی اسٹیشن لگائے جارہے تھے لیکن بند ہونے کا تصور
نہیں تھا۔ ایسی حکومت سے قوم کا کیا لینا دینا؟۔
ضروری نہیں کہ مارشل لاءکا نفاذ ہو۔ لیکن ضروری ہے کہ موجودہ پوری حکومت
معہ اپنے ہم نوا رخصت ہوجائے ۔ اسلام آباد میں موجود ہزاروں افراد کے
اجتماع کا یہ ہی تو پیغام ہے۔مجھے طاہر القادری اور ان کی گفتگو سے کسی قسم
کی دلچسپی نہیں ہے لیکن لاکھوں افراد کی جدوجہد کو میں کس طرح نظر انداز
کرسکتا ہوں جو سینکڑوں میل کا سفر کرکے اسلام آباد پہنچے ہیں۔
آصف علی زرداری بارہ روز قبل ہی اسلام آباد چھوڑ چکے ہیں اور بلاول ہاﺅس
کراچی میں مقیم ہیں ۔ حالات سے لگتا ہے کہ جناب ِ صدر اور ان کی کمپنی کو
شہداءکوئٹہ کے سوئم سے قبل ہی اپنی دریاں سمیٹنا ہونگی۔
کیونکہ لوگوں کا انقلاب اسے ہی کہا جاتا ہے ۔جو لیڈرز اپنے ووٹرز اور عام
افراد کے سامنے بغیر کسی ڈر و خوف کے نہیں آسکتے وہ بھلا اس انقلاب کا کیسے
سامنا کرسکتے ہیں؟۔حالانکہ اس بڑے مارچ اور اجتماع میں کسی نے کوئی کلاشکوف
، پستول اور چاقو نہیں اٹھایا ہوا تھا۔رات ایک بجکر 45 منٹ تک کسی قسم کا
کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ سخت اور بڑھتی ہوئی سردی کے باوجود
اسلام آباد کی گلیوں میں ایسی تاریخی رونق تھی جسے اس سے قبل پاکستانیوں نے
کبھی نہیں دیکھا۔دلچسپ بات یہ کہ مارچ کے شرکاءکے ہاتھوں میں اگر کچھ نظر
آرہا تھا تو وہ تھا پاکستان کا پرچم۔۔۔۔۔۔جسے ملک کے ایوانوں پر از سر نو
لہرانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ مولانا طاہرالقادری کا گیم کیا ہے اس کا کچھ حصہ
تو سمجھ میں آہی گیا ہے۔ اگر سمجھ نہیں پائے تو میرا کالم بعنوان ” عالم
رویا کی باتیں کرنے والا کیا کرے گا “ سچ ڈاٹ ٹی وی کے صفحات پر پڑھا
جاسکتا ہے - |