ایک اخباری اطلاع کے مطابق "پاکستان
پیپلزپارٹی اور ق لیگ کی قیادتیں اس مفاہمت پر پہنچ چکی ہیں کہ دونوں
پارٹیاں آنے والے قومی انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابلے میں امیدوار نہیں
لائیں گی اور ملک بھر میں کسی بھی حلقے میں تیر اور سائیکل مد مقابل نہیں
ہو ں گے"، تیر پاکستان پیپلز پارٹی کا اور سائیکل مسلم لیگ ق کا انتخابی
نشان ہیں۔ اس سے پہلے کہ بات آگے چلے یہاں تیر اور سائیکل کے متعلق کچھ بات
ہوجائے، پاکستان میں آپکو تیر کا نشان ہر غریب کے چہرے پر ملے گا، موجودہ
حکومت نےعوام کومعاشی بدحالی، تعلیمی تنزلی ، بدامنی، سی این جی کی ناپیدگی،
بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بہت سارے قسم کے تیر مارئے ہیں اس لیے تیر پاکستان کا
مقبول ترین نشان ہے، مگر صاحب سائیکل کی بات بھی اہم ہے، کیونکہ جب پیٹرول
اور سی این جی کا حصول ناممکن ہوگا تب یہ سائیکل ہی ہوگی جو آپکو پیدل چلنے
سے بچاے گی، ویسے سائیکل دو پہیوں کی سواری ہے چلتے چلتے گر بھی جاتی ہے ،
پہلے یہ مشرف کے دربار میں تھی آجکل زرداری کے دربار میں گری ہوئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں عمل میں آیا،
بھٹو صاحب نے تو تلوار کے نشان پر 1970 اور 1977 کے الیکشن لڑئے مگر
ضیاالحق نے جہاں بھٹو کو پھانسی دی وہیں پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان کو
بھی سولی پر چڑھادیا، اُس نے الیکشن کمیشن کو کہکر تلوار کا نشان ہی ختم
کرادیا، 1988کے انتخابات پیپلز پارٹی نے بےنظیر بھٹوجو اُس وقت بیگم زرداری
ہوچکی تھیں انکی قیادت میں تلوار کو چھوڑ کر اور تیر کو اپناکر لڑئے۔ پیپلز
پارٹی کی موجودہ حکومت چوتھی بار اقتدار میں آئی ہے، بھٹو سے لیکر زرداری
تک اس پارٹی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر عوام کے ووٹ حاصل کیےمگر
عوام آج پہلے سے زیادہ ان بنیادی ضروریات کے لیے پریشان ہیں۔ کرپشن 1988 کی
بےنظیر بھٹو حکومت سے شروع ہوا، یہ نہیں کہ پہلے کرپشن نہیں تھا مگر اسقدر
بے شرم طریقے سے نہیں تھا، بےنظیر بھٹوکی 1988 اور 1994 کی دونوں حکومتیں
دوسرے الزامات کے علاوہ کرپشن کے الزامات لگاکر ختم کی گیں، 2007 میں
بےنظیرجاں بحق ہوگیں اور آصف زرداری پیپلز پارٹی کے سربراہ ہوگے۔ 2008 کے
الیکشن میں پیپلز پارٹی کو اسقدر اکثریت حاصل نہ تھی کہ وہ اکیلے حکومت
بناسکتے، اسلیے زرداری نے سب سے پہلے نواز شریف کو بڑا بھائی بناکر استمال
کیا، گیلانی اور خود کو بغیرکسی پریشانی کے وزیراعظم اورصدر منتخب کروایا
اور پھر نواز شریف کو ہری جھنڈی دکھادی، نواز شریف آجتک فرینڈلی اپوزیشن کے
طعنے سن رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کی حمایت زرداری کے لیے کافی
ہے، مگر جب ایم کیو ایم نے کراچی کے حالات کی وجہ سے زرداری حکومت کو ہلایا
تو زرداری نے کل کی قاتل لیگ کو اپنے ساتھ ملا لیا، اب وہ اور انکے ساتھی
پہلے سے زیادہ مضبوطی سے کرپشن کررہے ہیں، اب ایم کیو کی دھمکی نہیں چلے گی،
اے این پی کی طرف سے کوئی خطرہ یوں نہیں کہ وہ خیبر پختون خواہ میں عیش
کررہی ہے۔ یاد رہے پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تیر ہے۔
مسلم لیگ ایک تو وہ تھی جس کی قیادت قائداعظم محمد علی جناع نے کی اُس مسلم
لیگ کا انتقال 1953 میں غلام محمد کے ہاتھوں ہوچکا، بعد میں تو مسلم لیگ
گھر کی لونڈی ہوگی اسکے آجتک الف سے ے تک تمام چربے آچکے ہیں ۔ سیاستدانوں
کی طرح ہر فوجی حکمراں کو بھی ایک مسلم لیگ اپنے اقتدار کے لیے چاہیے ہوتی
ہے، اس لیے ایوب خان نے اسکو کنویشن مسلم لیگ کے نام سے استمال کیا، جبکہ
ضیاالحق نے تو اسکو مسلم لیگ ہی کہہ کر محمد خان جونیجو کو اسکا سربراہ
بنایا مگر ضیاالحق کے مرنے کے بعد نواز شریف اس پرقابض ہوگے، جب مشرف نے
نواز شریف حکومت ختم کی تو پھر اقتدار کے متوالوں نے مسلم لیگ کے مزید حصے
بقرے کیے ۔ اور پھر جب مشرف کو مسلم لیگ کی ضرورت پڑی تو چوہدری شجاعت حسین
اورنواز شریف کے باغیوں نے مسلم لیگ ق مشرف کی جھولی میں ڈال دی ، پہلے اس
کے سربراہ میاں محمد اظہر ہوے بعدمیں چوہدری شجاعت حسین اس کے سربراہ بنے
جو آج تک ہیں، مشرف کے زمانے میں چوہدری شجاعت حسین ق لیگ کے سربراہ ہونے
کی وجہ سے نگراں وزیراعظم بھی بنے، انکے تایا کے بیٹے چوہدری پرویز الہی
پانچ سال تک پنجاب کےوزیر اعلی رہے اور مشرف کے اقتدار تک یہ دونوں بھائی
صبح شام مشرف کے گن گاتے تھے حتکہ جتنی مرتبہ خود مشرف نے نہیں چاہ ہوگا
چوہدری پرویز الہی اس سے زیادہ مرتبہ مشرف کو صدر بنانے کا اعلان کرتے رہے
وہ بھی وردی میں، بدلے میں بہت پہلے ہی مشرف ان کےقرضے اور ان کے کرپشن کو
معاف کرچکےتھے۔ پھر جیسے ہی مشرف کا اقتدار ختم ہوا، دونوں بھائیوں کی مشرف
سے وفاداری بھی ختم ہوگی۔ اقتدار کے متوالوں نے فورا نواز شریف سے رابطہ
کیامگر اسوقت نواز شریف زرداری کے بڑئے بھائی بنے ہوے تھے اور انکو تازہ
تازہ مشرف فوبیا تھا لہذا چوہدریوں کو وہاں کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ زرداری
اور نواز شریف کے اختلافات اور ایم کیو ایم کی دھمکیوں کے بعد چوہدریوں کی
دلی مراد پوری ہوئی اور وہ اقتدارمیں واپس آئے، آجکل چوہدری پرویز الہی
نائب وزیر اعظم ہیں اور ق لیگ کے کچھ اور وزیرپیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ
ملکرپاکستان کے کرپشن کے اسکور میں اضافہ کررہے ہیں۔ یاد رہے مسلم لیگ ق کا
انتخابی نشان سائیکل ہے۔
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت دونوں ملوکیت کا شکار ہیں، مطلب سیاست سے
مرادسیاسی پارٹی اُس پارٹی کے رہنما کی ذاتی ملکیت اور جمہوریت سیاسی پارٹی
کے رہنما کی ذاتی خواہش ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو کے بعد بےنظیر پھر
زرداری اور بعد میں بلاول، دوسری طرف مسلم لیگ ق کے مالکان چوہدری ہیں،
مونس الہی پیچھے تیارہے، اب آپ سمجھ گے ہونگے ہمارے ملک میں سیاست اور
جمہوریت دونوں ملوکیت کا شکارکیوں ہیں۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری اور
زرداری اتحاد پہلی مرتبہ اقتدار میں ساتھ ساتھ ہیں یہ ایک غلط خیال ہے، اس
سے پہلے بھی یہ دونوں خاندان ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری پرویز الہی کے
والد چوہدری ظہور الہی ایوب خان کی حکومت میں اقتدار میں شامل رہ چکے ہیں۔
چوہدری ظہور الہی جو 1930 میں پنجاب پولیس میں کانسٹیبل کے طور پر بھرتی
ہوے تھے اور جنہیں بعد میں کرپشن کے الزامات پر نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
بعد میں وہ اپنے بھائی کے ساتھ کاروبار کرنے لگے، 1956 میں سیاست میں قدم
رکھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب کابینہ میں وزیر خارجہ تھے اورچوہدری ظہور
الہی کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب
خان کی حکومت سے علیدگی اختیار کی اور ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی تو
کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر چوہدری ظہور الہی نے ذوالفقار
علی بھٹو کی مخالفت کی۔ یہ مخالفت آگے بڑی اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور
میں چوہدری ظہور الہی کو بھینس چرانے اور دوسرئے الزامات لگاکر قید کیا گیا
تھا اور انکی فلورملوں کو حکومت نے اپنے کنٹرول میں کرلیا۔ چوہدری ظہور
الہی ان نو اراکین پارلیمنٹ میں شامل تھے جنکو بھٹو حکومت کے دور میں
اسمبلی کے سیشن کے دوران اسمبلی سے باہر پھکوایا گیا۔ ضیاالحق نے اقتدار
میں آکر چوہدری ظہور الہی کی فلورملوں کوانہیں واپس کردیا اور جب ضیاالحق
نے بھٹو کو پھانسی دی ےتو چوہدری ظہور الہی نے ضیاالحق سےاُس قلم کو اپنے
پاس رکھنے کی خواہش کی جس سے بھٹوکو پھانسی کا حکم لکھا گیا تھا، چوہدری
ظہور الہی نے ضیاالحق کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میں اس قلم کو اس لیے
رکھنا چاہتا ہوں تاکہ تاریخ میں میرا نام بھی شامل ہوجائے۔ ضیاالحق کے
زمانے میں ذوالفقار علی بھٹوکے بڑئے بیٹے میر مرتضی بھٹو نے الذوالفقارنامی
تنظم بنائی ، چوہدریوں کے الزام کے مطابق 25 ستمبر 1981 کو لاہور میں
الذوالفقارنے چوہدری ظہور الہی کو قتل کردیا۔ چوہدری ظہور الہی کے قتل کے
بعد چوہدری اور بھٹو خاندان میں اختلافات اور بڑھے اور چوہدریوں نے بارہا
پیپلز پارٹی کو چوہدری ظہور الہی کا قاتل کہا اور پیپلز پارٹی سے اپنی
برملا نفرت کا اظہار کیا۔ 1988 میں بے نظیر بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں
ایک دفعہ پھر چوہدری خاندان کو نشانہ بنایا، ان کی حکومت نے تمام بینکوں کو
احکامات جاری کیے کہ چوہدریوں کے صنعتی یونٹوں کو ورکنگ کیپٹل جاری نہ کیا
جائے، اسطرح انکے دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا، چوہدری خاندان نے عدالتوں سے
ریلیف کی کوشش کی اور نجی شعبے سے مدد لیکراپےہ کاروبار کوجاری رکھا۔ نواز
شریف حکومت کے زمانے میں چوہدری خاندان بے نظیر کے پیچھے لگا رہا، اس
درمیان میں ہی بے نظیرملک سے باہر چلی گیں۔ بے نظیرنے 2007 میں اپنی خود
ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آنے کا اعلان کیا اور مشرف حکومت کو ایک
خط کے زریعے بتایا کہ دوسرو ں کے علاوہ انہیں چوہدری پرویز الہی سے اپنی
جان کا خطرہ ہے، دوسری طرف چوہدری پرویز الہی ہرروزیہ بیان دئے رہے تھے کہ
بے نظیرملک کے لیے سیکورٹی رسک ہے، اس کے علاوہ بھی دونوں چوہدریوں نے بے
نظیر اور پیپلزپارٹی کے خلاف الزامات کاپنڈورا کھولا ہوا تھا۔ 18 اکتوبر کو
بے نظیر کی واپسی پر کراچی میں جس جلوس پر حملہ ہوا تھا اس کا الزام بھی
بےنظیر نے دوسرو ں کے علاوہ چوہدری پرویز الہی پر بھی لگایا، 27 دسمبر 2007
کے دن راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے بعدواپس جاتے وقت ایک حملے میں
بےنظیرجاں بحق ہوگیں، آصف زرداری نے اس کا الزام مسلم لیگ ق کو دیا اور اور
مسلم لیگ ق کو قاتل لیگ کہنا شروع کیا۔ یاد رہے پیپلز پارٹی کا انتخابی
نشان تیر اور مسلم لیگ ق کا انتخابی نشان سائیکل ہے۔
مئی 2011 کی ایک اہم خبر یہ تھی کہ ایک اجلاس میں حکمران جماعت پاکستان
پیپلز پارٹی اور حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ق کے درمیان شراکت
اقتدار پر سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ اتحاد پر اصولی طور پر اتفاق ہوگیا ہے جو
صرف شراکت اقتدار کے لیے ہی نہیں بلکہ آئندہ انتخابات کے لیے بھی ہوگا۔ اس
اجلاس میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت آصف زرداری اور حزب
اختلاف کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ق کی قیادت چوہدری شجاعت حسین نے کی۔
مسلم لیگ ق کے ایک رہنمانے کہا کہ صدر زرداری نے ان کی جماعت کو وفاقی اور
صوبائی حکومتوں میں حصہ داری کے ساتھ ساتھ نائب وزیر اعظم کا عہدہ دینے کا
بھی وعدہ کیا ہے۔
اب اگر عوام یہ سب جاننے کے باوجود" کچھ نہ سمجھے خدا کرئے کوئی" کے اوپر
عمل پیرا ہوئےتو پھرعوام اگلے پانچ سال اس دو خاندانی اتحاد کی ملوکیت اور
لوٹ مار کو برداشت کرنے کےلیے تیار رہیں اور اگر عوام سمجھ گے تو پھر عوام
خود کہیں گے: پیپلز پارٹی کےتیر اور مسلم لیگ ق کی سائیکل پر مٹی پاوُ
--------------------------------------------------
لٹیروں کا ہی دور ہے لٹیروں کا ہی زور ہے
لٹیروں سے بندھی ہوی لٹیروں کی ڈور ہے
سیاسی لٹیروں کا کیسا یہ دور ہے
کرپشن، کرپشن، کرپشن کا دور ہے |