دلوں پر راج کرنے والا

ایک تصویر ذہن کی سکرین پر چھلانگ لگا کر نمودار ہوئی تھی یہ تصویر یقینا آپ نے بھی دیکھی ہو گی اس تصویر میں مجاہد ملت قاضی حسین احمد پروفیسر غفور احمد (مرحوم) کے جسد خاکی کو کندھا دے رہے تھے اس بات کو چند دن ہی ہوئے ہوں گے پروفیسر غفور احمد شدید بیمار تھے تو قاضی صاحب ان کی عیادت کے لئے کراچی ان کے گھر گئے تھے اور ان کی صحت یابی کے لئے دعا کی تھی پھر وہ پروفیسر غفور احمد نام کا درویش بھی اس دنیا سے چلا گیا!!!کیا فقیر منش شخصیت تھی پروفیسر غفور صاحب کی۔۔اس کے بعد اتحاد مسلمین کے داعی محترم قاضی حسین احمد بھی چلے گئے!جی قاضی حسین احمد مرحوم بھی دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور یہ بات بہت کم لوگ جانتے تھے اس بات کا لوگو ں کو ان کی وفات پر علم ہوا۔۔کیا بہادر آدمی تھا میرا قلم کیا کیا لکھے مجاہد ملت۔اتحادمسلمین کا داعی،۔۔قاضی صاحب جیسی شخصیت کا ہم سے بچھڑ جانا اپنی جگہ ایک سانحہ ہے ہی صرف جماعت اسلامی کا نقصان نہیں نہ ہی صرف پاکستان کا یہ تو پوری امت مسلمہ کا نقصان ہے امت مسلمہ ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گئی۔۔۔پاکستان کی سیاست میں قاضی صاحب ایک اپنا مقام رکھتے تھے قاضی صاحب کی شخصیت ہمیشہ غیر متنازعہ رہی ۔۔قاضی حسین احمد کی رحلت کے بعد جو خلا پیدا ہوا وہ مدتوں تک پورا نہیں ہو سکتاقاضی حسین احمد 1938 ضلع نوشہرہ کے گاﺅںزیارت کاکا خیل میں پیدا ہوئے قا ضی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر اپنے والد محترم سے حاصل کی زمانہ طالب علمی قاضی حسین احمد اسلامی جمیعت طلبہ سے منسلک رہے 1970 میں آپ جماعت اسلامی کے رکن بنے اس طرح سے آپ نے عملی سیاست میں قدم رکھا آپ ان لوگوں میں شامل ہیںجنھوں نے ساری زندگی سیاست کو عبادت سمجھ کر کیالیکن افسوس اس طرح کی درویش شخصیات ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہوتی جا رہی ہیںقاضی حسین احمد 1978 میں جماعت اسلامی کے سیکٹری جنرل بنے آپ کی ساری زندگی جدوجہد پر مشتمل ہے 1987 میں جماعت کی امارت کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آئی آپ چار مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر بنے اپنے دور امارت میں آپ نے جماعت اسلامی کو ایک مخصوص دائرے سے نکال عوام میں لے کر آئے آپ کے دور میں ہی جماعت اسلامی کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی آ پ جماعت اسلامی کی یوتھ ونگ (شباب ملی) کے بانی بھی تھے آپ نوجوانوں، بوڑھوں ،عورتوں میں یکساں مقبول تھے۔۔یہاں کچھ واقعات جو مجھے یاد پڑتے ہیں لکھنا چاہوں گا چند ماہ پہلے فرید احمد پراچہ کے سفرنامہ ترکی کی تقریب رونمائی تھی جس میں قاضی صاحب غالبا مہمان خصوصی تھے کچھ دیر سے پہنچے تھے میں الحمرا آرٹ کونسل کے باہر کھڑا تھا میں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا قاضی صاحب ہمیشہ کی طرح اسی پیار اور محبت سے ملے تھے! کیا نورانی چہرہ تھا جب بھی کوئی ذکر کرتا وہ نورانی چہرہ یاد آنے لگتا معاف کیجیے گا قلم بھٹک گیا ۔۔۔اچھا تو جب قاضی صاحب اس تقریب میں شر کت کے لئے پہنچے تو الحمرا آرٹ کونسل ہال کی طرف جانے والی راہداری پر کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گٹار بجا رہے تھے جیسے ہی یہ نوجوان قاضی صاحب ان کے پاس سے گزرنے لگتے ہیں تو لڑکے اپنے موسیقی کے آلات وغیرہ چھوڑ کر قاضی صاحب سے مصافحہ کے لئے آگے بڑھے تھے اس منظر کو دیکھ کر کئی لوگ حیران تھے جن میں راقم بھی شامل تھا ۔۔۔جی ہاں قاضی صاحب کی شخصیت ہی ایسی تھی دلوں میں اتر جانے والی۔۔دلوں پر راج کرنے والی۔۔مجھے وہ نعرہ بھی یاد آرہا جو بہت مقبول ہوا ”ظالمو قاضی آرہا ہے“ اور تعلیمی ادارے میں یہ نعرہ ہمیشہ سے گونجتا رہا ”ہم بیٹے کس کے قاضی کے“ ہم بھائی کس کے قا ضی کے“۔۔۔یہ اکتوبر 2011 کی بات ہے اسلامی جمیعت طلبہ کا اجتماع عام تھا قاضی صاحب خطاب کر کے واپس جا رہے تھے راقم جمیعت کے ذمہ داران کے ساتھ قاضی صاحب کو رخصت کرنے گیا قاضی صاحب نے گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے میری پیشانی پر شفقت بھرا بوسہ لیا تھا جی ۔۔اس کا لمس آج بھی محسوس کررہا ہوں ۔۔قاضی صاحب کی رحلت کو کافی دن ہو چکے ہیں لیکن مجھے ایسا لگتا جیسے میرے گھر کا کوئی فرد کم ہو گیا ہو!! میرے جیسے ہزاروں وابستگان کو چھوڑ کر آپ چلے گئے ۔۔قاضی صاحب آپ بے شک ہم سے جدا ہو گئے ہیں لیکن آپ کے جانے کے بعد آپ کی یادیں ہمارے دلوں پر راج کرتی ہیں۔
Farrukh Shehbaz
About the Author: Farrukh Shehbaz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.