ڈی چوک سے کنٹرول لائن تک

لانگ مارچ کے بطن سے ہویدا ہونے والا دھرنا معاہدے کی قبر میں پہنچ کر ختم ہوا۔ جناح ایونیو پر اور ڈی چوک میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو کچھ کہا اُس پر پوری طرح عمل نہ کرسکے۔ کرتے بھی کیسے؟ اُنہوں نے بڑی بڑی باتیں اسلام آباد کی زمین پر کہی تھیں جہاں قول کا فعل سے مِلن لازم نہیں!

اسلام آباد کا تازہ ترین سیاسی میلہ خواہ کِسی کی مرضی اور معاونت سے سجایا گیا ہو، حکومت کے لیے بہت بڑا امتحان تھا۔ زرداری انتظامیہ نے (سیانوں کی ”توقعات“ کے برعکس اور رحمٰن ملک کی کوششوں کے باوجود) اِس بحران کے غُبارے سے ہوا نکالنے میں خاصی مہارت اور تحمل کا ثبوت دیا! کاش اِتنا ہی تحمل پانچ برسوں میں قومی خزانے کو ہڑپنے کے حوالے سے بھی اپنایا گیا ہوتا! ”بھائی جان، مہربان، قدر دان“ یعنی تماش بین عوام کی خوشی کی خاطر، اور اُنہی کے بے حد اِصرار پر، جاتی ہوئی حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کی آڑ میں جمہوریت ہی کی بساط لپیٹنے کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ تین دن کے پُرامن دھرنے اور اِس سے قبل پُرامن لانگ مارچ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب ”وہ“ چاہتے ہیں تو کہیں کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی! جس شہر میں ساتھ ساتھ چلنے والے تین چار افراد کو بھی اہلکار روک کر ارادے معلوم کرتے ہیں اُسی شہر میں تیس چالیس ہزار افراد کو کیسے داخل ہونے دیا گیا؟ کیا طاہرالقادری واضح ترین گرین سگنل کے بغیر لاؤ لشکر کے ساتھ ریڈ زون تک جاسکتے تھے؟ گورنر یا چیف منسٹر ہاؤس کے سامنے بھی محض چند درجن افراد کو جمع ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بدھ (16 جنوری) کو پشاور میں قبائلیوں نے لاشوں کے ساتھ گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا تو پہلے مذاکرات ہوئے جن کی ناکامی پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس فورس استعمال کی گئی! ایسے میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے، سپریم کورٹ اور ایوان صدر سے محض ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہزاروں افراد کو پورے تین دن تک جمع رہنے کی اجازت کیسے مل گئی؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ اُن کے ”قائدِ بے بدل“ نے حکمرانوں کو یزیدی لشکر، قاتل، لٹیرے، کرپٹ ترین اور ”سابق“ قرار دینے اور متعدد مضحکہ خیز الٹی میٹم جاری کرنے سے ذرا بھی گریز نہیں کیا! مقدمہ تو خیر کیا ہوتا، طاہرالقادری کو تو اُلٹا نوازا گیا! ثابت ہوا جو دلھن پیا من بھائے اُس کا کچھ نہیں بگڑتا!

لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت کرنے کا اعلان کرنے والے بھی متذبذب ہی رہے۔ شاید اِس لیے کہ اُنہیں خود بھی معلوم نہ تھا کہ یہ سب کیوں کیا (یا کرایا) جارہا ہے! کھانے والوں کو معلوم تو ہونا ہی چاہیے کہ اُن کے سامنے دھری ہوئی پلیٹوں میں بریانی ولیمے کی ہے یا تیجے کی! متحدہ نے آخری لمحات میں خود کو لانگ مارچ سے دور کیا۔ ”زمینی حقائق“ نہ بھولنے سے ایسے ہی یو ٹرن جنم لیا کرتے ہیں! تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کئی بار کہا کہ اُن کا اور طاہرالقادری کا ایجنڈا ایک ہے۔ مگر وہ بھی بعض معاملات میں شُکوک کی بُو سُونگھ کر اپنے بڑھتے قدم روکنے پر مجبور ہوگئے۔ بقول غالب
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!

متحدہ تو حکومت کی اتحادی ہے اِس لیے اُس کا دھرنے سے دور رہنا منطقی تھا۔ عمران خان کو کیا ہوا؟ کیا اُنہوں نے بھی محسوس کرلیا تھا کہ
کوئی معشوق ہے اِس پردہ زنگاری میں!

طاہرالقادری تو کہتے تھے کہ اُن کا کوئی ذاتی مفاد اور سیاسی ایجنڈا نہیں تو پھر نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے عمل میں اپنی رائے کو شامل کرنا کیوں لازم قرار دِلایا؟ 14 اور 15 جنوری کی شب جناح ایونیو پر لانگ مارچ کے شرکاءسے خطاب میں اُنہوں نے صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی کابینہ اور ہر صوبائی کابینہ کو بیک جنبش زبان ”سابق“ قرار دیتے ہوئے تمام منتخب ایوانوں کی تحلیل کے لیے محض 9 گھنٹے کا وقت دیا تھا! منتخب ایوان تحلیل ہوئے نہ حکمرانوں کو ”سابق“ بنایا جاسکا۔ طاہرالقادری نے اُنہی لوگوں کو گلے لگانا اور معاہدہ کرنا کیوں گوارا کیا جنہیں اُنہوں نے پوری قوم کے سامنے یزیدی قرار دیا تھا؟ جذباتیت کے دریا میں بہتے ہوئے طاہرالقادری شاید بھول گئے تھے کہ اِنہی پانیوں میں چُبھتے ہوئے سوالوں کے مگرمچھ بھی پائے جاتے ہیں! اب تجزیہ کار دھرنے اور معاہدے کی مُرغی سے اپنی مرضی کے انڈے برآمد کرنے کی کوشش میں جُتے ہوئے ہیں!

نماز جمعہ کے بعد رائے ونڈ میں پیر پگارا کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے کہا جو حکومت کا تختہ الٹنے آئے تھے اُن کے لیے عزت بچانا مشکل ہوگیا اور کون جانتا ہے کہ عزت بھی بچ سکی یا نہیں! نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ طاہرالقادری دھرنے کے شرکاءکے ٹھٹھرنے کی قیمت بھی وصول نہ کرسکے! میاں صاحب سے ہم عرض کریں گے کہ کسے کیا ملا اِس کی فکر کرنے کے بجائے یہ سوچیے کہ قوم کو کیا بُھگتنا ہے! طاہرالقادری پر ”پَلّے نئی دھیلہ تے کردی میلہ میلہ“ کی پھبتی کسنے کے بجائے اِس قوم کے بارے میں سوچا جائے جو اب تک ”شوکن میلے دی“ ثابت ہوتی آئی ہے!

اسلام آباد کے سمندر کا طوفان جس طور تھما اُس کے بنیادی عوامل جاننے کے لیے ذرا دور جانا پڑے گا۔ بس ذرا نئی دہلی اور پھر کنٹرول لائن تک۔ کیا اِسے محض اتفاق سمجھا جائے کہ جس وقت پاکستان کا وفاقی دارالحکومت ”اندرونی حالتِ جنگ“ میں تھا تب بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی، کراس فائرنگ اور ہلاکت و شہادت کا بازار گرم کیا؟ کنٹرول لائن پر کِسی بھارتی فوجی کا مارا جانا حیرت انگیز نہیں مگر اُس کا سَر قلم کرنے کا معاملہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور پھر اُتر پردیش کے شہر بدایوں کے نواح میں سَر بریدہ لانس نائیک ہیم راج کے پس ماندگان کی بھوک ہڑتال، سَر لاکر دینے کا مطالبہ اور فوجی قیادت کو شدید دباؤ میں مبتلا کرنے کا ناٹک کِس کھاتے میں تھا؟ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے آن کی آن میں ”پاکستان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے“ کہتے ہوئے اپنا کردار عمدگی سے ادا کیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی سُشما سوراج نے دس پاکستانی فوجیوں کے سَر لانے کی ”فرمائش“ کرکے جلتی پر مزید تیل چھڑکا۔ بھارتی آرمی چیف کی طرف سے واشگاف الفاظ میں جنگ کی دھمکی اور اِس کے محض ایک دن بعد پاکستان اور بھارت فلیگ اسٹاف میٹنگ اور اِس میٹنگ کی ناکامی پر ڈی جی ملٹری آپریشنز کا رابطہ! کیا اِن تمام واقعات کو اتفاق قرار دیکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ مفاہمت کا فلسفہ کہیں کرکٹ کے بعد سفارت کے میدان میں تو داخل نہیں ہوگیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں تیسری قوت (یعنی حقیقی پہلی قوت!) کو سیاسی اُلٹ پلٹ کا فائدہ اُٹھانے سے روکنے کی خاطر اور اپنی مرضی کی جمہوریت بچانے کے لیے بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت حرکت میں آئی یا لائی گئی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524772 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More