کشمیر میں کنٹرول لائن پر خون کے چھینٹے

کشمیر سے جب بھی امن وامان کی خبریں آتی ہیں اوران کے پس منظر میںریاست سے فوج اور آرمڈ فوسز اسپیشل پاورس ایکٹ (AFSPA) کو ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑتا ہے ، کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے ،جس سے یہ مطالبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں جب ریاستی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ گزشتہ سال کے دوران وادی میں 12لاکھ سے زیادہ سیاح آئے اور سواچھ لاکھ افراد نے امرناتھ یاترا کی؛ سرینگر سمیت کئی شہروں سے بنکر ہٹائے گئے اور آبادیوں میں مسلح دستوں کی چلت پھرت کم ہوئی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست میں امن کی عملداری لوٹ آئی ہے۔ ان سرکاری دعووں کے بعد فطری طور سے ایک مرتبہ پھر فوج اورمذکورہ خصوصی قانون کو ہٹالینے کی آواز اٹھی۔ وزیر اعلا عمر عبداللہ بھی بظاہر اس مطالبہ کے حق میں ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ امن کی اس بحالی اوراس کے استحکام پر مرکز کو اطمینان نہیں۔ فوج بھی نہیں چاہتی کہ وہ خصوصی اختیارات سے محروم کردی جائے۔

بری فوج کے سربراہ جنرل بکرم سنگھ نے اس قانون کی جو ضرورت بیان کی اور اس کو برقرار رکھنے کے جو اسباب بیان کئے ہیں وہ ذو معنی ہیں۔ دہشت گردی سے پار پانے کےلئے کچھ خصوصی اختیارات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن شمال مشرقی ریاستوں میں اور وادی میں اس قانون کی اوٹ میں جتنے بڑے پیمانے پرزیادتاں ہوئی ہیں، زیر حراست نوجوانوں کی جتنی ہلاکتیں ہوئیں ؛ عصمت دری، لوٹ کھسوٹ اور آگ زنی کی جو وارداتیں ہوئیں، ان سے چشم پوشی کیسے کی جائے؟در اصل مسئلہ قانون کے ضروری یا غیر ضروری ہونے کا نہیں ،بلکہ اس کی آڑ میں زیادتیوں کا ہے۔ بیشک فوجی کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ جہاں دشمن کو دیکھو ، ختم کردو۔ لیکن ہر مشکوک شخص کو دہشت گردقراردیدینا اوربغیر مقدمہ چلائے ہلاک کرکے یہ دعوا کرنا کہ فلاںولد فلاں ماراگیا ،جو غیر ملکی تھا اور جس کا تعلق فلاں دہشت گر د گروہ سے تھا، ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کشمیر میں محترم فاروق عبداللہ کے دور میں یہی ہوتا رہا اور غیر شناخت شدہ قبروں کی تعداد بڑھتی گئی جن کی جانچ میں اب بھی تعطل برقرارہے۔

ایک فوجی کے نقطہ نظر سے بیشک جنرل بکرم سنگھ نے اس قانون کا دفاع کیا ہے۔ لیکن ان کو ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ اس کی آڑ میں کوئی فوجی جان بوجھ کر انسانوں کا شکار کریگا تو فوج اس کا نوٹس لے گی۔ حیرت اورتعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پرندہ کے شکاری کو تو سزا مل جاتی مگر کشمیری اور وہ بھی مسلمان کشمیری کے قاتل کی شناخت بھی نہیںہوتی۔ بیشک فوج با اختیار رہے ، مگر اس اختیار کا غلط استعمال کیسے گوارا کیا جائے؟ خصوصاً پتھری بل کیس میں ، جو کہ چھتی سنگھ پورا کی ہلاکتوں کے بعد پیش آیا تھا، یہ شک کرنے کی گنجائش ہے کہ فوج میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دیگر مقاصد کے لئے اپنے اسلحہ کے استعمال میں حد سے تجاوز کرنے میں گریز نہیں کرتے۔ یہ طے کرنا تو مشکل ہے کنٹرل لائن پر اشتعال انگیزی کدھر سے اور کیسے شروع ہوئی؟لیکن اس کی وجہ سے خصوصی قانون کا مسئلہ پش پشت ضرور جا پڑا ہے۔

کنٹرول لائن کے واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کئی دن سے فائرنگ کے باوجود چوکسی پوری نہیں برتی جارہی تھی۔ ہلاکت تو دورگولی لگنے سے بھی ہوسکتی ہے مگرگزشتہ منگل کو ہمارے دو فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ یہ وحشت ناک خبر بھی آئی کہ حملہ آور ایک فوجی کا سر بھی کاٹ کر لے گئے۔ ایک حساس خطہ میں، جہاں کئی دن سے فائرنگ جاری تھی چوکسی پوری ہوتی تو سر کاٹنے کا واقعہ ہرگز پیش نہیں آسکتا تھا۔ پاکستان سے شدید احتجاج تو اپنی جگہ مگر اس غفلت کی تفصیل سے جانچ ہونی چاہئے اور خطاکار کو اس کی سزا بھی ملنی چاہئے۔

ہلاکتوں کا دعوا پاکستان نے بھی کیا ہے۔ چنانچہ 14 جنوری کو پونچھ سیکٹر کے چاکن باغ میں برگیڈیر سطح کی جو فلیگ میٹنگ ہوئی تھی اس میں پاکستان نے دعوا کیا ہے کہ گزشتہ ہفتہ ہندستان کی فائرنگ میں اس کے دوفوجی حولدار غلام محی الدین اور نائک محمداسلم فوت ہوگئے اور ایک سپاہی وسیم زخمی ہوا۔تاہم پاکستانی خارجہ سیکریٹری جلیل عباس جیلانی نے جمعہ کوہندستانی ہائی کمشنر شرت سبھروال کو طلب کرکے صرف ایک فوجی کی ہلاکت پر احتجاج درج کرایا ہے اور یہ ہلاکت بھی جمعرات کو ہوئی جب کہ ہندستانی سپاہیوں کو بے رحمی سے اس سے قبل منگل کو قتل کیا گیاتھا۔سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود پاکستان نے اس معاملہ کی یو این او سے جانچ کی کیوںتجویز رکھی؟ جس کو ہند نے بجا طور پراس اصول کے تحت مسترد کردیاکہ باہمی تنازعات میں بیرونی مداخلت کو دعوت نہ دی جائے۔

بہر حال فوج کے سربراہ جرنل بکرم سنگھ نے اس اشتعال انگیزی کے پس منظر میں 14جنوری کی پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک مقامی خلاف ورزی تھی، کنٹرول لائن پر فائر بندی جاری رہے گی۔ ہرچند کہ ہمارے اپوزیشن لیڈر اس پر سیاست کررہے ہیں اور ٹی چینلز تو اسی دن سے جنگ ، جنگ چلا رہے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا نے اس واقعہ کو اہمیت نہیں دی۔وجہ اس کی یہ ہے کہ آج کل اس کے داخلی خلفشار ہی میڈیا میں چھائے ہیں۔ مثلاً کوئٹہ میں مسلکی دہشت گردی میں ایک سو کے قریب عزا داروں کی شہادت پر ہر معقول انسان سوگوار ہے۔ادھر ایک مذہبی پیشوا نے،جو اب تک تصوف کے راستے اصلاح کے داعی تھے، کناڈا سے آکر انا ہزارے اور رام دیو کے طرز کی سیاست شروع کردی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی خبر بھی پاکستان کے ہم اہم نہیںہے اور سب سے اہم آئندہ سال پارلیمانی انتخابات کی گہماگہمی ہے ۔

موجودہ حالات میں یہ باور کرنا مشکل ہے کہ پاکستانی فوج ہندکے ساتھ ایک بے سود جنگ کا جوکھم اٹھانے کی حماقت کرے گی جس کے نتیجہ میں انتہا پسند طالبان کوتقویت مل جائیگی۔ پاکستانی عوام میںبھی ہند دشمنی کو وہ جنون ختم ہوچکا ہے جس میں ”ایک ہزار تک جنگ “ کے نعرے سے چناﺅ جیتا جاسکتا تھا۔ہند سے تعلقات، خصوصاً تجارتی رشتوں کی استواری تو وہاں ایک مفید سیاسی موضوع ہے، تعلقات میں نیا بگاڑ کسی کو راس آنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ یہ خیال بھی عبث ہے کہ جنگ کی خباثت کو سیاست کے میدان سے کچھ مدد مل جائیگی ۔ رہا چند انتہاپسند عناصر کا خبط، تو ہمارا میڈیا چاہے اس کو کتنی بھی اہمیت کیوں نہ دیتا ہو، پاکستان میں اس کی اہمیت کھوٹے سکے سے زیادہ نہیں۔

ادھر ہند بھی عالمی کساد بازار ی کے دور میں اقتصادی استحکام کی طرف متوجہ ہے۔ اس لئے یہ تصور بھی نہیںکیا جاسکتا کہ کنٹرول لائن پر کوئی اشتعال انگیزی جنگ کی صورت اختیار کرلے گی۔ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے مگر بدقسمتی سے آزاد ٹی چینلز کو اس کی پرواہ نہیں اور ان کو ہرحال میں سنسی خیزی چاہئے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب این ڈی اے کے دور حکومت میں، پارلیمنٹ ہاﺅس پر سنگین حملے کے بعد فوج سرحد پر لگادی گئی تھی اور مدتوں لگی رہی ۔ اس وقت بھی ہمارا میڈیا جنگ کے نگاڑے بجاتا رہا مگر آخر کارفوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنا پڑا تھا۔ممبئی پر دہشت گرد حملہ تو کہیں زیادہ سنگین واقعہ تھا، اس کے بعد بھی ملک کے قائدین نے بے مثال صبر تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ چنانچہ امید کی جانی چاہئے کہ کنٹرول لائن کی حالیہ کشیدگی کا اثر تعلقات پر کی استواری کے عمل پر نہیں پڑیگا، اس کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ پونچھ کی راول کوٹ کراسنگ سے مال بردار ٹرکوں کی آمد و رفت پاکستان نے چند روز قبل معطل کردی تھی مگر 14جنوری کو کمان پوسٹ سے سرینگر ۔ مظفرآباد پس سروس معمول کے مطابق چلی۔ ہمارے طرف سے 30افراد اس پار گئے اور ادھر سے 22 ادھر آئے ہیں۔ چنانچہ امید کی جانی چاہئے کہ حالات جلد ہی نارمل ہوجائیں گے ۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163194 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.