درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

برطانیہ میں ہر سات میں سے ایک شخص دائمی درد کا شکار ہے جس میں جوڑوں اور سر کے درد شامل ہیں۔
درد کم کرنے والی دواؤں یعنی ’پین کِلرز‘ کے باعث ہونے والی اموات گزشتہ دس برس میں تین گنا زیادہ ہو گئی ہیں

درد کا حل ایک گولی۔۔ ایک زمانے میں سر در کے علاج کے لئے ڈسپرین کے اشتہار کا یہ جنگل عام تھا۔ درد ایک ایسی علامت ہے۔ جو خود بیماری تو نہیں لیکن اس کی علامت کہی جاسکتی ہے۔ درد کہیں بھی ، کسی بھی وقت، کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ شاعر خود درد میں مبتلا رہے، کسی نے کہا درد کی دوا پائی، درد لا دوا پایا، تو کسی نے کہا ،، یہ درد کی دنیا ہے اِدھر دیکھ تو لے،، دل ویراں ہے، تیری یاد ہے، تنہائی ہے۔زندگی درد کی بانہوں میں سمٹ آئی ہے ۔ اقبال نے کہا دل درد سے خالی ہے ، نگہ پاک نہیں ہے
ساغر صدیقی نے کہا کہ ،،مدعا کچھ نہیں فقیروں کا۔درد ہے لا دوا فقیروں کا۔ لیکن یہ شاعروں والا درد نہیں ہے سچ مچ کا درد ہے۔

اب خواتین میں کمردرد کی بیماری عام ہوتی جارہی ہے.۔سر درد بھی ہمارے یہاں عام ہے۔ یہ نوعمر اور بالغ بچوں کی عام شکایت ہے، عالمی ادارہ صحت (WHO) نے درد سے نجات ایک انسانی حق تسلیم کیا ہے۔ کینسر اور آرتھرائٹس میں یا آپریشن اور زچگی کے بعد درد بیماری کا حصہ بن جاتا ہے۔ بڑھاپے میں درد کی شکایت عام ہے، ضعیف افراد بڑے پیمانے پر ایسی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جو گھٹنے اور پشت کے درد کا باعث ہوتی ہیں اور ان افراد میں کینسر اور فریکچر کے باعث سرجری کی شرح بھی زیادہ ہے۔ چوٹ یا بیماری کے خاتمے تک محض درد کی علامتوں میں عارضی آرام درکار ہوتا ہے تاہم بعض صورتوں میں درد برقرار رہتا ہے اور مسائل پیدا کرتا ہے۔ اس قسم کے مریض رفتہ رفتہ اپنے جسمانی معمولات کو ترک کرنا شروع کردیتے ہیں اور بالآخر بستر تک محدود ہو جاتے ہیں۔ بڑھاپے کے عوامل کی پیچدگیوں اور دیگر طبی مسائل کی موجودگی کے پیش نظر پٹھوں اور ہڈیوں میں ہونے والے معمولی سے درمیانے درجے کے مستقل درد کے لیے سادہ دافع درد دوائیں تجویز کی جاتی ہیں۔لیکن ان کے خطرناک اثرات پر توجہ نہیں دی جاتی۔امریکہ کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہیروئن اور کوکین کی نسبت اموات کی بڑی وجہ درد کم کرنے کی دواؤں کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے۔سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پروینشن (سی ڈی سی) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کی تجویز کردہ خوراک سے زیادہ دوا کھانے کے رحجان نے ایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہے اور درد کم کرنے والی دواؤں یعنی ’پین کِلرز‘ کے باعث ہونے والی اموات گزشتہ دس برس میں تین گنا زیادہ ہو گئی ہیں۔تاہم رپورٹ میں درج ہے کہ یہ دوائیں درد تو کم کرتی ہیں لیکن اس قدر نشہ آور ہیں کہ پچھلے سال امریکہ میں کیے گئے ایک سروے میں معلوم ہوا کہ بارہ سال سے زیادہ عمر کے ہر بیس افراد میں سے ایک فرد ان دواؤں کا غیر ضروری استعمال کرتا ہے۔’سبسٹنس ابیوز اینڈ مینٹل ہیلتھ سروسز ایڈمِنسٹریشن‘ نامی امریکی حکومتی ادارے کی پامیلہ ہائڈ کا کہنا ہے ’ہر روز تقریباً پانچ ہزار پانچ سو افراد درد کم کرنے والی دواؤں کا غلط استعمال شروع کرتے ہیں۔‘دوسری جانب ایک اور امریکی ادارے ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ انیس سو ننانوے سے لے کر اب تک دواخانوں کو ان دواؤں کی فروخت میں تین سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔"رپورٹ میں درج ہے کہ یہ دوائیں درد تو کم کرتی ہیں لیکن اس قدر لت آور ہیں کہ پچھلے سال امریکہ میں کیے گئے ایک سروے میں معلوم ہوا کہ بارہ سال سے زیادہ عمر کے ہر بیس افراد میں سے ایک فرد ان دواؤں کا غیر ضروری استعمال کرتا ہے۔ "لیکن سرکاری رپورٹ کے مطابق مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ دوائیں زیادہ خریدی جا رہی ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر ان دواؤں کے نسخے بھی پہلے سے زیادہ دے رہے ہیں۔سی ڈی سی کے تھامس فریڈن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’اس رپورٹ سے یہ واضح ہوا ہے کہ ریاستوں کو ان دواؤں کے متعلق پالیسیاں درست و تبدیل کرنی ہوں گی تاکہ ان کا غلط استعمال کم کیا جا سکے۔‘واضح رہے کہ سنہ دو ہزار آٹھ میں تقریباً پندرہ ہزار اموات صرف درد کم کرنے والی دواؤں کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ اور ہر برس یہ تعدا د بڑھ رہی ہے ۔کتنے لوگ اس سے متاثر ہیں؟ اس کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہے۔ اس مسئلے کی وسعت کے بارے میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔ ایک جرمن رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چار فیصد کے قریب لوگ اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ این آئی سی ای کی ہدایات جاری کرنے والے ماہرین کے مطابق ان کی تعداد دو فیصد کے قریب ہے۔میگرین سردرد کا عارضہ لاحق میں درد کش ادوایات کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کسی بھی دوا کی ضرورت سے زیادہ مقدار نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ لیکن دماغی امراض کے ماہروں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ دردکش ادویات کے زیادہ استعمال سے سردرد الٹا بڑھ کیوں جاتا ہے۔ شاید ان سے جسم کے درد کا مقابلہ کرنے کا نظام کے توازن میں خلل پڑ جاتا ہے۔مائیگرین کا علاج خاصا سخت ہے۔ اس کی شدت کم کرمے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم ایک مہینے تک تمام دردکش ادویات مکمل طور پر بند کر دی جائیں۔مریضہ فران سوین کو اس علاج سے گزرنا پڑا۔ انھیں کئی برسوں سے میگرین سردرد کا عارضہ لاحق تھا۔ انھیں احساس نہیں تھا کہ وہ ضرورت سے زیادہ دردکش ادویات لے رہی ہیں جو بیماری کو بدتر بنا رہی ہیں۔لیکن اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ کتنی ادویات ضرورت سے زیادہ ہیں؟ ڈاکٹروں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان مریضوں پر نظر رکھیں جن کی علامات دوا کے تین ماہ استعمال کے بعد بدتر ہو گئی ہوں دماغی امراض کے ماہرین (نیورولوجسٹ) کئی برسں سے ادویات کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہونے والے سردرد کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن صحت پر نظر رکھنے والی تنظیم این آئی سی ای کے مطابق بہت کم مریض اور ڈاکٹر اس کے بارے میں جانتے ہیں۔این آئی سی ای نے برطانیہ اور ویلز کے صحت کے اہل کاروں کو نئی ہدایات جاری کی ہیں، جو تمام دنیا کے ڈاکٹروں پر لاگو ہو سکتی ہیں۔ ڈیسری فلپز کی موت ایک ایسے ہی کیس میں ہوئی ۔اسے گزشتہ سال اگست میں جگر کے کام نہ کرنے کی تکلیف کی وجہ سے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ تحقیقات کے دوران ڈیسری کے دادا ڈیسمینڈ فلپز کا کہنا تھا کہ ڈیسری کی چھاتی میں گلٹیاں اکثر بن جایا کرتی تھیں جنہیں سرجری کے ذریعے نکالنا پڑتا تھا لیکن ان گلٹیوں میں کینسر نہیں تھا۔ ان سرجریوں کے بعد انہیں بہت درد ہوتا۔ ’تاہم ایسے میں وہ درد کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ پیراسیٹامول لے رہی تھیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ نتیجہ یہ نکلے گا۔’ڈیسری درد کو کم کرنے کے لیے پیراسیٹامول کا استعمال کر رہی تھیں اور شاید ضرورت سے زیادہ کر رہی تھیں۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی موت بہت ساری پیراسیٹامول ایک ساتھ لینے سے ہوئی ہے یا پھر یہ کافی عرصے سے بہت زیادہ لینے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ موت کا سبب دریافت کرنے والے اہلکار مارک لیٹن کا کہنا ہے کہ ڈیسری کی موت ضرورت سے زیادہ پیراسیٹا مول کے استعمال سے ہوئی ہے ۔ رپورٹ میں درج ہے کہ یہ دوائیں درد تو کم کرتی ہیں لیکن اس قدر نشہ آور ہیں کہ موت کا خظرہ بھی ہوسکتا ہے۔

گزشتہ دنوں امریکہ میں کیے گئے ایک سروے میں معلوم ہوا کہ بارہ سال سے زیادہ عمر کے ہر بیس افراد میں سے ایک فرد درد کش دواؤں کا غیر ضروری استعمال کرتا ہے۔’سبسٹنس ابیوز اینڈ مینٹل ہیلتھ سروسز ایڈمِنسٹریشن‘ نامی امریکی حکومتی ادارے کی پامیلہ ہائڈ کا کہنا ہے ’ہر روز تقریباً پانچ ہزار پانچ سو افراد درد کم کرنے والی دواؤں کا غلط استعمال شروع کرتے ہیں۔‘دوسری جانب ایک اور امریکی ادارے ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ انیس سو ننانوے سے لے کر اب تک دواخانوں کو ان دواؤں کی فروخت میں تین سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ دوائیں زیادہ خریدی جا رہی ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر ان دواؤں کے نسخے بھی پہلے سے زیادہ دے رہے ہیں۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں تقریباً پندرہ ہزار اموات صرف درد کم کرنے والی دواؤں کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہیروئن اور کوکین کی نسبت اموات کی بڑی وجہ درد کم کرنے کی دواؤں کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے۔

سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پروینشن (سی ڈی سی) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کی تجویز کردہ خوراک سے زیادہ دوا کھانے کے رحجان نے ایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہے اور درد کم کرنے والی دواؤں یعنی ’پین کِلرز‘ کے باعث ہونے والی اموات گزشتہ دس برس میں تین گنا زیادہ ہو گئی ہیں۔ ڈاکٹر درد کے خاتمے پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں دائمی درد کو ختم کرنے والی ادویات کا تجربہ کیا گیا۔ایک جریدے جرنل سائنس میں شائع کی گئی ریسرچ میں یونیورسٹی آف کیمبرج کے تحقیق کاروں تجربہ کے دوران ایچ سی این ٹو جین کو چوہوں کی درد کی نسوں سے نکال لیا۔ اس عمل کے بعد دائمی درد ختم ہوگیا تاہم فوری درد میں آرام نہیں آیا۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایسی دوا تیار کرنے کے امکانات ہیں جن کے ذریعہ ان پروٹین کی پیداوار کو روکا جاسکتا ہے جو ایچ سی این ٹو جین پیدا کرتے ہیں اور جو دائمی درد کا موجب بنتے ہیں۔نسوں کے آخری حصوں میں اس جین کی شناخت تو کئی برس پہلے ہوچکی تھی تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ یہ ہی دائمی درد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔دائمی درد دو اقسام کے ہوتے ہیں جن میں ایک انفلیمیٹری پین ہوتا ہے جس میں جلن کا احساس ہوتا ہے اور یہ کسی بھی قسم کے زخم لگنے یا جلنے سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم نیورپیتھک پین ہے جو نسوں کے دبنے یا نقصان پہنچنے پر ہوتا ہے اور یہ مستقل بلکہ عمر بھر رہتا ہے۔اس تحقیق کے کلیدی تحقیق کار پروفیسر پیٹر مک ناٹن کہتے ہیں ’اس جین پر کام کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے طبی عمل کے ذریعے ہٹانے یا بند کرنے سے نیورپیتھک پین ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ اچانک ہونے والے درد کو ختم نہیں کرتا۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحقیق کے لیے فنڈ بائیو ٹیکنالوجی اینڈ بائیو سائنس ریسرچ کونسل اور یورپی یونین نے فراہم کیے تھے۔کھلاڑی بھی درد کش ادویات استعمال کرتے ہیں۔ خاص طور پر نئے فٹبالرز سینیئر کھلاڑیوں کی پیروی کرتے ہوئے درد کش ادویات کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والے فٹبال ٹورنامنٹس کے لیے ہونے والے گزشتہ سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ متعدد کھلاڑی درد کش ادویات استعمال کرتے رہے ہیں۔جنوبی افریقہ میں سنہ دو ہزار دس کے فٹبال کے عالمی کپ کے نتائج برطانوی جنرل آف سپورٹس میڈیسن نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں جن کے مطابق اس دوران کھلاڑیوں نے سب سے زیادہ درد کش ادویات استعمال کیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ درد کش ادویات استمعال کرنے سے بلخصوص پیشہ ور کھیل کو خطرات ہو سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق کھیل کے دوران ان کھلاڑیوں کے گردے حسّاس ہو چکے ہوتے ہیں اور ایسے میں دوائیں انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیںفٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کے ایک طبی اہلکار نے بین الاقوامی فٹ بالرز کو خبردار کیا ہے کہ وہ ٹورنامنٹ کے دوران کسی بھی قسم کے درد کش ادویات لینے سے اپنی صحت کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔تین سال قبل جنوبی افریقہ میں ہونے والے فٹ بال کے عالمی مقابلوں کے دوران تقریباً چالیس فیصد کھلاڑی ہر میچ سے قبل دوائیں استعمال کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔ بہت سی خواتین چھاتی کے سرطان کے علاج کے لئے بھی درد کش ادویات استعمال کرتی ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ دردکش ادویات کے استعمال سے چھاتی کے سرطان کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ صحت عامہ کیلئے بوسٹن یونیورسٹی سکول کی ماہر سرجن لن روزن برگ کا کہنا ہے: ”میرا نہیں خیال کہ خواتین کو چھاتی کے سرطان سے بچنے کیلئے اسپرین استعمال کرنی چاہئے۔ اگر خواتین چھاتی کے سرطان سے فی الواقع بچنا چاہتی ہیں تو انہیں سخت ورزش کرنی چاہئے اور پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کرنا چاہئے۔ پاکستان میں ذیابیطس گردے خراب یا ناکارہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے بھی درد کش ادویات یا حکیموں کے کشتوں کا استعمال ہے۔ پاکستان میں ہر دس لاکھ افراد میں سے سالانہ 100 سے 150 افراد کے گردے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ درد کش ادویات اور حکیموں کے کشتوں کا بے دریغ استعمال گردوں کے ناکارہ ہونے کا سبب بن رہا ہے۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ حکیموں کے ”کشتوں“ سے ہرممکن پرہیز کریں، درد کش ادویات، دھاتوں کی آمیزش والے کشتے، گردوں کی پتھری اور موروثی بیماریاں گردے کے امراض کی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں درد کے علاج کے کلینکس اور باقاعدہ اعلیٰ تربیت یافتہ معالجوں کی کمی کے باعث ابھی تک اس طریقہ کار کا استعمال محدود ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ دنیا کی آبادی بڑھاپے میں مبتلا ہو رہی ہے اور بالغوں اور ضعیف العمر افراد میں درد کے علاج کی نمایاں ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں ہمیں درد کے اعلیٰ تربیت یافتہ معالجوں اور درد کے علاج اور دیکھ بھال کے کلینکس کی کمی کے باعث ضعیف العمر افراد کو درد میں آرام پہنچانے کے حوالے سے مخصوص چیلنج کا سامنا ہے۔ ہمیں ہرصورت میں ضعیف العمر افراد میں شدید یا مستقل درد کے بڑھے ہوئے خطرے سے واقف ہونا اور ان کمزور مریضوں کو درد میں مناسب آرام پہنچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419067 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More