آمد رسولِ عربی ! ﷺ

ولادت باسعادت: آپ ﷺ 12ربیع الاول 632ھ (20اپریل 571ئ) کو مکہ مکرمہ میں قبیلہ قریش میں پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کے والد ماجد کا نام عبداللہ تھا ، آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد وفات پا چکے تھے ، یوں آپ ﷺکی پرورش دادا عبد المطلب نے کی۔ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وہب تھا۔ ولادت کے بعد آپ ﷺ نے سات روز تک ثوبیہ ؓ کا دودھ پیا جو کہ ابو لہب بن عبد المطلب کی لونڈی تھیں۔ عرب کا دستور عام تھا اور اس کے مطابق آٹھویں روز قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون حلیمہ سعدیہ ؓ کے سپرد کئے گئے، جو کہ آپ ﷺ کو مکہ کے نواح میں قبیلہ بنع سعد کے گاﺅں لے گئیں۔ حلیمہ سعدیہ آپ ﷺ کو ہر چھ ماہ بعد مکہ لاتی تھیں۔ آپ ﷺ چار برس کی عمر تک بنی سعد میں رہے۔ چھ براس کے تھے کہ والدہ کا انتقال پُر ملال ہو گیا۔ عبدِ ازاں پرورش اور تربیت پہلے دادا عبد المطلب نے کی۔ جب آٹھ برس کے تھے تو دادا بھی وفات پاگئے۔ اس طرح اپنے چچا ابو طالب کے سایہ میں آگئے۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا کے ساتھ بصرہ اور شام کے کئی تجارتی سفر کئے۔ بارہ سال کی عمر میں تجارت کے سلسلے میں شام گئے تو وہاں ایک عیسائی راہب بحیرہ نے آپ ﷺ کو دیکھا تو ابو طالب کو بتایا کہ نبوت کی جو علامات تورات اور انجیل میں درج ہیں وہ آپ ﷺ میں موجود ہیں۔ بندرہ برس کے ہوئے تو جنگِ فجار میں حصہ لیا۔

آپ ﷺ کا بچپن: 12ربیع الاوّل ، عام الفیل سورج نکلنے سے پہلے حضرت آمنہ ؓ کی گود میں وہ چاند آگیا جس کی بشارتیں انہیں مل رہی تھیں۔آپ ﷺ کی ولادت مکہ کے محلہ سوق الیل میں ہوئی۔ آپ ﷺ کی دایہ کا نام شفا تھا جو مشہور و محترم صحابی رسول ﷺ حضرت عبد الرحمٰن ؓ بن عوف کی والدہ تھیں۔ سب سے پہلے بچے کوگود میں لینے کی سعادت انہیں کو ملی۔ انتہائی حسین بچہ، چمکدار سا حسین چہرہ ، پیشانی اور ناک اونچی، آنکھیں سیاہ اور روشن، پلکیں دراز تھیں۔ سر بڑا اور بال کالے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ کی والدہ کو کشف میں دکھایا گیا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں فتح و نصرت اور غلبہ کی چابیاں ہیں۔ آپ ﷺ آسمان سے نور لائے تھے۔ خود بھی نور تھے آپ کا نام محمد ﷺ رکھا گیا۔ اللہ جل شانہ‘ نے جب احسان کرنا چاہا تو محمد ﷺ کو پیدا کیا آپ کا نام محمد ﷺ تھا جس کے معنی نہایت ہی تعریف کے ہیں۔ (ملفوظات جلد دوم) آپ ﷺ کی خوبصورتی میں خدا تعالیٰ کی خوبصورتی کا عکس تھا، آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُورِی۔ سب سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ میرا نور تھا۔ (زرقانی علی المواہب جلد ۱، صفحہ ۳۳)

آپ ﷺ کا شجرہ نسب: محمد ﷺ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مراہ بن کعب بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرجہ بن الیاس بن نضر بن نزاربن سعد بن لوئی بن آدبن اودبن مقم بن ناخوربن یرج بن حرب لیحب بن ثابت بن قیدار بن اسمعٰیل ؑہے۔

نکاح: آپ ﷺ جب پچیس برس کے ہوئے تو آپ ﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ ؓ سے ہوگیا جو ایک بیوہ خاتون تھیں اور عمر چالیس سال تھی۔ آپ ﷺ کی اولاد میں سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے تھے۔ آپ ﷺ بہت دیانتدار اور امین تھے جب آپ ﷺ چالیس برس کے ہوئے تو ایک دن حسبِ معمول مکہ کے قریب واقع غارِ حرا میں عبادت کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے آپ ﷺ کو نبوت کے منصب پر سرفراز کیا۔

آپ ﷺ بحیثیت معلم: اسلام سے قبل جزیرة العرب میں ناخواندگی ، جہالت اور وحشت کا دور دورہ تھا۔ اہلِ عرب اگرچہ اکثر اَن پڑھ اور جاہل تھے اس کے باوجود علم نجوم سے کافی آگاہ اور طب سے بھی کسی قدر علم رکھتے تھے۔ عربی زبان میں فصیح و بلیغ انداز میں بول چال اور خطابت کی وجہ سے وہ غیر عربوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ کو جب نبوت ملی تو سب سے پہلی آیات یہ نازل ہوئیں۔ مفہوم: پڑھ تیرا رب کریم ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ وہ جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔ (سورہ ¿ علق) معلم کائنات نے ان آیات کو دہرایا۔ آپ ﷺ نے نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں احکامِ الہٰی کی تعلیم و تبلیغ کا آغاز کیا۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے خیر البشر نبی کریم ﷺ تک تمام انبیاءکرام نے اپنے اپنے ادوار میں خدا کی وحدانیت اور حق و صداقت کا درس دیا۔ لہٰذا تمام پیغمبران مبلغ و معلم ہی تھے۔آپ ﷺ دلکش اور دل نشین پیرایہ بیان کرتے تھے جس میں فصاحت و بلاغت کا پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ درس ایسے خوبصورت انداز میں دیتے کہ دلچسپی برقرار رہتی اور سننے والا کبھی اکتاہٹ محسوس نہ کرتا اور ہمہ وقت بڑا منہمک رہتا۔ نرمی سے اور آہستہ آہستہ کلام فرمایا کرتے تھے ۔ قائدانہ صلاح آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کی سر چشمہ تھی جو ایک اچھے معلم کے لئے بھی قابلِ تقلید نمونہ ہے۔
آپ ﷺ کا عفو و کرم: حضور نبی کریم ﷺ کا عفو و کرم آپ ﷺ کی ذاتِ اعلیٰ صفات کا وہ روشن پہلو ہے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کا مقام و مرتبہ دیگر انبیاءر رسل میں سب سے منفرد ہے۔ یقینا آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی صورت میں اجمل اور سیرت میں اکمل ہے۔ عربی زبان میں عفو کے معنی ہیں چھوڑ دینا، یعنی قصور وار کو سزا نہ دیتے ہوئے اسے معاف کر دینا ۔ جو ایک خاص صفت میں شمار ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” پس تمہیں چاہیئے کہ لوگوں کو معاف کیا کرو اور ان سے در گزر کیا کرو۔“عبد اللہ بن زبعریٰ جو مکے کا ایک شاعر تھا اور رات دن حضورِ اکرم ﷺ کی ہجویں لکھا کرتا تھا اور انہیں جگہ جگہ سنایا اور مذاق اڑایا کرتا تھا، صفوان بن امیہ بن خلف جو ہمہ وقت لوگوں کو رسولِ اکرم ﷺ کے (نعوذ باللہ) قتل کرنے کی ترغیب دیا کرتا تھا، ابو سفیان جس کی زندگی کا ہر لمحہ حضورِ اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچانے اور آپ ﷺ کی زندگی کو ختم کرنے کی تجویزیں سوچنے میں صرف ہوتا تھا۔ مگر حضور نبی کریم ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے ”میرے رب نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے ، میں قدرت انتقام رکھنے کے باوجود اسے معاف کر دوں۔“ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو جملہ خصوصیات کے ساتھ تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر اس دارِ فانی میں مبعوث فرمایا تھا۔

رسولِ عربی ﷺ کے اہم واقعاتِ زندگی: ولادت مبارکہ 12ربیع الاول۔ بعشتِ نبوی: 610ئ۔ معراج شریف: 27رجب۔ ہجرتِ مدینہ: 27صفر۔ مدینہ میں آمد: 622ئ۔ غزوہ بدر: 17رمضان المبارک بروز جمعہ 2ہجری۔ غزوہ اُحد: 6شوال 3ہجری۔ غزوہ خندق: 28شوال 3ہجری۔ صلح حدیبیہ: ذی القعد ۶ہجری۔ حکمرانوں کے نام خطوط: یکم محرم الحرام 7ہجری۔ فتح خیبر: (غزہ خیبر) 628ئ۔ عمرہ القضائ: ذی القعد 7ہجری۔ غزوہ حنین: 11شوال 8ہجری۔ غزوہ طائف: 13شوال 8ہجری۔ غزوہ تبوک: رجب تا رمضان 9 ہجری۔ حجتہ الوداع: 9ذالحجہ 11ہجری۔

آپ ﷺ کا انصاف:آپ ﷺ پیغمبر ہونے سے پہلے ہی انصاف کرنے کی وجہ سے ملک بھر میں امین مشہور تھے۔ رسول اللہ ﷺ انصاف کے معاملے میں کسی کی رعایت نہ کرتے تھے چاہے آپ کا عزیز سے عزیز کیوں نہ ہو۔ مکہ اور مدینہ کے لوگ آپ ﷺ کو نبی تع نہیں مانتے تھے لیکن وہ بھی آپ ﷺ ہی سے فیصلہ کرواتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی تو رسول اللہ ﷺ کے پاس لوگ فیصلے کے لئے آئے۔ چوری ثابت ہوگئی تو آپ ﷺ نے اسلامی قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ بڑے بڑے سرداروں نے چاہا کہ یہ بڑے گھرانے کی عورت ہے۔ اس کی سفارش کرکے اسے بچائیں۔ ایک صحابی ؓ رسول اللہ ﷺ سے سفارش کرنے کے لئے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ” تم اللہ کی مقرر کی ہوئی باتوں میں سفارش کو دخل دیتے ہو۔“

آپ ﷺ کی فضیلت: حضرت مطلب بن ابی وداعہ فرماتے ہیں کہ عباس بن عبد المطلب ؓ رسولِ اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے گویا کہ وہ (قریش وغیرہ سے ) کچھ سن کر آئے تھے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ لوگوں نے عرض کیا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، آپ ﷺ پر سلامتی ہو۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ ” میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو ان میں سے بہترین لوگوں سے مجھے پیدا کیا۔ پھر دو گروہ کئے اور مجھے ان دونوں میں سے بہتر گروہ میں سے پیدا کیا پھر ان کے کئی قبیلے بنائے اور مجھے ان میں سے بہترین قبیلے میں پیدا کیا۔ پھر ان میں سے کئی گھرانے بنائے ان میں سے بھی بہترین گھرانے میں مجھے پیدا کیا۔ اسی طرح بہترین ذات میں بھی“ (ترمذی شریف، باب 1752ماجد فی فضل النبی )

ہر نبی کی ایک دعا جو ضرور قبول ہوتی ہے: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔” ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے تو ہر ایک نبی علیہ السلام نے جلدی کرکے وہ دعا مانگ لی (دنیا ہی میں) اور میں یعنی حضرت محمد ﷺ نے اپنی دعا کو چھپا کر رکھا ہے قیامت کے دن اپنی اُمت کی شفاعت کے لئے اور اللہ چاہے تو میری شفاعت ہر ایک اُمتی کے لئے ہوگی بشرطیکہ وہ شرک پر نہ مرا ہو۔“ (مسلم شریف باب قول النبی )

بارہ ربیع الاوّل کو ہم سب مسلمان نبی آخرزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت کا چشن بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ آج بھی مخالفین باہیں پھیلائے اس جشن کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں مگر اہلِ مسلم اس دن کو شاندار طریقے سے مناتے ہیں اور جلوس بھی نکالا جاتا ہے۔ چراغاں بھی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ آج سے بہتر دن بھلا کوئی اور دن کیسے ہو سکتا ہے جب ہمارے نبی ¿ آخر زماں اس دنیا میں تشریف لائے۔ اس مضمون میں اگر کہیں کوئی غلطی یا خامی سر زد ہوگئی ہو تو راقم بدست معافی کا خواستگار ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 340905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.