ایک اور “بی جے پی” خون پینے کیلئے تیار

بازار کا وقت ختم ہونے پر آتا ہے تو دکاندار دام گراکر بچا کھچا مال نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تمام “اسٹیک ہولڈرز” کے لیے یہی وقت ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ فائدہ بٹورنے کا۔ گاہک یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے سستا مال خرید کر بہت بڑا تیر مار لیا ہے۔ اور دکاندار خوشی سے پھولا نہیں سماتا کہ دن بھر میں سارا اچھا مال تو زیادہ منافع لیکر مزے سے فروخت کردیا اور اب کچرا مال بھی سستے کے چکر میں ہاتھوں ہاتھ جارہا ہے!

انتخابی عمل کے ذریعے ملنے والی پانچ سالہ میعاد ختم ہونے کو آئی ہے تو حکومت نے بھی رُکے اور پھنسے ہوئے غیر معیاری مال کا بورا کھول کر ہر “بھائی جان، مہربان، قدر دان” کے آگے رکھ دیا ہے۔ بچت بازاروں میں جب اسٹال سمیٹے جارہے ہوتے ہیں تب خواتین گرے ہوئے دام کا فائدہ اٹھانے کے لیے اندھا دھند خریداری کرتی ہیں اور اِسی عجلت میں دُکاندار اُنہیں آسانی سے ٹھگ لیتے ہیں۔ حکومت بھی نفسیات کے اِسی اُصول کا فائدہ اُٹھارہی ہے۔ پانچ برسوں میں ہماری راج دُلاری حکومت نے خود کو برقرار رکھنے کے لیے خیر سے تمام ہی علوم و فنون آخری حد تک بروئے لانے کی کوشش کی ہے اور نئے معیارات متعین کرنے میں کامیاب رہی ہے!

بہاول پور کی ریاست کے سابق حکمران (یا والی) عرصہ دراز سے بحالی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ دوسری طرف جنوبی پنجاب میں سرائیکی بولنے والے بھی اپنے روایتی و تاریخی خطے سرائیکی وسیب کو صوبے کا درجہ دلانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ حکومت کی میعاد ختم ہونے کو آئی ہے تو پارلیمانی کمیشن کو متحرک کرکے نئے صوبوں کا پینڈورا بکس کھولا جارہا ہے۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق بہاول پور اور جنوبی پنجاب کی مکس پلیٹ تیار کی جارہی ہے۔ حکومت نئے صوبے بنانے کی راہ پر یوں ٹہلتی گاتی گامزن ہوئی ہے جیسے یہ کوئی اشو تھا ہی نہیں اور اب تک خواہ مخواہ سرد خانے میں پڑا تھا! اِدھر اُدھر سے علاقے ملاکر نئے صوبے تشکیل دینے کی تیاری کی جارہی ہے اور اسٹیک ہولڈرز کو دعوتِ نظارہ دی جارہی ہے۔ بہ قول اقبال
بنتے ہیں مِری کار گہہِ فکر میں انجم
لے، اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان!
جنہیں اپنے مقدر کے ستارے کی تلاش ہے وہ تو
جو مل گیا اُسی کو مقدر سمجھ لیا
کے مصداق خوش اور مطمئن ہیں۔ جاتی ہوئی حکومت سے جو کچھ بھی مل جائے اُسے بھاگتے چور کی لنگوٹی سمجھ کر “آمنّا وصَدَقنا” کی گردان کے ساتھ قبول کیا جارہا ہے! جن کی مُراد پوری ہو رہی ہے وہ سارے غم بھول کر حکومت کی جے جے کار کر رہے ہیں اور جن کے ارمانوں پر پانی پڑتا دکھائی دے رہا ہے وہ آہ و بُکا میں مشغول ہیں۔

تحریک صوبہ ہزارہ کے روح رواں بابا حیدر زمان نے ہزارہ صوبہ نہ بنائے جانے کی صورت میں سول نافرمانی کی دھمکی دے دی ہے۔ پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئے صوبے کی آواز تو ہزارہ نے بلند کی مگر نوازا جارہا ہے بہاول پور اور جنوبی پنجاب کو۔ کہتے ہیں بڑھاپے میں انسان بچوں جیسا ہو جاتا ہے۔ بابا حیدر زمان میں بھی بچوں جیسی سادگی پھر فروغ پاگئی ہے۔ موصوف انتہائِ سادگی سے کہہ گئے کہ نئے صوبوں کا قیام حکمرانوں کے مفاد میں ہے!

نئے صوبوں سے متعلق پارلیمانی کمیشن کا اجلاس پیر کو چیئرمین فرحت اللہ بابر کی صدارت میں پھر ہوا۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے عبدالغفور حیدری نے اختلافی نوٹ لکھا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل ہزارہ صوبے کے قیام کا بھی عندیہ دیئے جانے پر واک آؤٹ کرگئے! “تخت لہور” والے تو خیر اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے! فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں فرمایا کہ نئے صوبوں سے متعلق معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیں۔ یعنی جیسا مانگو ویسا صوبہ آوے ای آوے!

بہاولپور متحدہ محاذ کے سربراہ محمد علی دُرانی کہتے ہیں کہ بہاول پور کے ساتھ جنوبی پنجاب کو ضم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ایسا کرنا دونوں علاقوں سے سنگین مذاق ہوگا۔ اگر دونوں کو ملاکر صوبہ بنایا گیا تو عوام سڑکوں پر آ جائیں گے۔ محمد علی درانی صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ عوام کو سڑکوں پر آنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ حکومت کی مہربانی سے فٹ پاتھ پر تو وہ آہی چکے ہیں!

سرائیکی اتحاد نے مجوّزہ “بہاول پور جنوبی پنجاب” (بی جے پی) صوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں بہاول پور کا ٹانکا قبول اور برداشت نہیں کیا جائے گا! سرائیکی اتحاد نے یہ صراحت نہیں کہ اِس ٹانکے کے حوالے سے مخمل کون ہے اور ٹاٹ کون قرار پایا ہے!

اُدھر میانوالی اور بھکر میں مقامی تنظیمیں اپنے علاقوں کو مجوّزہ صوبے “بی جے پی” میں شامل کئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِن علاقوں کو “بی جے پی” کے حوالے نہیں ہونے دیا جائے گا۔
“تخت لہور” کے حوالے سے بابر اعوان کے ہاتھوں غیر معمولی “شہرت” پانے والے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ بہاول پور اور جنوبی پنجاب کو ملاکر بنائے جانے والے صوبے کو آدھا تیتر، آدھا بٹیر ہی کہا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب غور فرمائیں کہ یہ اشتراک تو پھر بھی غنیمت ہے، پانچ برس سے ہم حکومت کے نام پر ایک ایسا سیٹ اپ رُر بہ عمل دیکھ رہے ہیں جو آں جہانی کشور کمار اور بھائی عمر شریف کے فارمولے کے تحت آدھا male اور آدھا female ہے!

کہیں سیکڑوں سائیکلیں کھڑی ہوں تو سب کو گرانے کے لیے ایک سائیکل کو گرانا کافی ہے۔ حکومت نے بھی مجوّزہ صوبے “بی جے پی” کے ذریعے ایسی ہی کوشش کی ہے۔
اِک چراغ کیا جلا، سو چراغ جل گئے!

نگراں سیٹ اپ کیسا ہونا چاہیے، عام انتخابات کو کس طرح زیادہ سے زیادہ شفاف بنایا جاسکتا ہے، پانچ برسوں کے دوران جو کچھ کیا اُس کا جائزہ عوام کے سامنے کس طرح پیش کیا جائے .... یہ تمام اُمور بالائے طاق رکھ کر ایک بار پھر ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینک دیا گیا ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے آخری سیشن میں آنے والے سیٹ اپ کا خاکہ تیار کرنے پر توجہ دینے کے بجائے صوبوں کی تشکیل کے ذریعے ووٹ بینک ہتھیانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

کم و بیش تین عشروں سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کا لہو پیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی پر دہشت گردی کے تربیتی کیمپ چلانے اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے ہماری کچھ اشک شُوئی کی کوشش کی ہے تو خیر سے پاک سر زمین ہی پر “بہاول پور جنوبی پنجاب” کے ذریعے “بی جے پی” کا شوشا چھوڑا جارہا ہے! ڈر یہ ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کا ردِعمل کہیں “اسٹِک ہولڈرز” کو نہ جگادے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 528710 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More