گِرِہ منتری جی !ابھی گِرَہیں کہاں کھلیں؟

جے پور میں کانگریس کی چنتن بیٹھک کے دوسرے دن 20جنوری کو جب مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا: ”ہمیں رپورٹ ملی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں اپنے شِوِروں میں دہشت گردی کو بڑھاوا دےتے ہیں۔سمجھوتہ ایکسپریس ، مکہ مسجد، مالیگاﺅں وغیرہ کے دھماکوں میں بم انہوں نے ہی رکھوائے “ تو ہمیں کچھ حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہ بات دنیا کو برسوں سے معلوم ہے۔ البتہ اس بات پر حیرت ہوئی کہ مرکزی وزارت داخلہ کو یہ حقیقت اب معلوم ہوئی؟ مسٹر شندے مہاراشٹراکے وزیر اعلا رہ چکے ہیں۔ اسی ریاست کے دولائق پولیس افسران، شہید ہیمنت کرکرے اورمسٹرا یس ایم مشرِف نے یہ نشاندہی پانچ سال قبل کردی تھی۔ آنجہانی کرکرے نے مالیگاﺅں بم دھماکہ 2008 کی از سر نو تفتیش کے دوران سنگھیوں کے ان کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کیا تھا اور مسٹر مشرِف نے ممبئی دہشت گرد حملہ سازش کاتجزیہ کرتے ہوئے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”کرکرے کے قاتل کون؟“ میں ہندستان میں دہشت گردی کے اصل چہروں کو بے نقاب کیا تھا۔ یہ کتاب مسٹر شندے کے پیش رو مسٹر پی چدمبرم کے ہاتھ میں کم از کم دو مرتبہ دی گئی ۔ اس کے مراٹھی سمیت کئی زبانوں میں متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں (ناشر: فاروس میڈیا، نئی دہلی 25)۔ امید ہے کہ وزارت داخلہ کی لائبریری میں موجود ہوگی۔اس کے باب 11 ”آئی بی کے خلاف چارج شیٹ“ میں یہ نشاندہی بھی موجود ہے کہ دہشت گردی کی سازش میں ہماری جانچ ایجنسیوں کا رول کس قدر بھیانک ہے۔وزیر داخلہ صاحب اس کو بھی ملاحظہ فرمالیں تواس عفریت کے کئی اور گوشے ان پر کھل جائیں گے جن کا ذکر اس رپورٹ میں نہیں ہو گا جس کا حوالہ انہوں نے دیا ہے۔

مسٹر شندے نے اپنے بیان میں خانہ ساز دہشت گردی میں سنگھیوں کے رول کے اعتراف کے ساتھ یہ کہہ کر: ”انہوں نے بم رکھے اور الزام اقلیت پر لگادیا“ دراصل اس منحوس مہم میں خود اپنی وزارت، خفیہ ایجنسیوں، پولیس اور میڈیا کے رول کی پردہ پوشی کی ہے۔ سنگھیوں نے توجو کچھ کیا، سو کیا، قوم کو یہ بھی بتایا جائے کہ ہر دہشت گرد حملے کے بعداورپہلے خفیہ ایجنسیوں، انسداد دہشت گردی سیل کے افسروں اور مقامی پولیس نے کیا رول ادا کیا؟ واردات ہونے سے پہلے خفیہ ایجنسیاں بے خبر کیوں رہتی ہیں اور واردات ہوتے ہی آناً فاناً ان کو ساری تفصیلات کیسے منکشف ہوجاتی ہیں؟ کس طرح بے قصوروں کو تھوک میں گرفتارکیا گیااور ان کے خلاف فرضی ثبوت بناکرجیلوں میں ٹھونس دیاگیا۔ ہرچند بعد میںکچھ ملزمان طویل مدت جیلوں میں کاٹ کر عدالتوں سے بری ہوگئے مگر درجنوں آج بھی قید ہیں ۔ ان کے معاملات پر اس اعتراف کے باوجود نظر ثانی نہیںکی جارہی ہے کہ’ بم سنگھی دہشت گردوں نے رکھے، بدنام اقلیت کو کیا گیا۔‘ ان میں سے ایک ایک ملزم کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کردئے گئے تاکہ بے قصور ہونے کے باوجود ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جیلوں میں عمر گزار دیں۔

ہرچند کہ سنگھیوں کے تار ہر چھوٹے بڑے سرکاری دفتر سے جڑے ہیں اور سنگھ کی تربیت یافتہ زہر آلود ذہنیت کی گرفت انتظامیہ پر بڑی مضبوط ہے مگریہ بھی تو پتہ چلے کہ اس مذموم مہم کے دوران شندے صاحب اور ان کی پارٹی کی سرکاروں ، خصوصاً مہاراشٹرا سرکار اور اس کی پولیس کا کیا رول رہا ؟ اوراب جب کہ یہ بات پہلے ان کے پیش رو چدمبر م صاحب کی اور اب ان کی زبان پرآہی گئی ہے ،تو پھر ان بے قصور مسلمانوں کی گلو خلاصی کےلئے کیا ہورہاہے جوسالہا سال سے جیلوں میں قید ہیں اور مقدموں میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے؟ شندے صاحب یہ بھی بتائیں کہ ایک پوری قوم کو بدنام کرنے اور سینکڑوںبے قصوروں کو پھنسانے میں ملوّث پولیس اور خفیہ ایجنسیوں میں سنگھیوں کے ایجنٹوں کے خلاف وہ کیا تادیبی اقدامات کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اور پھر سنگھی وزیر داخلہ مسٹر آڈوانی کے دور میں دہشت گرد ی کے الزام میںسیمی پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اور جس کو یوپی اے سرکار متواتر بڑھاتی چلی جارہی ہے، اس کے تدارک کی کیا تجویز ہے؟

بیشک شندے صاحب کے اس اعتراف سے ایک گونہ تسلی ہوئی ہے کہ ان کودوسرے پیش رو جناب شیو راج پاٹل نے یہ وطیرہ اختیار کررکھا تھا کہ جہاں کوئی واردات ہوئی انہوں نے بغیر کسی تحقیق مسلمان نام کی کسی تنظیم کایا افراد کا ہاتھ بتا دیا۔ سنہ 2001 میں سیمی پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد سے پولیس اور خفیہ ایجنسیوںکو ہر واردات میں سیمی کا ہاتھ نظر آنے لگا تھا ، بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ملک میں خانہ ساز دہشت گردی شروع ہونے کے بعد سے مالیگاﺅں دھماکوں میںسادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر اور دیگرسنگھیوں کی گرفتاری تک، ہر معاملہ میں سوائے مسلم نوجوانوں کے کسی اور کا ہاتھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔لیکن کیا کانگریس رہنما سمجھتے ہیں کہ سنہ 2014 کے انتخاب میں فائدہ اٹھانے کے لئے یہ آدھا ادھورا اعتراف کافی ہے اور تقریباً نوسال سے مرکز میں برسر اقتدار یوپی اے کو ان سب گناہوں کے لئے نہ تواظہار ندامت کی ضرورت ہے اور نہ بے قصوروںکی فوری رہائی اورمتاثرین کی بازآباد کاری ضروری ہے؟ شندے صاحب !زبانی جمع خرچ بہت ہوچکا،کبھی سچر کمیٹی، کبھی مشرا کمیشن کبھی رزرویشن کا جھانسا، اب کچھ کام ہوگا تو بات بنے گی۔

شندے صاحب کے اس بیان سے کوئی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوجائے کہ ان کے تحت سرکاری ایجنسیاں جو سنگھی ایجنڈہ کو بروئے کار لانے میں اصل آلہ کار تھیں اپنی روش میں انصاف پسندانہ اصلاح کرلیں گیں، کیونکہ ان کو معلوم ہے یہ بیان آئندہ سال بعض اسمبلیوں اور لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر انہوں نے ایک کانگریسی لیڈر کی حیثیت سے دیا ہے۔ جب وہ نئی دہلی آکرنارتھ بلاک میں وزارت داخلہ کے اپنے آفس میں فروکش ہونگے تو بھول جائیں گے کہ انہوں نے 20جنوری کو جے پور میں کیا کہا تھا اور اس کے تقاضے کس طرح پورے کئے جائیں گے؟ یہ طرز عمل کچھ جناب شندے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اقلیتوں کے معاملات میں کانگریس کا یہی رویہ رہاہے۔ ہرچند کہ کانگریس سیکولر ہونے کا دعوا کرتی ہے مگر اس کی حکمرانی سنگھ پریوار کی بی ٹیم کے ہم پلہ ہے۔سنگھی ہندتووا کا نعرہ لگاتے ہیں تو کانگریس کا ایجنڈانرم رو ہندتووا ہے۔ آئینی نقطہ نظر سے ہمارا ملک بیشک ایک آئڈیل سیکولر ملک ہے مگر عملاً کانگریس نے اس کو ایک برہمن وادی ہندو راشٹرا بناکر رکھا ہے۔

اس بیان پر فطری طور سے سنگھ پریوار چراغ پا ہے ۔ بنیادی وجہ تو یہ ہے ہم جس کو دہشت گردی کہتے ہیں وہ ان کی نظر میں عین قوم پرستی ہے۔ ان کی قوم پرستی کا تقاضا یہ ہے کہ اندرون ملک مسلمانوں کو اور بیرون سرحدپڑوس کے مسلم ممالک کو زیر کرکے رکھا جائے۔ اسی لئے کہا گیا کہ وزیر داخلہ ایک قوم پرست تنظیم کو بدنام کررہے ہیں۔ البتہ دہشت گردی کو ہندوؤں سے یا بھگوا رنگ سے منسوب کرنا سخت زیادتی ہے۔ ہندو قوم فطری طور سے تشددپسند نہیں ہے۔ بھگوا رنگ مذہبی علامت ہے اور اس کا تعلق فسادیوں سے نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ اس لئے دہشت گردی کو ہندوؤ ں یا بھگوا رنگ سے منسوب کرنے پرہم اسی طرح احتجاج کرتے ہیں جس طرح ’اسلامی دہشت گردی‘ کی گمراہ کن اصطلاح پرکیا جاتا ہے۔ اس کو صرف’ سنگھی دہشت گردی‘ کہنا چاہئے۔اصل وجہ اس کی یہ نہیںکہ چند سنگھی اس میں ملوّث پائے گئے ہیں بلکہ یہ ہے کہ سنگھی آئڈیالوجی دہشت گردانہ اور متعصبانہ بنیادوں پر قائم ہے، اسی لئے سنگھی قائدین کو ہٹلر اور اسرائیل میں بڑی کشش نظرآتی ہے۔

لیکن سنگھ کا یہ اعتراض مہمل ہے کہ اس اعتراف سے کچھ بیرونی طاقتوں کو ہم پر ہنسنے کا موقع مل گیا ۔ بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ دیسی دہشت گردی کی وارداتوں کے تار خفیہ ایجنسیوں میں بیٹھے سنگھی ذہنیت کے افسران پڑوسی ممالک سے جوڑتے رہے اور اصل مجرموںکو بچاتے رہے۔ اب جب ایک حقیقت نکھر کر سامنے آرہی ہے توشرمندہ قوم کو نہیں، ان حکام، صحافیوں اور سیاست دانوں کو ہونا چاہئے جو جھوٹ اور فریب کے طوفان اٹھاتے رہے۔ مسٹر شندے کے اس اعتراف کا مطلب ہرگز یہ بھی نہیںکہ غیرملکی دہشت گردی کو کلین چٹ مل گئی ہے۔ کشمیر میں ہزارہا بے قصوروں کو جو خون بہا اس کے لئے بیشک سرحد پار کے سازشی بھی ذمہ دار ہیں جن میں سرکاری اور غیر سرکاری سبھی ایکٹر شامل ہیں۔

سنگھ لیڈروں کا یہ کہنا کہ اگر ہمارے کچھ’ سابق‘ کارکنوں نے کوئی جرم کیا ہے تو سرکار ان کے خلاف کاروائی کے لئے آزاد ہے اور اس کا الزام تنظیم پر رکھنا غیر واجب ہے، قطعاً ناقابل قبول ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے سنگھ کے کارکنوںکاکہیں کوئی باضابطہ اندراج نہیںہوتا کہ کسی کااخراج کیا جاسکے اور وہ ’سابق‘ ہوجائے۔ سنگھ ممبر سازی نہیںکرتا بلکہ ذہن سازی کرتا ہے۔ذہین نوجوانوں کو جس فسادی نظریہ کی گھٹی پلائی جاتی ہے اس میں طبقاتی اور مذہبی منافرت بھری پڑی ہے ۔ ان کوایک طبقہ کے خلاف تشددکے لئے تیار کیاجاتا ہے، انسانوں کو قتل کرنا سکھایا جاتا ہے ۔ایک مدت تک فسادات میں اس ہنر کو آزمایا جاتا رہا، پھر کچھ کارکنوں کو دہشت گردی کی چھوٹ دیدی گئی۔ سنگھیوں کی نظر میں اس طرح کے تشدد کو عیب نہیں بلکہ ’ہندوﺅں کا پراکرم‘ اورراشٹر پریم قرار دیا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اپنے قیام کے دن سے ہی سنگھ کا طریقہ کاریہ ہے کہ اس کے کارکن جو کچھ فتنہ فساد برپا کرتے ہیں، اس کی ذمہ داری سنگھ خود قبول نہیں کرتا بلکہ اسے ”ہندوؤں کا کارنامہ “ قرار دیتا ہے۔ یہ ایک حکمت عملی ہے جس کوسنگھ کے ایک ممتاز نظریہ ساز اور سیاسی رہنما دتوپنت ٹھینگڈے جی نے اپنی ایک تقریر میںواضح کیا ہے جو” ہندو مانسکتا“عنوان سے سروچی پرکاشن، کیشو کنج، دہلی نے شائع کی ہے۔( کیشو کنج ،سنگھ کے مقامی صدر دفتر کا نام ہے) ۔ناگپور میں 1927 کے فساد کے حوالے سے بڑے فخر سے لکھتے ہیں مسلمانوں کو اتنی مار دی کہ وہ سر نہیں اٹھا سکے۔ یہ اسی لئے ممکن ہوا کہ 1925میں ڈاکٹر ہیڈ گوار نے سنگھ قائم کیا ، یہ سب اسی گُٹ کی وجہ سے ممکن ہوا، مگر ڈاکٹر جی نے کہا کہ یہ ہندوﺅں کا پراکرم ہے، اس کو سنگھ نے ’اون‘ نہیں کیا۔ سنگھ کی یہی حکمت عملی ہے۔جو کچھ کرتے ہیں سنگھ کے کاریہ کرتا کرتے ہیں، سنگھ خود کچھ نہیں کرتا۔ (خلاصہ صفحہ 2اور 3 )

اس تقریر میں مسٹر شندے نے صرف بی جے پی اور آر ایس ایس کے تربیتی کمپوں کاذکر کیا ہے، حالانکہ ان کو بجرنگ دل، رام سینا، وی ایچ پی وغیرہ کا ذکر بھی کرنا چاہئے تھا جو تشدد پسندی کو فروغ دیتی ہیں اور ہندستان کے آئین کی بنیادوں کے خلاف کام کرتی ہیں۔بہر حال اب دیکھنا یہ ہے ان کا یہ بیان صرف اخباروں کی زینت بن کر رہ جاتا ہے یا اس کی مطابق کچھ عمل بھی ہوتا ہے۔ (ختم)
Syyed Mansoor Agha
About the Author: Syyed Mansoor Agha Read More Articles by Syyed Mansoor Agha: 226 Articles with 163212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.