یو این ایچ سی آر اور حکومت کی
جانب سے 30جون 2013 تک افغان مہاجرین کی رضا کارانہ وطن وپسی کےلئے توسیع
کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ایسے تمام افغان مہاجرین خاندان جن کے پاس پروف آف
رجسٹریشن (PRO) کارڈز موجود ہیں اور وہ نومبر ۔دسمبر2012ءمیں رضاکارانہ طور
پر پاکستان سے واپس افغانستان جانا چاہتے ہیں ان کو یو این ایچ سی آر(UNHCR)
کی جانب سے اضافہ شدہ واپسی پیکچ بھی پیش کیا جارہا ہے ۔یہ پیکچ وطن واپس
جانے والے خاندانوں کو صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بلیلی،
چمکنی اور تیمر گرہ کے رضا کارانہ واپسی کے مراکز سے فراہم کیا جائے
گا۔جبکہ سندھ میں کراچی شیڈولنگ سینٹر افغان بستی جونجھار گوٹھ ،گڈاپ ٹاﺅن
معاونت کرےگا۔1979ءسے شروع ہونے والی روسی مداخلت سے لیکر آج تک افغانستان
میں امن و امان کا مسئلہ نہایت پیچیدہ رہا ہے اور سیاسی و معاشی مسائل کا
لامنتاعی سلسلہ تاحال جاری ہے۔لاکھوں مہاجرین نے پاکستان میں پنا ہ حاصل کی
خاص طور صوبہ بلوچستان کے پانچ اضلاع میں7جنوری 1987ءتک کل 5,92,716افراد
کل 67 کیمپ میں منتقل ہوئے تھے.جس میں صرف کوئٹہ میں 93,740 مہاجرین رجسٹرڈ
ہوئے تھے۔گذشتہ ہفتے پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سرحدی امور انجینئر شوکت
اللہ کی جانب سے بھی پشاور میں افغان مہاجرین کے حوالے سے حکمت عملی کی
پریس کانفرنس میں اس بات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ افغانوں کی وطن واپسی
کا عمل بدستور عزت اور رضا کارانہ ہوگا لہذا جہاں پاکستان اپنی نیک نامی
اور قربانیوں کو ضائع نہ ہونے دیا جائے گا کہ عزم کا اعادہ کر رہے ہیں تو
اس کی بنیادی وجوہات میں بالا امور ایک ٹھوس حقیقت بھی رکھتے ہیں کہ اقوام
متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ آر"کا کہنا اپنی جگہ درست ہوگا
کہ افغان پناہ گزینوں کو دی جانے والی ضروری اشیا ءمیں مزید اضافہ اس لئے
کیا جارہا ہے تاکہ مہاجرین کی واپسی میں تیزی آئے اور پاکستان کی جانب سے
سال کے اختتامی ایام اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیابی ہو ۔لیکن زمینی
حقائق اس کے برخلاف ہیں کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد جو پاکستانی شہریت
حاصل کرچکی ہے ان کی واپسی کا عمل آسان نہیں ہوگا ۔اس سے قبل1980میں قائم
ہونے والا جلوزئی مہاجر کیمپ کو افغانوں نے 2008ءمیں حکومتی ڈیڈ لائن کے
باوجود خالی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ضلع نوشہرہ میں قائم جلوزئی کیمپ سے
مہاجرین کی افغانستان کی واپسی کا عمل 2008میں شروع کیا گیا تھا اس وقت
کیمپ میں مقیم اسی ہزار سے زائد افراد میں سے چوہتر ہزار رضاکارانہ طور پر
وطن واپس جاچکے تھے۔جبکہ اس وقت صوبائی و مرکزی حکومت کی ہداےت پر چھ سو
سولہ ہنر مند خاندانوں کو قالین بافی کی صنعت کی وجہ سے کیمپ میں رہنے کی
اجازت دی گئی کیونکہ حکومت قالین بافی کی صنعت کے فروغ سے پاکستانیوں کو
تربیت کا اہتمام کرنا چاہتی تھی ۔اہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ جلوزئی کیمپ
افغان جہاد کے دوران عرب جنگجوﺅں اور افغانستان کے سات جہادی تنظیموں کا
اہم مرکز رہا ہے اس کیمپ میں عبداللہ عظام نے جہاد یونیورسٹی بھی قائم کی
تھی جس میں جہاد سے متعلق فکری تربیت دی جاتی رہی ۔اور خود عبداللہ عظام ،
خالد شیخ کے بھائی عابد شیخ اور شیخ تمیم جیسے عرب مجاہدین رہنماءجلوزئی
کیمپ میں سپرد خاک ہیں۔حکومت اس قبل 2009تک تمام افغان کیمپ بند کرنے کا
دعوی کرچکی تھی لیکن اقوام متحدہ کے ادارے این ایچ سی آر کے مطابق 2009ءتک
ان تمام کیمپوں کو بند کرنا ممکن نہیں تھا ۔پاکستان میں دوملین کے قریب
افغان مہاجرین کے ہونے کا کہا جاتا ہے کو غیر سرکاری اعداد و شمار سے بہت
کم ہیں ۔پاکستان میں لاکھوں افغانی چاہیے وہ رجسٹرڈ ہوں یا غیر رجسٹرڈ ،
اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستانی شہرےت بھی حاصل کرچکے ہیں
بلکہ لاکھوں افراد افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت میں اہم کردار
ادا کر رہے ہیں ان کے لئے یہ ناممکن ہے کہ امن و امان سے ناپید افغانستان
کی سرزمین میں واپس جا کر اپنے معاشی مستقبل کو خطرے میں ڈالیں ۔ خاص طور
پر افغان مہاجرین کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج
کے موجودگی کے باوجود امن کی صورتحال بہترہوجائے گی۔
اگرافغانستان میں 2014ءکے الیکشن بروقت ہوجاتے ہیں اور ایسی حکومت کا قیام
عمل میں آجاتاہے جو افغانیوں کو امن سکون اور روزگار کا آئیڈیل ماحول فراہم
کرسکیں تو ممکن ہے کہ آبائی وطن ہونے سبب کے اپنے بزرگوں کے آگے سر تسلیم
خم کرلیں۔ لیکن پاکستان میں افغان مہاجرین کی دوسری نوجوان ایسی نسل موجود
ہے جو پاکستانی ماحول میں رچ بس گئی ہے ۔ ان کی تعلیم و تربیت سمیت ان کا
رکھ رکھاﺅ بھی مقامی علاقوں کے مطابق ڈھل چکا ہے ۔ شہری آسودہ زندگی کے
مقابلے میںافغانستان میں ماضی کی روایات،افغان گروپوں میں انتشار اور
اقتدار کےلئے نہ رکنے والی خانہ جنگی کے مضمرات سے افغان نوجوان نسل آگاہ
ہے اور وہ اپنی پر امن زندگی کو خطرات میں ڈالنے کا رسک رضاکارانہ بھی لینے
کے لئے تیار نہیں ہے۔کیونکہ نیٹو یا امریکہ افواج کے انخلا ءکے باوجود خانہ
جنگی کا خطرہ موجود رہے گا اور چاہیے سیاسی عناصر ہوں یا مذہبی گروہ ،
افغانستان میں امن کی صورتحال فوری طور پر بحال ہونے ہونے کے کوئی امکانات
نہیں ہیں کہ افغان مہاجرین کی واپسی کامیابی کے ساتھ ممکن ہوسکے گی ۔
نئی نسل نے مقامی اسکولوں ، کالجوں میں تعلیم حاصل کرکے پاکستانی شہریت کو
مستحکم کرلیا اس بنا پر افغان مہاجرین کے نام پر تمام افغانیوں کا انخلا
ءبا آسانی ممکن ہوسکے گا ۔دوسری جانب جہاں مقامی شہریت حاصل کرنے والوں کی
تعداد لاکھوں میں ہے تو پاکستان کے مرکزی اقتصادی شہروں میں تجارتی بنیادں
پر کپڑے ، قالین کی تجارت پر افغانیوں کی اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کی
باعث ممکن نہیں ہے کہ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے عمل میں
کسی قسم کا تعاون کریں کیونکہ بنیادی طورپر یہی دیکھا گیا ہے کہ افغان
مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد نے جہاں وقتی طور پر رجسٹریشن کراوئی لیکن
پاکستانی اداروں میں کرپشن کی وجہ سے مقامی شناخت کو سہل انداز میں بھی
حاصل کرلیا بلکہ ملکی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ سابقہ ناظمین کے
مقامی حکومت کے نظام میں افغانیوں کی بڑی تعداد نے نہ صرف ووٹ لسٹوں میں
اندارج کرایا بلکہ ایک بڑی کثیر تعداد بھی یونین ناظم اور کونسلرز کی شکل
میں منتخب ہوئی۔
ماضی کی حکومتیں افغان مہاجرین کو کیمپوں میں محدود رکھنے میں ناکام رہیں
یا دانستہ غفلت برتی ،لیکن اس کے نتائج مقامی معیشت اور آبادی پر بُرے مرتب
ہوئے ۔ غیر مقامی لاکھوں افراد کی آمد کے باعث پاکستان کی افرادی قوت کو بے
روزگاری کا سامنا رہا اور کم اجُرت کے باعث افغان مہاجرین کے کام کرنے کے
رجحان نے مقامی آبادیوں کومکینوں کو مشکلات سے دوچار کیا ۔جہاں پاکستانی
عوام معاشی مسائل کا شکار ہوئی تو دوسری جانب امن و امان سمیت دیگر مسائل
کی وجہ سے ملکی سلامتی اور سیکورٹی کے خدشات بھی قانون نافذ کرنے والے
اداروں کے لئے ایک چیلنچ کا درجہ رکھتے ہیں۔ افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں
اور مصبیت میں کام آنا پڑوسیوں کا فرض بنتا ہے ۔ لیکن پاکستان جس اندوہناک
صورتحال کا شکار اور شمالی مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں اس صورتحال میں
ضرورت اس امر کی ہے افغان مہاجرین کے رضا کارانہ و عزت مندانہ واپسی کے عمل
میں زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کو بھی محفوظ
بنانے کی حکمت عملی طے کی جائے۔ بہر صورت افغانی جس شکل میں پاکستان میں
قیام پزیرہیں انھیں واپس جانا ہوگا کیونکہ یہ پاکستان کے استحکام اور معاشی
و سماجی دشواریوں سے نکلنے کے لئے اہم ہے۔افغانستان میں بدلتی صورتحال کے
پیش نظر پاکستان میں مقیم تمام افغانیوں کو تحفظ کی فراہمی ان کے اپنے
مملکت کی ذمے داری ہے۔اور مستحکم مملکت کے لئے افغان عوام کو اپنے ملک جاکر
ہی کردار ادا کرنا ہوگا۔افغانستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف جنگیں
جاری رہیں ہیں ۔ گروپوں کے درمیان خانہ جنگیوں نے سب سے زیادہ افغانستان کی
عوام کو نقصان پہنچایا ہے لہذا اب افغانستان میں اپنی روایات و ثقافت کے
تحفظ کے لئے اُن لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جو اپنی
سرزمین سے دور ہیں ۔ انھیں اپنے وطن واپس جاکر اپنی صدیوں کی تاریخ کو زندہ
کرنا ہوگا۔ |