(لڑکے لڑکیوں اور والدین کے لیے)
رو حانی و جسمانی قو ت کی کمی
نوجوان ذہنی طور پر مفلو ج ہو گئے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو اپنے
ما ں با پ کا سہا را ہی نہیں بننا بلکہ ملک و ملت کی تعمیر و تر قی ، بقا
اور دفا ع کی ذمہ داری بھی انہیں ہی سنبھالنی ہیں ۔ اسلام ایسے دور میں
داخل ہو گیا ہے جہا ں اسے تاریخ کے سب سے بڑے خطر ے کا سامنا ہے ۔ مگر
ہمارے نو جوان جسمانی اورروحانی لحا ظ سے اتنے طاقتور نہیں کہ غیر مسلم
قوتوں کا مقابلہ کر سکیں ۔ جسمانی اور روحانی قوت کی جتنی ضرورت آج ہے ، وہ
اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آئی تھی۔
نفسیا تی خلفشا ر اور جذبا تی گھٹن کی زیادتی
پاکستان اور اسلام کو اس عظیم خطرے سے بچانے والے بوڑھے نہیں نوجوان ہو ں
گے ۔ شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو نوجوان ہی اپنے لہو سے روشن رکھیں
گے ۔ حق کی آوا ز کو مسجد کے لاﺅڈ سپیکر نہیں بلکہ یہ نوجوان بلند کریں گے
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں کویہی نوجوان زندہ رکھیں گے ،
مگر جب ہم ان خطو ط کو پڑھتے ہیں جو نوجوان ہمیں لکھ رہے ہیں تو دل پر ہیبت
طاری ہو جا تی ہے کہ ان نوجوانوں کے اندر جو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ،
صلا ح الدین ایو بی رحمتہ اللہ علیہ ، محمد بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ
اورمحمود الدین غزنوی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ، وہ نفسیاتی خلفشار اور جذباتی
گھٹن کا شکا ر ہو کر دماغی اور جسمانی لحا ظ سے معذور ہو گئے ہیں اور مجمع
لگانے والے حکیم ، دکانوں میں بیٹھے ہوئے نیم حکیم ان نوجوانوں کی مردانگی
کو دہشت ناک الفا ظ ، فریب کا را نہ باتو ں اور خالص افیون کی گولیوں سے
جنہیں انہو ں نے مجر ب نسخو ں کا نام دے رکھا ہے ، بیمار اور دیمک خوردہ
بنا رہے ہیں ۔ ہم اخبا رو ں میں خو د کشی کی اس قسم کی خبریں پڑھتے رہتے
ہیں کہ ایک آدمی نے گھریلو جھگڑو ں سے تنگ آکر خود کشی کر لی ہے ۔ یہ صرف
ہم لو گ جانتے ہیں کہ اصل گھریلو جھگڑا کیا تھا ۔ اسے نہ مرنے والا بیان کر
تا ہے نہ مر نے والے کی بیوہ زبان پر لا تی ہے ۔ طب اور نفسیات کے ڈاکٹر
معاشرے کے را ز دان ہیں ۔ ہمارے پاس خاوند بھی آتے ہیں اور بیویاں بھی ۔
باپ بھی اور ان کے جوان بیٹے بھی ، ما ئیں بھی اور ان کی بیٹیا ں بھی ، اور
یہ سارے مریض ہمیں ہمدرد اور ہمرا ز سمجھ کر دل کے سارے ہی را ز اور
الجھنیں ہما رے حوالے کر دیتے ہیں ۔ ہم آج انہی رازو ں اور الجھنو ں کی
روشنی میں با ت کر رہے ہیں ۔
ماہنامہ عبقری پر اعتما د
” ماہنامہ عبقری “میںروحانی، طبی اور نفسیا تی آرٹیکل شائع ہونے کے بعد نو
جوانوں نے بھی ہمیں اپنا ہمدرد اور ہمراز بنا یا ہے اور یہا ں تک لکھ دیا
ہے ۔ ”اگر آپ نے بھی میرا علا ج نہ کیا تو میں خود کشی کر لوں گا۔‘‘ تو ہم
پر فرض عا ئد ہو تا ہے کہ ہم لگی لپٹی رکھے بغیر قو م کو ایسی تبا ہی سے
بچا ئیں جس سے نہ والدین بچو ں کو آگا ہ کر تے ہیں نہ بچے والدین کو مدد کے
لیے پکا ر سکتے ہیں اور تبا ہ ہو نے والے چپ چاپ تبا ہ ہو ر ہے ہیں یا نیم
حکیمو ں اور فریب کا ر معالجو ں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں ۔اگر ہم یہ فرض ادا
نہیں کر تے تو ہم مسیحا نہیں مجر م ہیں ۔ ہم شرم و حجا ب کو الگ رکھ کر
زندگی سے منہ موڑنے والے نوجوانوں او ر ان کے والدین کو یقین دلا تے ہیں کہ
یہ کوئی سنگین مسئلہ نہیں جس سے گھبرا کر قوم کا کوئی نو جوان ہزاروں
خواہشوں ، سینکڑوں عزائم اور آرزوئیں دل میں لیے اس دنیا سے ہی اٹھ جائے ۔
ہم طب ، نفسیا ت اور فلسفے کی تکنیکی اصطلاحو ں پر بات نہیں کر یں گے ورنہ
بات عام فہم نہ ہونے کی وجہ سے الجھ جائے گی ۔ ہمارا مقصد علمیت کا اظہا
رنہیں بلکہ ایک عام ذہن کے قاری کو اصل مسئلہ ذہن نشین کرانا ہے ۔
نئی پو د کا اصل مر ض جنسی ہیجان ہے
یعنی تنہائی میں اپنے جسم سے اپنے ہا تھو ںسے جنسی ہیجان پیدا کرنا یہ عاد
ت لڑکو ں میں بھی ہوتی ہے اور لڑکیو ں میں بھی۔ اگر کوئی ما ں با پ یہ کہہ
کر مطمئن ہو جائیں کہ ہما را بچہ اس قبا حت کا عا دی نہیں تو وہ ایک خوفناک
خو د فریبی میں مبتلا ہیں ۔ طب اور نفسیا ت کے ماہرین کی یہ رپورٹ اور
تجزیہ غلط نہیں کہ ننانوے فی صد نوجوان ” جنسی ہیجان ‘ ‘ سے لطف اندوز ہو
تے ہیں اور با قی ایک فی صد وہ ہیں جو جھو ٹ بولتے ہیں ۔ ہم والدین کو
خوفزدہ نہیں کر نا چاہتے ۔ یہ حرکت اسی صورت میں تبا ہی کا با عث بنتی ہے
جب کوئی بچہ اس کا عا دی ہو جائے اور جب اس کی تمام تر توجہ اسی عا دت پر
مرکو ز رہتی ہے۔ خوفزدہ ہونے یا گھبرا نے کی کوئی بات نہیں ۔ ہم آپ کو چند
ایک ایسے طریقے بتائیں گے جن پر آپ نے یا آپ کے بچو ں نے عمل کیا تو جنسی
ہیجان سے نجا ت حاصل کر نا کو ئی مشکل نہیں ہو گا ۔ یہ مسئلہ کوئی ایسا
ٹیڑھا نہیں کہ والدین سر پکڑ کر بیٹھ جائیں یا کوئی نوجوان خود کشی کر لے۔
سب سے پہلے اس عادت کی تحریک اور پسِ منظر کو ذہن نشین کر لیں پھر اس کا
انسداد آسان ہو جائے گا ۔ (جا ری ہے )
عبقری سے اقتباس |