اﷲ عزوجل نے نبی اکرم نورِ
مجسمﷺ کو تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا۔ اسی طرح
جمالِ صورت میں بھی یکتا و بے نظیر بنایا۔ صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ
علیہم اجمعین خلوت و جلوت، سفر و حضر میں جمالِ جہاں آرا کو دیکھتے رہے،
انہوں نے حبیب پاک ﷺکے فضل و کمال کی جو تصویر کشی کی ہے اسے سن کر یہی
کہنا پڑتا ہے
کوئی تجھ سا ہواہے نہ ہوگا شہا
آپ سر کے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک اﷲ عزوجل کی قدرت کے مظہر ہیں۔ چند
سطور سرکارِ دوعالم ا کے سراپائے اقدس کے حوالے سے باختصار نقل کرتے ہیں تا
کہ ہمارے دلوں میں آپ کی الفت و محبت دوبالا ہو جائے۔
حضور ﷺ کی بچپن کی ادائیں
حضرت حلیمہ کا بیان ہے کہ آپ کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا
تھا اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے تو چاند
آپ کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتاجب آپ کی زبان کھلی تو سب سے اول جوکلام
آ پ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا’’ اﷲ اکبراﷲ اکبرالحمد ﷲ رب العالمین وسبحان
اﷲ بکرۃواصیلا‘‘ بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ نے کپڑوں میں بول وبراز
نہیں فرمایابلکہ ہمیشہ ایک متعین وقت پر رفع حاجت فرماتے اگر کبھی آپ کی
شرمگاہ کھل جاتی توآپ رو رو کر فریاد کرتے اور جب تک شرمگاہ نہ چھپ جاتی آپ
کو چین اور قرار نہیں آتا تھا اور اگر شرمگاہ چھپانے میں مجھ سے کچھ تا خیر
ہو جا تی تو غیب سے کوئی شرمگاہ چھپا دیتاجب آپ اپنے پیروں پر چلنے کے قابل
ہو ئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہو ئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں
شریک نہیں ہوتے تھے لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے کہ میں
کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں ۔(مدراج النبوۃ)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہنسی اور مسکراہٹ
امام ترمذی نے حارث بن جزء رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے حضرت حارث نے کہا کہ
میں نے حضور پر نور ﷺ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا ۔دوسری
روایت میں ہے کہ حضورﷺ کی ہنسی تبسم تھی ۔حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن فرماتی
ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے دریافت کیا کہ
جب حضور ﷺ گھر تشریف لاتے تو حضور ﷺ کا طریقہ کار کیا تھا ؟آپ نے فرمایا :
حضور ﷺ سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے ہنستے بھی تھے اور مسکراتے بھی تھے ۔
سرور عالم ﷺ کاا نداز تکلم
حضور ﷺ جب گفتگو فرماتے تو آہستہ آہستہ ،ہر لفظ الگ الگ کرکے تلفظ فرماتے
اور بسا اوقات ایک لفظ کویا جملے کو تین مرتبہ دہراتے تاکہ تمام سامعین اس
کو پوری طرح سن بھی لیں اور اس کامفہوم سمجھ بھی لیں ۔ اثناء گفتگو حضور ﷺ
بکثرت تبسم فرمایا کرتے ۔حضرت عباس فرماتے ہیں جب حضورﷺ گفتگو کرتے تو
معلوم ہوتا کہ دہن مبارک سے نور نکل رہا ہے ۔دوران گفتگو حضور ﷺ بعض اوقات
اپنا سر مبارک آسمان کی طرف بلند کرتے اور’’ اﷲ اکبر‘‘ کہتے ۔امام ترمذی
روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ بلا ضرورت گفتگو نہیں فرمایا کرتے تھے حضور ﷺ کا
سکوت بہت طویل ہوا کرتا تھا ۔ حضور ﷺ کی زبان پاک سے جوامع الکلم صادر ہوتے
تھے نہ ان میں غیر ضروری طوالت ہوتی اور نہ ایسا اختصار ہوتا جس سے کلام کے
معانی کو سمجھنا مشکل ہوجائے ۔ام معبد نے حضور ﷺ کے انداز تکلم کو خوب بیان
کیا ہے فرماتی ہیں :جب حضور ﷺ خاموشی اختیار فرماتے تو پیکر وقار معلوم
ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو ایک خاص قسم کی چمک روئے اقدس پر رونما ہوجاتی
۔حضور ﷺ کی گفتگو بڑی حسین اور دلکش ہوتی۔
حضور ﷺکے چہرہ ٔمبارک کی رنگت
وہ صحابہ کرام جو حضور سرور عالم ﷺ کا حلیہ بیان کرنے میں بڑی شہرت رکھتے
تھے ان میں سے جمہور صحابہ حضور ﷺ کے چہرہ کی ابیض سے تو صیف کرتے اور بعض
میں ہے’’ کَانَ اَبیض مَلِیحًا‘‘سفیدی لیکن ایسی سفیدی جس میں ملاحت ہوتی
۔حضرت علی مرتضیٰ فرماتے ہیں حضور ﷺ کی رنگت سفید تھی جس میں سرخی کی ملاوٹ
تھی یعنی سرخ وسپید ۔ابو ہریرہ فرماتے تھے رنگت ابیض تھی یوں معلوم ہوتا
تھاکہ حضور ﷺ کو چاندنی سے ڈھالا گیا اور چاندنی سے اس لئے تشبیہ دی ہے کہ
چاندنی کی سفیدی دوسری سفیدیوں سے اعلیٰ ہو تی ہے ۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ
اس میں ایسی سفیدی تھی جس میں سرخی کی ملاوٹ ہوتی ایسی سفید ی نہیں تھی جو
آنکھوں کو ناگوارگزرے ۔
حضور ﷺ کا صحابہ کے ساتھ نشست کا انداز
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جب اپنے صحابہ کے
درمیان تشریف لے جاتے تو اپنے گھٹنوں کو اپنی ہم نشینوں سے آگے نہ کرتے ۔جو
شخص حضور ﷺ کے دست مبارک کو تھام لیتا جب تک وہ خود اپنا ہاتھ واپس نہ کرتا
حضور ﷺ اس کے ہاتھ کو نہ چھوڑ تے ۔اور جو شخص بھی بارگاہ رسالت میں حاضر ی
کاشرف حاصل کرتاجب تک وہ خود اٹھ کر نہ چلا جاتا حضور ﷺ کھڑے نہ ہو تے
۔حضور ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ جب کہیں تشریف فرما ہو تے توخود درمیان
میں بیٹھتے ۔صحابہ کرام حلقہ باندھے چاروں طرف بیٹھا کرتے ۔سرور عالم ﷺ جب
خطاب فرماتے تو کبھی ایک طرف کے لوگوں پر توجہ دیتے ،پھر دوسری طرف کے
لوگوں پر پھر تیسری طرف کے لوگوں پر تو جہ فرماتے ۔حضرت ابو ہریرہ اور ابو
ذررضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ اپنے صحابہ کے
درمیان میں بیٹھتے۔ ناواقف اعرابی آتے تو وہ یہ نہ سمجھ سکتے کہ حضور ﷺ
کہاں تشریف فرما ہیں ۔انہیں لو گوں سے پوچھنا پڑتا ۔ہم نے بارگاہ رسالت میں
عرض کی حضور ﷺ اجازت دیں تو ہم اونچا چبوترہ بنا لیں تا کہ اعرابی پہچان
سکیں ۔چنا نچہ ہم نے ایک چبوترہ بنایا حضور ﷺ اس پر تشریف فرما ہوتے اور ہم
ایک دوسرے کے پیچھے صفیں بنا کر بیٹھ جاتے ۔
ہادی انس وجان ﷺ کے کھانے پینے کا انداز
بزار اور طبرانی نے ثقہ راویوں کے واسطہ سے عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما سے
روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں جب کھانے کی کوئی چیز بطور ہدیہ پیش
کی جاتی تو پہلے پیش کر نے والا اس سے تناول کرتا اور پھرحضور ﷺ اس کی طرف
ہاتھ بڑھاتے ۔اس احتیا ط کی وجہ یہ ہے کہ فتح خیبر کے بعد ایک یہودن نے
حضور کی خدمت میں ایک بکری کا گوشت بھون کر پیش کیا اور اس میں زہر ملا دیا
تھا سرور عالم ﷺ نے اس احتیاط کا التزام فرمایا تاکہ آئندہ کو ئی دشمن
اسلام ایسی حرکت نہ کر بیٹھے ۔سرور عالم ﷺ جب کھانا کھانے کیلئے تشریف فرما
ہوتے تو اس طرح نہ بیٹھتے جس سے غرور اور رعونت کا اظہار ہو بلکہ اس طرح
نشست فرماتے کہ عجزو تواضع کا اظہار ہو ۔حضرت جحیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں
کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا رحمت عالم ﷺنے اس کو مخاطب کرتے ہو
ئے فرمایا کہ میں اس حالت میں نہیں کھاتا کہ میں تکیہ پر ٹیک لگائے بیٹھا
ہوں ۔ (رواہ البخاری احمد وغیر ہما )امام مسلم ابو داؤد عبداﷲ بن بسر سے
روا یت کر تے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں ایک بکری پیش کی گئی رحمت عالم ﷺ
اپنے گھٹنوں پر بیٹھے اور اس گو شت کو تناول فرمانے لگے ایک اعرابی نے
دیکھا تو کہنے لگا بیٹھنے کی یہ صورت کیسی ہے رحمت عالم ﷺ نے فرمایا ۔مجھے
اﷲ تعالیٰ نے عزت والا بندہ بنایا ہے مجھے جابر اور متکبر نہیں بنایا ہے ۔
سو نے سے پہلے کے معمولات
حضور سرور عالم ﷺ سونے سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہما کو پاس بلا کر اہل اسلام کے مسائل پر باہمی مشاورت فرماتے ۔حضور ﷺ اس
کمرے میں نہ بیٹھتے جس میں اندھیرا ہو ۔حضور ﷺ دیا جلانے کا حکم دیتے ۔حضور
ﷺ سونے سے پہلے وضو فرمالیا کرتے ۔حضور ﷺ سونے سے پہلے سرمہ استعمال فرماتے
۔ہر آنکھ میں تین تین سلائیاں ڈالتے ۔حضور ﷺ کبھی کبھی پشت کے بل استراحت
فرماتے اور ایک پیر کو دوسرے پر رکھتے ۔اگر کو ئی شخص پیٹ کے بل سویاہوا
ہوتا تو اسے اپنے پیر سے ضرب لگاتے اور فرماتے: دو زخیوں والی نیند سے
جاگو۔ حضور ﷺ نے پیٹ کے بل سونے کو ناپسند فرمایا اور اس کو جہنمیوں کا
طریقہ بتایا ۔
زینت اور مصطفی جان ِرحمت ﷺ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ
سفر اور حضر میں ان پانچ چیزوں کو نظر انداز نہیں کرتے تھے :آئینہ ،سرمہ
دانی ،کنگھی ،تیل اورمسواک ۔ حضرت ام المومنین فرماتی ہیں کہ جب حضور ﷺ سفر
کا ارادہ فرماتے تو میں یہ چیزیں تیار کر کے حضور ﷺ کے سامان میں رکھواتی
:خوشبودار تیل، کنگھی، آئینہ، قینچی، سرمہ دانی اور مسواک ۔حضرت انس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ جب رات کے وقت بستر پر استراحت فرماتے
تو اس سے پہلے مسواک کرتے وضو فرماتے اور بالوں میں کنگھی کرتے ۔ حضور ﷺ کی
کنگھی ہاتھی دانت کی بنی تھی جس سے حضورر ﷺ اپنے بالوں کو درست کیا کرتے
تھے ۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم ﷺ جب آئینہ میں
اپنے دل پذیر چہرے کو دیکھتے تو بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے ۔اے اﷲ تعالیٰ!
تو نے میری ظاہری صورت کو حسین بنایا ہے الٰہی !میرے اخلاق کوبھی حسین
بنادے اور میرا رزق میرے لئے وسیع فرما دے ۔ |