اقوامِ عالم کے گزرے وقتوں کے
دانشوروں کے حکومت اور سیاست سے متعلق بہت سے اقوال موجود ہیںجو حکومت اور
سیاست کے زورآزماؤں کے لئے مشعلِ راہ کا درجہ رکھتے ہیں تو وہیں الفرڈای
سمتھ اور ورنزفنک نامی دوایسی شخصیات بھی گزری ہیں جنہوں نے اقوامِ عالم کے
حکومت اور سیاست کے میدان میںقسمت آزمانے والوںکی بہتری کے لئے دونوں(
سیاست اور حکومت) کی تعریفیں کچھ اِس طرح کردی ہیں کہ اِنہیں اپناکریہ اپنی
درست سمت کا تعین کرسکتے ہیں اور اِن پرقائم رہ کرملک و قوم کے لئے
کارآمدثابت ہوسکتے ہیں مگر آج سیاست اور حکومت کے زورآماؤں کو اِن تعریفوں
پر عمل کرناکہیں ضروری اور کہیں غیرضروری سمجھاجانے لگاہے الفرڈای سمتھ نے
سیاست کی تعریف میں کہاہے کہ ” اگراِنسان سیاسی میدان میں حقیقی معنوں میں
کچھ کرنے کا خواہشمندہے تو اِس کے اندردوست بنانے اور اِنسانی فطرت کو
سمجھنے کی صلاحیت موجودہ ہونی چاہئے“جبکہ ورنرفنک کا حکومت سے متعلق یہ
خیال ہے کہ ”ہرآدمی حکومت کی میز پر بیٹھ کرکھاناتو ضرورکھاناچاہتاہے لیکن
پلیٹوں اور برتنوں سے کوئی سروکارنہیں رکھناچاہتا“۔
مگر آج جب میں موجودہ دور میں دنیا کے جس ملک اور معاشرے میں سیاستدانوں کی
ذات،اِن کی سوچ، اوراِن کے قول وفعل کے ساتھ ساتھ اِن ممالک میں اقتدار کی
ہوس کے پجاریوں کی سرگرمِیوں کابھی جائزہ لے رہاہوتاہوں تو مجھے اِن سب کی
جستجو الفرڈای سمتھ اورورنرفنک کے اقوال کے بالکل برعکس نظرآتی ہے آج ایسے
لوگوں میں ترقی یافتہ ممالک کے بھی افراد شامل ہیںتو وہیں بیشترترقی
پذیرریاستوں(بشمول پاکستان،بھارت،بنگلہ دیش اوردیگرممالک) کے سیاستدان اور
حکومتی حواری بھی کسی سے پیچھے نظر نہیں آتے ہیں جو اِس بات کا غماز ہے کہ
اِن ممالک کے سیاستدان اور اقتدار کے مندر کے پنڈت الفرڈای سمتھ اور
ورنرفنک کے اقوال کواپنے اپنے انداز سے اپنے پیروں کے نیچے کچھ کس طرح کچل
رہے ہیں کہ یہ اپنے اِس عمل سے اپنی ذات کے لئے وہ سب کچھ حاصل کرلیں گے...؟جو
آج تک کسی اور کے حصے میں نہیں آیا ہے...؟مگرجب اِنہیں اپنے مقصدمیں کوئی
کامیابی حاصل نہیں ہوپاتی ہے تو بالآخر اِن سیاستدانوں اور اقتدارکے مندرکے
پنڈتوں کے ہاتھوں میں سوائے بدنامی اور ذلت و رسوائی کے کچھ نہیں آتاہے اَب
یہ بات میرے ملک کے سیاستدانوں اور ہوسِ اقتدار میں متبلامجنونوں کو بھی
سوچناچاہئے کہ وہ اپنے انجام سے ڈریں اور اپنا احتساب کریں اور اپنے اعمال
کا جائزہ لیں اور سیاست اور حکومت کا مزہ (جذباتی باتوں اورعوام کو مسائل
سے نجات دلانے جیسے سبز باغات دکھانے کے بجائے) اِس طرح سے لوٹیں جس کی طرف
الفرڈای سمتھ اور ورنرفنک اشارہ کرگئے ہیںمیری اِس بات سے شاید آپ انکارنہ
کریں کہ آج مسائل کی چکی میں پسے پاکستانی عوام کو ہمارے سیاستدانوں اور
حکمرانوں نے اپنی سیاست کی گتھی میں الجھاکراور لچھے دار نعروں میں
دھنساکررکھ دیاہے اورآج میرے ملک کے سیاستدان اور حکمران جس ڈگرپر چل پڑے
ہیں اَب اِن کے قول و فعل سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہاہے کہ اِن
کی نظر میں نہ تو ملک اورقوم کی کوئی اہمت باقی رہ گئی ہے اور نہ ہی اِن کا
ضمیر ہی زندہ ہے کہ وہ اِن کے کسی بھی فعلِ شنیع پر اِنہیں جھنجھوڑے
مگرانتہائی افسوس کی بات آج یہ ہے کہ اگر اِن مفادت پرستوں کے نزدیک کسی
چیر کی اہمیت باقی رہ گئی ہے تو وہ صرف قومی خزانہ ہے اور اِن کامفاہمتی
عمل ہے جو اِن کی راحت اور تسکین کا واحدذریعہ ہے۔
جبکہ میری دھرتی کے سیاستدانوں اور حکمرانوں میں ایسی سوچ اورفکرکا
زورپکڑناپاکستانی قوم کے لئے ایک المیہ ہے کیوں کہ میرے ملک میں قیامِ
پاکستان سے لے کر آج تک کوئی ایسی سیاسی قیادت اُبھرکرسامنے نہیں آسکی ہے
جو ملک اور قوم کے ساتھ مخلص رہی ہو آج اگر کوئی بھی محب وطن پاکستانی اپنی
سرزمینِ پاکستان کی 65سالہ تاریخ پر نظریں دوڑائے تو اِسے اپنے
سیاستدانوںاور حکمرانوں کی طرف سے سوائے مایوسیوں اور اندھیروں کے کچھ بھی
نہیں ملے گاکیوں کہ میری دھرتی کے معرضِ وجودمیں آنے کے بعدسول اور فوجی
بیوروکریسی،صنعتکار، جاگیردارطبقے کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں کی گٹھ
جوڑاوراِن سب کا آپس میں بغل گیرہونے کی وجہ سے ملک میں کوئی ایسانظام نہ
پنپ سکاجس سے ملک میں سیاسی، سماجی ، معاشی اور اقتصادی لحاظ سے کوئی
یکسوئی پیداہوتی یوں ایک لمبے عرصے تک ملک میں آئین سازی کا بحران رہااور
محلاتی سازشوں کے ذریعے ملک میں گھناؤنی سیاست کو پروان چڑہایا جاتا
رہااورشاید یہی وجہ بنی جس سے ملک میں فوجی آمریت مضبوط ہوئی اور امریکاکو
اپنی مداخلت کا پوراپوراموقع ملایوںتب سے آج تک میرے ملک میں قدم قدم پر
امریکی مداخلت اور ہر معاملے میں فوجی آمریت کوجواز بنانے کر پیش کرنے کا
ڈھونگ رچایاجاتارہاہے اور جمہوریت کا گلاگھونٹاگیااور افسوس ہے کہ اِس عرصے
کے دوران قوم کوہوش سے زیادہ جذبات کے ماتحت کئے گئے فیصلوں اور نعروں
میںبھی بہلایااور پھسلایاجاتارہااور بغیرکسی سمت کا تعین کئے قوم کی
ناؤ(کشتی) کو ایک انجان سمت پر چھوڑدیاگیاجو آج بھی حالات کے نشیب وفراز
میں مسائل اور بحرانوں کے طوفانوں میں ڈولتی ہوئی چلی جارہی ہے ۔
آج مایوسیوں اورنااُمیدیوں سمندر میں ڈوبتی قوم اِن حالات میں کسی مخلص
سیاسی قیادت اور دیانتدار حکمران کی تلاش میں سرگرداں ہے جو مسائل اور
بحرانوں کے طوفانوں میں ڈولتی کشتی کی درست سمت کا تعین کریں اور قوم کو
الفرڈ ای سمتھ اور ورنرفنک کے سیاسی اور حکومت کی تعریف میں بیان کردہ
اقوال کی روشنی میں لے کر چلیں جس کے بعد ملک اور قوم کی حالتِ زار میں
بہتری آئے اور میراملک اور میری قوم بھی دنیاکے اُس خطے میں شمار ہونے لگے
جہاںمسائل کم اور وسائل زیادہ ہیں اورمیرے ملک کے سیاستدان اور حکمران اُن
افرادمیں شامل ہونے لگیں جوحکومت کی میزپرکھاناتوضرورکھائیں لیکن اِنہیں
پلیٹوں اور برتنوں (یعنی ملک اور قو م )سے بھی کوئی سروکارہو “میرے ملک کے
سیاستدان اور حکمران اِس سے یہ مطلب نہ لیں کے یہ حکومت کی میز پر کھاناتو
کھائیں مگرپلیٹیں اور برتن بغلوں میں دباکر لے بھاگیں ۔(ختم شُد) |