12ربیع الاول کو پورے عالم اسلام
میں حضور نبی کریم ﷺکی ولادت کا دن بڑے جوش و جذبے اورمذہبی عقیدت و احترام
سے منایا جا تا ہے۔ دنیابھر کے مسلمان اس دن بڑا اہتمام کرتے ہیں ۔اپنے
اپنے شہر اور گاؤں کے مساجد ،گھراور گلیاں تک سجائی جاتی ہیں ۔شام کو مساجد
کے ساتھ ساتھ مسلمان اپنے گھر وں پر لائٹنگ کراتے ہیں۔ کیونکہ اس دن اللہ
تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کو اس دنیا میں بھیجا۔مساجد اور گھروں میں قرآن
خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
یہ کائنات جس ہستی کے لیے بنائی گئی وہ ہیستی حضرت محمد ﷺ 12ربیع الاول
632ھ (20اپریل 571ئ) کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام
عبداللہ تھاجو آپ کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے پھر آپﷺکی پرورش آپ کے
دادا عبد المطلب نے کی۔ آپ ﷺ کی والدہ کا نام حضرت آمنہ تھا۔ جب آپ ﷺچھ برس
کے تھے توآپ کی والدہ کا انتقال پر ملال ہو گیا۔ جب آٹھ برس کے تھے توآپ ﷺ
کے دادا بھی وفات پاگئے۔ اسکے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے چچا ابو
طالب کے کاندھوں پر آگئی۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا کے ساتھ بصرہ اور شام کے کئی
تجارتی سفر کئے۔ بارہ سال کی عمر میں جب آپﷺ تجارت کے سلسلے میں ملک شام
گئے تو وہاں ایک عیسائی راہب بحیرہ نے آپ کو دیکھا تو آپ کے چچاابو طالب کو
بتایا کہ نبوت کی جو علامات تورات اور انجیل میں درج ہیں وہ آپ کے بھتیجے
یعنی آپﷺ میں موجود ہیں۔ جب آپ کی عمرپندرہ برس ہوئی توآپ نے جنگِ فجار میں
حصہ لیا۔
آپﷺ جب پچیس برس کے ہوئے تو آپ ﷺکا نکاح حضرت خدیجہ ؓ سے ہوگیا جو ایک بیوہ
تھیں اوران کی عمر چالیس سال تھی۔ آپﷺ بہت دیانتدار اور امین تھے جب آپ ﷺ
چالیس برس کے ہوئے تو ایک دن حسبِ معمول غارِ حرا میں عبادت کر رہے تھے کہ
اللہ تعالیٰ نے فرشتہ جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے آپﷺ کو نبوت کے منصب
پر سرفراز کیا۔
اسلام سے قبل عرب کا دور جاہلیت کا دور تھا۔ اہلِ عرب اگرچہ اکثر اَن پڑھ
اور جاہل تھے مگر علم نجوم اور طب کے علم پر عبور رکھتے تھے۔ حضور نبی کریم
ﷺ کو جب نبوت ملی تو سب سے پہلی آیات یہ نازل ہوئیں۔(ترجمہ) پڑھ اپنے رب کے
نام سے۔ جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ وہ جس نے انسان کو وہ
باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں۔نبی کریم ﷺ نے ان آیات کو دہرایا۔ آپﷺ
نے نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں احکامِ الہٰی کی تبلیغ کا آغاز کیا۔
آپﷺ پیغمبر ہونے سے پہلے ہی انصاف اور دیانتداری کی وجہ سے ملک بھر میں
صادق وامین کے لقب سے مشہور تھے۔ حضور اکرم ﷺ انصاف کے معاملے میں کسی سے
رعایت نہ کرتے تھے چاہے آپ کا عزیزکیوں نہ ہو۔ عرب کے لوگ آپﷺ کو نبی
تونہیں مانتے تھے لیکن وہ فیصلے آپسے کرواتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عورت چوری
کرتے ہوئے پکڑی گئی تووہ لوگ فیصلے کے لیے رسول اللہﷺ کے پاس لئے آئے۔ چوری
ثابت ہوگئی تو آپﷺ نے اسلامی قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر
فرمایا۔ عرب کے بڑے بڑے سرداروں نے چاہا کہ یہ بڑے گھرانے کی عورت ہے۔ اس
کی سفارش کرکے اسے بچائیں۔ ایک صحابیؓ رسول اللہﷺ سے سفارش کرنے کے لئے آئے
تو آپ نے فرمایا: ” تم اللہ کی مقرر کی ہوئی باتوں میں سفارش کو دخل دیتے
ہو۔“
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا۔” ہر نبی کی
ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے تو ہر ایک نبی علیہ السلام نے جلدی کرکے
وہ دعا مانگ لی (دنیا ہی میں) اور میں یعنی حضرت محمدﷺ نے اپنی دعا کو چھپا
کر رکھا ہے قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے اور اللہ چاہے تو میری
شفاعت ہر ایک امتی کے لئے ہوگی بشرطیکہ وہ شرک پر نہ مرا ہو۔“
آج پورے عالم اسلام میں رسول اکرمﷺ ،پےغمبر انسانےت ،رُوحِ ایماں ، شانِ
کائنات اورسراپا نور کے پیکر میں ڈھلے حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت
کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ہر طرف آمد رسول کے نعرے لگ رہے ہیں مگرمیرا سوال
ان لوگوں سے ہے جو رسول اکرم ﷺ کی آمد پر تو جشن منا رہے ہیں مگر کبھی ان
کی سنت پر عمل کیا؟ کیا کبھی ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی کوشش کی؟
جن چیزوں سے آپ ﷺ نے منع فرمایا کیا ہم لوگ اس سے دور رہے ؟ ہم جتنی خوشی
اور جوش کے ساتھ یہ جشن مناتے ہیں کا ش اسی جوش و جذبے کے ساتھ ہم اپنے
پیارے آقا حضرت محمدﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے پوری دنیا میں
اسلام کا بول بالا کردیں۔ دنیا سے برائی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں۔ تمام
مسلمان ایک کتاب اور ایک نبی کے سائے میں اکٹھے ہوجائیںتاکہ ہم غیر مسلموں
کو بتا سکیں کہ ہم ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں ۔اس طرح کسی غیر
مسلم کی مسلمانوں کی طر ف آنکھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوگی۔
میری اس دن کے موقع پر اپنے رب العزت اورمالک کائنات سے یہی دعا ہے کہ تما
م دنیا کے مسلمانوں کو نیکی کی ہدایت دے اور برائی سے ہمیشہ دور رکھے۔تمام
مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور قیامت کے حضوراکرم ﷺ کی شفاعت سے بہر مند
فرمائے۔ |