ارشاد باری تعالی میں حضور سید
المرسلین ﷺ کو وسیلہ اختیار کرنے کا حکم: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ولو انھم
اذظلمواانفسھم جاءوک فاستغفرواللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ
توابارحیما ( سورة النساءآیہ نمبر 64) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم
کریں تو اے محبوب ( ﷺ) تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ تعالی سے معافی
چاہیں اور رسول انکی شفاعت فرمائیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے
والامہربان پائیں۔
اس ارشاد خداوندی میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ گناہ چونکہ اللہ تعالی
کی نافرمانی ہے جسکے نتیجہ میں عذاب الہی ہوگا ، جسم کو اس سے اذیت ہوگی
اور اس اذیت میں بندے نے اپنے جسم کو خود مبتلا کیا جو ظلم کرنے کے زمرے
میں آگیا۔ اللہ تعالی اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے کہ اپنے بندوں کو اپنے
عذاب سے بچنے کا راستہ بتایا۔ غور فرمائیں کہ گناہ کرنے کے بعد یہ نہیں
فرمایا کہ فورا مسجد میں جاکر میرے حضور سجدہ ریز ہوجاﺅیا کوئی اور عمل خیر
اس گناہ کا تریاق بتایا۔ بلکہ فرمایا کہ اس ذات اقدس ﷺ کے حضور حاضر ہوجاﺅ
جو میرا محبوب ہے اور تمہارا حقیقی خیر خواہ ہے۔ جسکی سندخیر خواہی ہے
ارشاد ربانی ہے، حریص علیکم با لمﺅمنین رﺅف رحیم۔ تم نے میری نافرمانی کرکے
میرے غضب کو دعوت تو دیدی اب اگر میرے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے حقیقی
خیر خواہ اور محسن اعظم ﷺ کے حضور جاکر گڑگڑاﺅ، رونا دھونا کرو،تمہاری آہ
وزاری میرے رحم دل محبوب ﷺ دیکھیں گے تو رحمة للعلمین ﷺ کی رحمت جوش میں
آئے گی۔ اور وہ ہمارے حضور تمہاری سفارش فرمائیں تو تم اپنے اللہ کو بخشنے
والا مہربان پاﺅگے۔ سرکار عالمیں ﷺ کو اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کے لیئے
شفیع اعظم کا درجہ عطا فرمایا۔ حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سب کچھ
تو اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ مگر اسکے باوجود پرعظمت
اختیارات اپنے محبوب ﷺ کو منتقل فرمائے تاکہ مخلوق کو معلوم ہوجائے کہ جو
یہاں سے ہو وہ وہاں سے ہو، یہی ذات والا تو مرکز رضائے الہی ہے۔ سرکار
عالمین ﷺ کی سچی محبت اور آپکا احترام اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنے محبوب ﷺ
کی عظمت و رفعت کے بارے کسی قسم کے شکوک و شبہات کو دلوں میں ہرگز ہرگز جگہ
نہ دیں ۔ جان لیں کہ احکامات الہی پر عمل آپ ﷺ کے وسیلہ سے ہی ممکن ہوا۔
اعمال صالحہ آپ ﷺ نے سکھائے اس میں بھی آپ ﷺ کی ذات پاک وسیلہ ہے۔ دعا اور
استغفار کی قبولیت بھی آپ ﷺ کے ذریعہ اور وسیلہ سے ثابت ہے۔ تمام تر عبادات
کے جاندار اور صحت مند برائے قبولیت بارگاہ الہی میں آپ ﷺ کی ذات اقدس کا
دھیان اور وجود اس طرح ہے جس طرح جسد خاکی میں جوہر روح۔ عبادات الہی عمل
کے طریقے ہیں ۔ انسان کو سمجھنا چاہیئے کہ جب ہماری عبادات کی قبولیت صرف
آپ ﷺ کے بتائے ، سکھائے یا کیئے ہوئے طریقے سے ہٹ کر ادا نہیں ہوسکتی تو
دعا و استغفار آپکے وسیلہ کے بغیر کیسے قبول ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ہے کہ اللہ
پاک سمیع و بصیر اور حی و قیوم ہے اگر کوئی انسان آپ ﷺ کو وسیلہ اختیار
کیئے بغیر اللہ پاک سے دعا و استغفار کرے تو بلا شبہ اللہ پاک اسے سنتا ہے
مگر یہ سننا توجہ اور پیار سے نہیںاس لیئے کہ براہ راست مطلب براری کی کوشش
کی ۔ لھذا مقصود حاصل نہ ہوا۔ بعض جاہل کہ دیتے ہیں کہ کیا اللہ ہماری نہیں
سنتا ؟ سنانے کا طریقہ اختیار کریں۔ اللہ کے سننے میں کوئی شک نہیں مگر
مسئلہ تو یہ ہے کہ عبادات اور استغفار اللہ تعالی سننے کے بعد قبول فرمائے
اور بندے کا دامن مراد اپنی نعمتوں سے بھر دے۔ دنیا اور آخرت میں جو
بھلائیاں ہم چاہتے ہیں اللہ تعالی ہمیں وہ سبھی عطا فرمائے۔ توحید اسی کا
نام ہے کہ بلا چوں و چراں احکم الحاکمین کے حکم پر دل و جان سے سر تسلیم خم
کردیا جائے۔ چوں و چراں ابلیس کا وطیرہ ہے۔ جس سے مسلمان کو حذر واجب ہے۔
سنن ابن ماجہ شریف صفحہ 100 باب ماجاءفی صلاة الحاجة میں حدیث شریف ۔ عن
عثمان بن حنیف ان رجلا ضریر البصر اتی النبی ﷺ فقال ادع لی ان یعافینی فقال
ان شئت اخرت لک وھو خیر وان شئت دعوت فقال ادعہ فامرہ ان یتوضا ء فیحسن
وضوہ فیصلی رکعتین ویدعوبھذاالدعا اللھم انی اسلک اتوجھ الیک بمحمد نبی
الرحمة یا محمد انی قد توجھت بک الی ربیفی حاجتی لتقضی اللھم فشفعہ فیقال
ابو اسحق ھذا حدیث صحیح۔ مفہوم: سنن ابن ماجہ صحاح ستہ میں سے ہے۔ حضرت
عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار عالمین ﷺ کی بارگاہ میں
ایک شخص ضریرالبصر(جسکی بصارت جا چکی تھی یعنی نابینا تھے) آیا اور عرض کی
کہ اللہ پاک سے میری تکلیف دور کرنے کے لیئے دعا فرمائیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایااگر تو چاہے تو اس کو میں تیری آخرت کے لیئے کردوں اور وہ تیرے لیئے
زیادہ بھلا ئی ہے اور اگر تو چاہے تو میں تیرے لیئے دعا کردیتا ہوں۔ اس نے
کہا دعا فرمائیں۔ پس آپ ﷺ نے اسے حکم فرمایا کہ اچھی طرح وضوکرو اور دو
رکعت نماز ادا کرو کرواور پھر یہ دعا مانگو، اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا
ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں بوسیلہ محمد نبی رحمت ﷺ کے یا محمد صلی
اللہ علیک یا رسول اللہ بلاشک و شبہ آپکے وسیلہ جلیلہ سے اپنے رب کے حضور
ملتجی ہوتا ہوں۔ اے اللہ پس تو آپ ﷺ کے وسیلہ سے میری حاجت مجھے نواز دے۔
آپ ﷺ نے دعاﺅں کا طریقہ سکھایا۔پوری امت کی رہنمائی فرمادی کہ اللہ پاک سے
میرا نام لے کر دعا کروگے تو تمہاری دعائیں قبول ہونگیں جیسا کہ سید نا
امیر المومنین عمر فارو ق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک دعا کے اول و
آخر میں درود شریف نہ پڑھا جائے دعا زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتی ہے۔
اس حدیث پاک میں رسول پاک ﷺ کا ارشاد حکم ہے جو وجوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس
حدیث پاک کو طبرانی اور کئی محدثین نے بھی روائت کیا ہے۔ صحابہ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں قسم ہے اللہ کی ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے
باتیں کررہے تھے کہ ہمارے پاس وہ آئے گویا کبھی اندھے تھے ہی نہیں۔
حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کا آپکے وسیلہ سے طلب باراں کرنا:مختصر سیرة
الرسول تالیف الشیخ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب اردو ترجمہ صفحہ نمبر
38ابن عساکر ، جلہمہ بن عرفطہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مکہ مکرمہ
آیا، اس وقت وہاں سخت قحط پڑا ہوا تھا ۔ لوگ سخت پریشان تھے۔ قریش ابو طالب
کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ، ملک میں قحط پڑگیا ہے اور بال بچے
بھوکوں مر رہے ہیں۔ خدا کے لیئے آیئے اور بارش کی دعا کیجیئے چنانچہ ابو
طالب ایک چاند سے نوجوان کو لے کر نکلے، جیسے وہ ابھی ابھی سیاہ بادل کے
حلقے سے برآمد ہوا ہو۔ اسکے اردگرد اور لڑکے بھی تھے۔ ، خانہ کعبہ میں پہنچ
کر ابو طالب نے اس نوجوان کی کمردیوار کعبہ سے لگا دی اور بارش کی دعا کے
لیئے اپنی انگلی کے ساتھ اسکی طرف اشارہ کیا، اس وقت آسمان صاف تھا اور
کہیں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر نہیں آتا تھا ، اس کی دعا کا یہ نتیجہ ہوا
کہ چاروں طرف سے بادل گھر آئے اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ میدانوں میں
سیلاب آگیا اور شہر اور جنگل سرسبز و شاداب ہوگئے۔ اس کے متعلق ابو طالب نے
اپنا مشہور شعر کہا ہے۔۔۔ وابیض یستسقی بوجھہ ۔ ثمال الیتمی عصمة للارامل
ترجمہ: وہ روشن رو ہے، اس کے چہرے کے سبب بادل سے بارش کی دعا کی جاتی ہے،
یتیموں کی جائے پناہ اور بے کسوں کا سہاراہے۔
کیا سرورعالمین ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد بھی آپکے توسل سے دعا کرنا لازمی
ہے؟
آیہ : ولوانھم اذظلموا انفسھم جاﺅک ۔۔۔۔کی تفسیر مولانا الشاہ نعیم الدین
مراد آبادی نے صفحہ 129 پر یوں فرمائی:
کہ سرور کون و مکاں ﷺ کے وصال شریف کے بعد ایک اعرابی روضہ اقدس پر حاضر
ہوا اورروضہ پاک کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ
ﷺ جو آپنے فرمایا ہم نے سنااور جو آپ ﷺ پر نازل ہوا اس می یہ آئت بھی ہے
ولو انھم اذظلموا ۔ میں نے بے شک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ ﷺ کے حضور
میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا تومیرے رب سے میرے گناہ کی
بخشش کرایئے ۔ اس وقت قبر شریف سے ندا آئی کہ تیری بخشش کی گئی۔اہل ایمان
کے دل فوراحق بات کو قبول کرتے ہیں۔ قبر اطہر سے جو ندا آئی وہ آقائے
کائنات شفیع المذنبین ﷺ کی تھی اور آپنے فرمایا کہ تیری بخشش کردی گئی۔ اس
واقعہ کو متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا اور سنا۔ انکے
ایمان کو مزید استحکام ملا۔ ائمہ کرام نے یہاں سے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ
اللہ تعالی کی ب ارگاہ میں عرض حاجت کے لیئے مقبولوں کو وسیلہ بنانا ذریعہ
کامیابی ہے۔ قبر پر جانا بھی جاﺅک میں داخل ہے اور خیرالقرون کا معمول رہا
ہے کہ بعد وفات مقبولان حق کو یا کے ساتھ ندا کرنا جائز ہے۔ اللہ کے مقبول
بندے مدد فرماتے ہیں اور انکی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔
بعض علما نے لکھا ہے کہ اذان کے بعد دعا میں جو کہا جاتا ہے : اے اللہ! اس
اذان کے نتیجہ میں کھڑی ہونے والی نما کے رب حضرت محمد ﷺ کو وسیلہ، فضیلت
اور بلند درجہ عطا فرمااور ان سے کیئے ہوئے وعدہ کے مطابق انہیں مقام محمود
پر رونق افروز کراور قیامت کے روز ہمیں ان کی شفاعت عطا فرما بلاشبہ تو
اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا ۔ اس دعا سے بض کج فہم یہ سمجھتے ہیں کہ
ہمارے دعاﺅ کے نتیجہ میں جناب رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالی وسیلہ اور شفاعت
یا دیگر بلند درجے عطافرمائے گا۔ در حقیقت یہ کلمات دعائیہ حضور نبی کریم ﷺ
کے حضور خیرخواہی اور احسان مندی کا اظہار ہے۔ جو دعا کرتا ہے وہ دراصل آپ
ﷺ کے فرمانبرداروں اور احترام کرنے والوں میں شامل ہوکر آپ ﷺ کی شفاعت
کاحقدار بنتا ہے۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ حضور ﷺ ہماری دعاﺅں کے محتاج
ہیںتو وہ آپکے وسیلہ سے محروم ہیں۔ ان درجات کا آپ ﷺ کو عطاہونا بروز محشر
کی قید نہیں اس روز تو مخلوق خدا شان ختم المرسلین ﷺ کے جلوے دیکھے گی ۔
رہا یہ کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو آپکی کی تخلیق کے ساتھ ہی جملہ صفات و
کمالات سے متصف کردیا۔ عطائیگی کا عمل یکبارگی ہوا اور اظہار کمالات و زور
نبوت حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔ ہر آن و ہر
لحظہ مخلوق شان مصطفوی ﷺ کے عجائب و غرائب سے مستفیذ ہوتی رہے گی۔ جمیع
انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو اللہ تعالی نے نے انکی ارواح طیبات کی
تخلیق کے ساتھ ہی جملہ مراتب ، فضائل اور کمالات سے نوازاجو دائمی ہیں اور
کبھی بھی ان میں تعطل نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے کہ لا تبدیل لکلمات
اللہ (القرآن) جیسا کہ اس آئت میں اللہ تعالی کا فرما ن ہے:
واذ اخذ اللہ میثا ق النبیین لما اتیتکم من کتب وحکمة ثم جاءکم رسول مصدق
لما معکم لتﺅمنن بہ ولتنصرنہ قال ءاقررتم و اخذتم علی ذلکم اصری قالوا
اقرنا قال فاشھدوا وانا معکم من الشاھدین (سورة آل عمران آیہ ۔ 81)
مفہوم:اور یاد کرو جب اللہ تعالی نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم
کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں
کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد
کرنا۔ فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض
کی ہم نے اقرار کیا فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاﺅ اور میں آپ تمہارے
ساتھ گواہوں میں ہوں۔
اس آئت مبارکہ کو یوم ازل کا میثاق کہا جاتا ہے۔ اس آئت کی تفسیر اور اسرار
و رموز بوجہ طوالت تحریر کرنے کا موقع نہیں لیکن چند ایک اہم نقاط جو
موجودہ موضوع سے متعلق ہیں انکی وضات ضروری ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ
تعالی نے انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کی تخلیق بطور انبیاءکرام فرمائی
اور خصوصیات نبوت رسالت کے مراتب سے سرفراز فرمایا۔ یہاں بعض کج فہموں کے
ان اقوال کا بطلان ہوگیا کہ جو کہتے ہیں نبی کو عمر کے فلاں سال نبوت عطا
کی گئی۔نبوت تو تخلیق روح کے ساتھ ہی عطا کی گئی عمر کے فلاں سال بعثت ہوئی
اور اعلان نبوت کا حکم ہوا۔ دوسرا نقطہ یہ کہ اللہ نے لفظ نبیین فرمایایعنی
تمام انبیاءکرام علیہم الصلو والسلام ۔ ابھی تک تو سیدنا آدم علیہ السلام
کی تخلیق جسمانی ہی نہ ہوئی تھی۔ لیکن اللہ تعالی کامل اشخاص سے عہد لے
رہاہے جس سے معلوم ہوا کہ انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کا وجود جسم
خاکی کا محتاج نہیں۔ وہ اس وقت بھی کامل تھے اور دنیامیں تشریف آور ی پر
بھی کامل ہیں۔ جسم اور روح کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ۔ اتنی محکم شہادت کہ
اللہ تعالی خود بھی شاہدین میں شامل ہوگئے۔ یہاں واقعہ کے پس منظر میں
مہتمم باالشان ہستی کا وجود آشکارا ہے جس سے جملہ انبیاءکرام علیہم الصلوة
والسلام بخوبی آگاہ تھے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کے فرمان پر اللہ تعالی
سے اس ذات اقدس کے وجود بارے استفسار نہیں فرمایا۔ ان حضرات میں سب کے باپ
ابو البشر علیہ السلام بھی ہیں۔ کئی الوالعزم صاحب کتاب و شریعت بھی ہیں۔
لیکن ان تمام حضرات سے اللہ تعالی نے صرف ایک بات فرمائی کہ جب آپ لوگ دنیا
دارالعمل میں جائیں اور کتاب و حکمت آپ کو مل جائے تو پہلا فریضہ جو آپ نے
سرانجام دینا ہے وہ میرے حبیب پاک ﷺ پر ایمان لانا اور انکی اطاعت گزاری
کرنا ہے۔ لفظ نصرت فرمایا جسکا مفہوم بڑا وسیع ہے ۔ تمام انبیاءکرام علیہم
الصلوة والسلام کو ذکر حبیب ﷺ بلند کرنے کا فریضہ سونپ دیا گیا۔ جس میں
کمال ادب و احترام کو بھی ملحوظ رکھا گیا۔ سلسہ نبوت نوع انسانی کی ہدائت
کے لیئے شروع ہوا تو انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام نے اپنی امتوں کے
سامنے سیدالانبیاء ﷺ کے فضائل و کمالات بیان فرمائے اور انہیں آپ ﷺ کی نصرت
کرنے کی تاکید بھی فرماتے رہے۔ معلوم ہوا کہ جمیع انبیاءکرام علیہم الصلوة
والسلام کو تاجہائے نبوت ورسالت پیارے آقا حضرت محمد مصطفے ﷺ کی اطاعت
گزاری اور خدمت کے عطا ہوئے۔ اس لاظ سے اپ ﷺ انکے لیئے بھی وسیلہ ہیں۔
اگر نام محمد را نیاوردی شفیع آدم ۔ نہ آدم یافتی توبہ نہ نوح از غرق نجینا
جب اتنی عظیم اور معصوم ہستیاں آپ ﷺ کا وسیلہ اختیار فرماتی ہیں تو ہم آپ ﷺ
کے امتی گناہوں کے بارگراں تلے دبے ہوئے اس بات کی زیادہ ضرورت رکھتے ہیںکہ
آپ ﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے رب کریم کو پکاریں اور بخشش ومغفرت کی درخواستیں
پیش کریں۔
جب سیدنا حضرت آدم علیہ السلام جبل رحمت پر کھڑے ہوکر اللہ کو پیارے محمد ﷺ
کا واسطہ دے کر معافی مانگتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں معاف فرمادیتا ہے۔
(تفسیر شاہ نیعم الدین مراد آبادی صفحہ 12۔ خازن، طبرانی،حاکم ابونعیم اور
بہیقی مرفوعا حضرت علی مرتضے کرم اللہ وجھہ)
اس فقیر حقیر ناچیز کواللہ تعالی نے بطفیل نبی المختار ﷺ اپنے در درفشاںپر
حاضر ی کا شرف عطا فرمایا۔ ۷ اگست 2012ءکو میں دولت کدہ شاہ شہاں ﷺ کی طرف
روانہ ہوا۔ دربان نے اندر جانے سے روکا تو میں نے کہا کہ مطالعہ کتب کے
لیئے اندر جانا ہے ۔ اس نے جانے دیا درود شریف کا ورد کرتے ہوئے اپنے مقدر
پر نازاں و فرحاں تھا کہ میں اس مقام پر آچکا ہوں جو کائنات کے آقا ﷺ کے
رونق افروز ہونے کا شرف رکھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم فقیروں پر آپ ﷺ کی
نوازشات کیا ہوں گی؟ سبحان اللہ! چونکہ میں وسیلہ کے موضوع پر مواد اکھٹا
کررہا ہوں ۔ اس بارے غیب سے میری مدد ہوتی ہے۔ ادھر ادھر کتب کو دیکھتا
رہا۔ میز پر پڑے ایک رسالہ کو کھولا تو مجھے اپنے مطلب کی تائید میں مواد
مل گیا:
علامہ محمد بن علی شوکانی مصنف ہیں الدرالنضدید فی اخلاص کلمة التوحید کے
صفحہ نمبر 25 پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز استسقاءکا واقعہ اور حدیث
ضریر تحریر ہیں۔ یہ حوالہ جات اوپر درج کرچکا ہوں۔ صفحہ نمبر ۶۲ پر لکھا ہے
التوسل : امام دارالہجرہ سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ سے المنصور العباس
عباسی خلیفہ نے پوچھا ؛ کیا نبی کریم ﷺ کی قبر کی طرف منہ کرکے دعا جائز
ہے؟ حضرت امام صاحب نے فرمایا فقال لہ ولم تصرف وجھک عنہ وھو وسیلتک ووسیلة
ابیک آدم علیہ السلام الی اللہ عزوجل یوم القیمة( فرمایا کہ تو اپنا منہ
انکی طرف سے نہ پھیر کیونکہ وہی تیرا وسیلہ ہیں اور تیرے باپ حضرت آدم علیہ
السلام کا روز قیامت اللہ پاک عز و جل کے حضور وسیلہ ہیں۔ یہ پڑھ کر تائید
غیبی پر یقین میں اضافہ ہوا۔ اور ساتھ بیٹھے ایک عرب بھائی سے ورق لیا اور
قلم بھی اسی سے لیکر دن کے کے بارہ بج رہے تھے جب یہ حوالہ لکھا۔ سبحان
اللہ صلوا علی الحبیب الذی خاتم النبیین ۔ الصلوة والسلام علیک یا سیدی یا
رسول اللہ وعلی آلک واصحبک یا رحمة للعلمین۔
وسیلہ اختیار کرنے کا حکم:
سورة المائدہ آئت نمبر 35 یایھا الذین آمنوا اتقوااللہ وابتغواالیہ الوسیلة
وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون۔
مفہوم : اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اسکی طرف وسیلہ ڈھونڈھواور
اسکی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاﺅ۔
ہدائت و فلاح کے متلاشی کے لیئے یہ آئت وسیلہ کے بارے واضح حکم دے رہی ہے۔
خطاب اہل ایمان سے ہے سرکار عالمین ﷺ کے ۔ قرآن حکیم کی آئت مبارکہ قل ان
کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہوتو
میری پیروی کرواللہ تمہارے ساتھ محبت فرمائے گا۔ آپ ﷺ کی اتباع اور آپ کی
تابعداری اللہ کی محبت کی نشانی ہے۔ تابعداری کے طریقے ، راستے، معرفت ،
شریعت ، حقیقت، ذکر و فکر، تفقہ فی الدین سبھی کچھ آپ ﷺ کی عنائت کریمہ ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اعمال آپکی ﷺ کی تعلیم کے مطابق ادا کیئے جائیں
لیکن آپ ﷺ کا خیا ل مبارک نہ آئے ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ جب آپ ﷺ نے
فرمایا کہ من صام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ( جس نے
رمضان کا روزہ رکھا ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ تو اسکے گزشتہ گنا ہ
معاف کردیئے جائیں گے) اب سوچیئے کہ روزہ رکھتے ہوئے مسلمان کیا سوچے گا؟
جب نیت کرے گا روزہ رکھنے اور کھولنے کی تو آقا کریم ﷺ کی سکھائی ہوئی
دعائیں پڑھے گا، جب دائیں ہاتھ سے کھائے گا۔ قدم قدم پر سرکار کا ہی خیال
آئے گا۔جب نماز کے لیئے وضو کرے گا تو سر کار ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر کرے
گا ۔ جب نما کے لیئے کھڑا ہوگا تو کانوں تک ہاتھ اٹھائے گا، ہاتھ باندھے گا
تو یہی سوچ کر کہ میرے آقا ﷺ نے اس طرح یہ عمل ادا فرمایا ۔ پس تو رکوع و
سجود میں بھی آپ کی طرف خیال جائے گا۔ اور آخری قعدہ میں السلام علیک
ایھاالنبی کہتے ہوئے آپ ﷺ کا ہی خیال اگر نہ آیا تو نماز ہرگز نہ ہوگی۔ اب
رہا مسئلہ اعمال کا توسورة الحجرات آیہ نمبر ۲ کا مفہوم : اے ایمان والو!
اپنی آوازیں اونچی نہ کرواس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور انکے حضور
بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلا تے ہو کہ کہیں
تمہارے عم اکارت نہ ہوجائیں۔) جملہ عبادات ادب و احترام مصطفے کریم کے ساتھ
درجہ قبولیت رکھیں گی۔ تو یہ بات درست ہوئی کہ اصل الاصول بندگی اس تاجور
کی ہے۔ جس نے آپ ﷺ کو وسیلہ نہ بنایا تو اللہ اسے ہدائت نہیں دیتا۔ ایک
صحابی آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیک
وسلم میرے پاس نماز ، روزہ، حج ، زکوة اور دوسرے اعمال صالحہ نہیں تو میری
بخشش کس طرح ہوگی ہاں میرے پاس ایک دولت ہے کہ میں آپ ﷺ سے محبت کرتا ہوں ۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ تجھے محبت
ہے۔ جن اعمال میں خلوص اور حب رسول نہیں ہوگی وہ اعمال مردود ہونگے۔اعمال
کی مقبولیت آپ ﷺ کے وسیلہ سے ہی ممکن ہے۔ جیسا کہ درود شریف کی فضیلت میں
بیان آتا ہے۔ وسیلہ بمعنی سہارا بھی ہے اور سہارا پناہگاہ بھی ہے ۔ میرے
آقا کریم علیہ الصلوة والتسلیم لوگوں کا سہارا اور بلاشبہ ایسی پناہ گاہ
ہیں کہ انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام بھی یہیں آکر دم لیں گے۔
آپ ﷺ کا تمام جہانوں کے لیئے رحمت ہونا:
ارشاد باری تعالی ہے: وما ارسلنک الا رحمة للعالمین ( سورة الانبیاء آئت
نمبر 107)اے محبوب ﷺ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا
ہے۔
جہان جتنے بھی ہیں ان کا خالق و مالک اور پالنے والا اللہ وحدہ لاشریک ہے ۔
پالنے میں شفقت و محبت کا جوہر لازمی اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان اپنی
کامیابی ، فلاح اور بھلائی کے حصول کے لیئے کسی کی ہمدردی کا محتاج اور
طالب رہے گا وگرنہ معصیت میں گرفتار ہوکر غضب الہی کا شکار ہوگا۔ اللہ رب
العزت نے تمام جہانوں کو اپنی رحمت سے بھر دیا اور اسکی رحمت اسکے غضب پر
غالب آگئی۔ یہ عظمت والی ذات سیدالمرسلین ﷺ ہیں۔ ان لوگوں کی اس بات کا
بطلان ہوگیا جنہوں نے کہا کہ آپ وسیلہ یا شافع بروز محشر ہونگے جبکہ اس
دنیا میں آپکو اختیار نہیں۔آپ ﷺ اپنی تخلیق مبارک کے بعد سے ہمہ وقت رحمت
ہی رحمت ہیں۔ کائنات کی ہر چیز آپ ﷺ سے خوب مانوس ہے۔ آپ ﷺ کی رحمت نے اللہ
کے غضب کو روکا ہوا ہے ۔ رحمت کا یہ فیض کوئی طلب کرے یا نہ کرے جاری و
ساری ہے۔ کیونکہ مذکورہ آئت کا اطلاق استمراری ہے جو تمام زمانوں کو محیط
ہے۔ انسانی فہم و ادراک اور تحقیقات کی جولانیاں اگرچہ عروج پر ہیں مگر
ابھی تک تعدد عالمین کے بارے جواب نفی میں ہے۔ ذرا دیکھو تو ایک نطفے اور
خون سے وجود میں آنے والاانسان کس قدر جامے سے باہر ہے کہ اللہ تعالی کی
رحمت عامہ سے خود تو محروم ہے ہی دوسروں کو بھی رسول کریم علیہ الصلوة
والتسلیم کی محبت و شفقت سے محروم کرنے کے درپے ہے۔ العیاذ باللہ۔ اے اللہ
تو ہمیں اپنے محبوب ﷺ کی محبت و شفقت سے کبھی بھی ذرا بھر محروم نہ کرنا۔
آپ ﷺ رحمت کاملہ ہیں اور دائمی ہیں کہ ہمہ وقت موئثر ہے۔ کوئی حاجتمند کسی
وقت اپنے رب سے سے اپنی حاجات کی تکمیل کے لیئے دعا کرتا ہے تو بغیر رحمت
الہی کے دعا قبول نہیں ہوسکتی۔ اسی لیئے دعا کے اول و آخر آپ ﷺ پر درود
شریف کا ورد کرکے طالب رحمت ہوتا ہے۔ جن لوگوں کا ایمان ہے کہ آپ ﷺ رحمة
للعلمین ہیں تو وہ آپکے توسل سے اللہ کی جملہ نعمتوں سے متمتع ہوتے ہیں۔رہا
یہ مسئلہ کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالی نے جب سراپا رحمت بنایا تو آپ ﷺ کا اللہ کے
بندوں کے کیساتھ برتاﺅ اور سلوک ہے۔ یہ امر بڑا اہم ہے کیونکہ خالق کائنات
اپنی جملہ کائنات کو حسین اور خوشگوار دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکے روبرو بندے
انتہا درجے کی نافرمانیا ں کرتے ہیں تو ایسے میں ان پر عذاب و عتاب ہوجائے۔
پھر تو دنیا جہنم بن جائے۔ مگر اس رحیم و کریم نے سیدالانبیا ء ﷺ کو رحمة
للعلمین بنادیا اور یوں آپ ﷺ رحمت عالمین ہوکر اللہ کی تمام مخلوق کےلیئے
امن و سکون اور خوشحالی کا سہارا بن گئے۔ آپکے اس مرتبے پر خود کلام الہی
گواہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولوکنت فظاغلیظ القلب لا نفضوا من حولک فاعف
عنھم فاستغفر لھم وشاور ھم فی الامر( سورة آل عمران آیہ 159)
مفہوم: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے نرم دل ہوئے
اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرورتمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم
انہیں معاف فرماﺅاور انکی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو( مشورہ
کے لفظ کا بے ادب سہارا لیتے ہیں انہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ پاک
نے یہ الفاظ محض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حوصلہ افزائی
کےلیئے فرمائےورنہ آپ ﷺ مخلوق میں سے کسی کے مشروں کے محتاج نہیں)۔ آپ ﷺ
لوگوں کی خطاﺅں کو درگزر فرماتے اور صرف یہی نہیں بلکہ خود رب ذوالجلال نے
ارشاد فرمایا کہ ہمارے حضور انکی سفارش بھی کرتے رہو۔ |