مختلف ممالک کو آج کل مختلف
وائرس کی وجہ سے خطرناک وباﺅں کا سامنا ہے۔کبھی ڈینگی وائرس تو کبھی پولیو
وائرس، تو آج کل خسرہ وائرس نے معصوم زندگیوں کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کا
وحشت ناک سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔پاکستان کے علاوہ ترقی یافتہ یا غریب
ممالک میں وائرس کا پھیلاﺅ نہایت منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔شائد آپ کو یاد
ہو کہ 1997ءمیں برڈ فلو نامی وائرس نے تباہی مچا دی تھی ۔یہ وائرس پہلی بار
ہانگ کانگ میں دریافت ہوا، یہ مرغیوں اور دیگر پر ندوں کی بدولت دنیا بھر
میں پھیل گیااور سینکڑوں جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔اگر یہ انسان سے انسان کو
منتقل ہوتا تو بہت بڑی تباہی لا سکتا تھا ۔اس خطرناک وائرس کے حوالے سے
سائنس دانوں نے خاصی اہم معلومات حاصل کی لیکن ایسے خفیہ رکھا گیا کیونکہ
وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ تحقیق"دہشت گردوں"کے ہاتھ لگ گئی تو وہ اس کے
ذریعے ایسا خطرناک وائرس بم بنا سکتے ہیں جو کسی بھی انسانی آبادی میں ایٹم
بم سے زیادہ تباہی لاسکتا ہے۔امریکی حکومت نے سائنس دانوں کو تحقیقی نتائج
شائع کرنے پر پابندی عائد کرادی ۔بعض سائنس دانوں نے اس حکم پر اعتراض کیا
کہ اس کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ایک امریکی ماہر سمیات سٹیفن سیولر کہتے ہیں "میں
اس شیطان کو اس عفرےت پر ترجیح دونگا جسے میں نہیں جانتا"۔عمومی طور پر
سائنس کی تحقیقات کے حوالے سے نتائج منظرعام پر لائے جاتے ہیں تاکہ ماہرین
کے مختلف گروہ ایسے جانچتے، پرکھتے اور اپنے تحقیقی منصوبوں کی بنیاد رکھتے
ہیں۔ جس کی ایک مثال، 2004ءمیں سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے برڈ
فلو وائرس کے تمام دس جین کی معلومات معلوم کرلیں۔انھوں نے پھر پوری تحقیق
کے نتائج نیشنل لائبریری آف میڈیسن کی ویب سائٹ پر جاری کردئےے۔ وہ آج بھی
دستیاب ہیں۔لیکن یہ خطرہ بہرحال حقیقی ہے کہ وائرس ، جراثیم یا زہریلی
پھپوندی کے ذریعے دہشت گرد ہی نہیںبلکہ امریکہ یا روس بھی حیاتیاتی ہتھیار
بنا سکتے ہیں۔مثلا 2001ٰءمیں کسی نامعلوم شخص یا تنظیم نے خطوط کے ذریعے
آنتھرکس تحمُک پھیلا کر امریکہ میں دہشت گردی پھیلا دی تھی۔ یہ زہریلے
تحمُک موت کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔ اسی طرح 2002ءمیں یہ خبر سائنسی حلقوں
میں ہلچل مچا گئی کہ ایک امریکی ماہر سمیات ، ایرک ویمر نے لیبارٹری میں
مصنوعی طور پروائرس تیار کرلیا ہے۔یہی نہیں ایرک نے اس تالیفی پولیو وائرس
ہی کے ذریعے نئی اقسام بھی دریافت کیں۔اس کے علاوہ تشویش ناک صورتحال یہ
بھی ہے پچھلے چند برسوں میں لیبارٹریوں میں نت نئے وائرس بنانے کا خرچ بہت
کم ہوگیا ہے۔چنانچہ اب معمولی سرمائےے سے بھی حیاتیاتی انجیئنرنگ کا آغاز
ممکن ہے۔2004ءمیں امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ امریکی دشمن بھی حیاتیاتی
ہتھیار بنا سکتے ہیں چنانچہ امریکہ نے ایک مشاورتی سرکاری تنظیم ، نیشنل
سائنس ایڈوائزری بورڈ کی بنیاد رکھی جس میں جرثومیات ، سمیات اور حیاتیاتی
جنگ وجدل سے متعلق ماہرین کو شامل کیا گیا۔بورڈ کی ذمے داری تھی کہ دنیا
بھر میں جہاں بھی وائرس ، جراثیم اور الجی وغیرہ جو تحقیق ہو رہی ہو اس پر
نظر رکھیں۔وائرس کو ممالیہ فلو میں بدلنے کے لئے بھی ایک تحقیق ہالینڈ جبکہ
دوسری امریکی ویسنکونسن یونیورسٹی میں ہوئی ،تحقیقات میں برڈ فلو وائرس میں
کیمیائی تبدیلی پیدا کئے جانے کامقصود تھا ۔انھوں نے اپنی تحقیقات میں
وائرس سفیدنیولے پر استعمال کیں کیونکہ اس ممالیہ جانور کا بدن فلو وائرس
میں گرفتار ہونے کے بعد انسانی جسم سے ملتے جلتے ظاہر کرتا ہے۔یہ تحقیقات
خفیہ رکھی گئیں لیکن کچھ ماہرین سے زبانی افشا ہوگیا اس ضمن میں ولندیزی
محققوں کے سربراہ اور ماہر سمیات ، ران فوشیر نے سب سے زیادہ معلومات
دیں۔فوشیر نے برڈ فلو وائرس کے دو اہم جین کیمیائی طور پر تبدیل کردئے اور
اس نے پھر دو سفید نیولوں کے جسم میں یہ تبدیل شدہ فلو وائرس داخل
کئے۔کہاجاتا ہے کہ اگر اس ممالیہ فلو وائرس کو دنیا میں چھوڑا گےا تو یہ
اتنی خوفناک تباہی پھیلائے گا کہ ہسپانوی انفلوئزہ معمولی نظر آئےگا۔´کچھ
اس قسم کا ممالیہ فلو وائرس ویسکونسن یونیورسٹی کے محققوں نے بھی تیار
کرلیا ہے۔ان تحقیقات کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔قانونی طور پر
کوئی حکومت تحقیقات پر پابندی عائد نہیں کرسکتی لیکن خود سائنس دان جانتے
تھے کہ ان کا استعمال انسانیت کے لئے نہایت ہولناک ہوسکتا ہے اس لئے ماہ
جنوری 2012ءمیں دنیا بھرکے محققوں نے برڈ فلو پر ہونے والی تحقیق دو ماہ
کےلئے روک دی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے وہ جس بیماری کو انسان سے بچانا
چاہتے ہیں کہیںحادثاتی طور پر دنیامیں پھیل نہ جائے۔یا پھر دہشتگرد اس کا
فائدہ اپنے مذموم مقاصد کےلئے نہ کرسکیں۔انسان نے جدیدتریں ایسی لیبارٹری
لیس کی ہیں جس میں انواع و اقسام کے وائرس تخلیق کی جاتیں ہیں۔مختلف
ادوایات کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے بھی اپنے کاروبار کی وسعت کےلئے
ایسے وائرس پھیلائے جاتے ہیں جس سے وبا عام ہوجائے اور حکومت اس وبا
کوکنڑول کرنے کےلئے بھاری رقوم خرچ کرکے ویکسین حاصل کرتی ہے۔جو پہلے ہی
وائرس کی تیاری کے ساتھ بنا لی جاتی ہے۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ پہلے کسی
خاص شہر میں ایک مخصوص بیماری پیدا ہوتی ہے اور اموات کی کثرت پر میڈیا کے
ذریعے ایک ایسی سنسنی پیدا کردی جاتی ہے کہ ویکسین کے حصول کے سوا حکومت کے
پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا اور پھر بھاری فنڈزمختص کرکے ویکسین کی خریداری کی
جاتی ہے اور تشہر کے ذریعے آگاہی پیدا کرنے کی مہم میں ملٹی نیشنل کمپنیوں
کو اربوں روپوں کا فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہوتی ہے کہ جیسے
ہی ایک شہر میں اس وبا پر قابو پا لیا جاتا ہے تو یکایک دوسرے شہر میں
وائرس کی دوسری قسم متعارف کرادی جاتی ہے جس سے عوام میں بے تحاشا بیماری
پھیلتی ہے اور پھر وہی چکر دوبارہ چلایا جاتا ہے اور کروڑوں روپے خرچ کرکے
اس وائرس کی ویکسین حاصل کی جاتی ہے ، جیسے ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ٹارگٹ
پورا ہوتا ہے تو کچھ عرصے بعد ایک نئی بیماری پھیل جاتی ہے ۔یہ وائرس مافیا
کیجانب سے طے شدہ سلسلہ ہوتا ہے جس سے ان کا مقصد صرف اپنے ذاتی مفادات کے
سوا کچھ نہیںہوتا۔پولیو کی روک تھام میں ناکامی اور پروپیگنڈا کہ مصر میں
پاکستانی وائر س پایا گیا ، نیز خسرہ اورڈنگی وائرس کی وجہ سے قیمتی جانوں
کا ضائع ہونا ایک وائرس مافیا گیم کا حصہ ہے جس کی وجہ سے مخصوص عناصرفائدہ
اٹھا رہے ہیں۔حیاتیاتی جنگ ،ایٹمی جنگ سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے اور
دشمن اپنے مقاصد کےلئے کچھ بھی کرسکتا ہے کیونکہ جنگ میں سب جائز
ہے۔اورخدشہ یہی ہے کہ حیاتیاتی بم کا استعمال" کسی" بھی جانب سے خارج از
امکان وناممکن نہیں ہے۔ |