سیاسی پارٹیوں کو جوتے کی نوک پر
رکھنے والے خان صاحب کی پارٹی میں کارکنوں کا وہ حال ہے جسے دیکھ کر افسوس
ہوتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ انقلاب اور تبدیلی کے چکر میں پھنس کر خوار ہورہے
ہیں کچھ ایسے کارکنوں سے ملاقات ہوئی جو اپنے آپ کو کوس رہے تھے کہ یہ کہاں
آکر پھنس گئے ہیں اس صورتحال کا اندازہ گذشتہ دنوں پشاور میں ہونیوالے ضلعی
اور ٹائون سطح کی انتخابی عمل دیکھنے کے دوران ہوا جب طوفان لانے کے
دعویداروں کی اپنی پارٹی میں جتنی بدنظمی لوگوں کو مل گئی اس سے اندازہ
ہوگیا کہ اگر یہ لوگ حکومت میں آگئے تو پھر کیسی طوفان بدتمیزی برپا کرینگے
-امیدواروں کیلئے عجیب سا قانون بنایا گیا تھا کہ جو بھی امیدوار ہوگا وہ
اپنا ووٹ خود کاسٹ نہیںکرسکے گا اس سلسلے میں کچھ امیدواروں سے بات بھی
ہوئی اور وہ اس فارمولے پر خوش بھی نہیں تھے کہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ نہیں
کرسکتے لیکن کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لئے خاموش کھڑے دیکھتے رہے
طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد رش بنائے کھڑی تھی
پشاور کے چاروں ٹائونز میں ہونیوالے انتخابی عمل میں صرف بارہ سو ووٹرز نے
ووٹ ڈالنے تھے لیکن ووٹنگ بھی نو بجے کے بجائے بارہ بجے دوپہر کو شروع ہوئی
اور یہاں پر بھی خواتین سے زبردستی ووٹ لئے گئے اورپولنگ ایجنٹ اور
پریزائڈنگ آفیسرز نے اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ کرلئے-جس کی شکایت خواتین ووٹرز
نے بھی کی لیکن جس طرح ہم خواتین کو پیچھے دھکیلنے کے عادی ہیں ان کی بات
پر بھی کوئی دھیان نہیں دیا گیا ایک امیدوار جو سونامی لانے والی پارٹی کے
بنیادی کارکنوں میں شامل ہیں نے ایک جعلی ووٹ پکڑا جس کی شکایت ہوئی تاہم
وہاں پر موجود لوگوں نے بات ٹالنے کی کوشش کی اور اسے کہا کہ میڈیا کے
سامنے اس بات کو اچھالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے پارٹی بدنام ہوتی ہیں
یعنی جعلی ووٹنگ ہوتی رہے لیکن پارٹی بدنام نہ ہو- جعلی ووٹنگ کی شکایت پر
جب فلم بنانے کی کوشش کی تو کچھ لوگوں نے کیمرہ پر ہاتھ رکھ دیا تاہم توتو
میں میں اور ایک امیدوار کی وجہ سے کوریج کی اجازت مل گئی راقم نے خود
مشاہدہ کیا کہ خواتین کے ووٹرز مرد حضرات بھروا رہے تھے اور پھر خود ہی
کاسٹ کررہے تھے اس سلسلے میں ایک خاتون نے شکایت بھی کی کہ اس کا ووٹ غائب
ہوگیا ہے لیکن اپنے آپ کو باغی قرار دینے والے ایک مقامی رہنما نے خاتون کے
سامنے ہاتھ جوڑ دئیے کہ " مائی معاف کرو میں کچھ نہیں کرسکتا"انتخابی عمل
کے دوران کچھ لوگوں نے اسلحے کی نمائش کی جس کی شکایت پر ایک امیدوار سے
بات ہوئی تو جوابا کہا گیا کہ یہ پشاور ہے اور یہاں پر اسلحہ لانا ایک
ثقافت ہے اس میں ہم کسی کو منع نہیں کرسکتے-بعد میں ہلا گلہ کرنے بدانتظامی
پر الیکشن کمشنر نے تین ورکروں کی بنیادی رکنیت بھی معطل کردی-
یہ ایک ایسی پارٹی کے اندرونی انتخابات کا حال ہے جو خود کو سٹیٹس کو کی
مخالف اور اصول پسند جماعت کہلوانے کا بڑا پرچار کرتی ہیں سٹیٹس کو کی
مخالفت کرنے والے خود کتنے اس پارٹی کے ورکروں سے محبت رکھتے ہیں اس کا
اندازہ بھی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارٹی کارکنوں نے کچھ عرصہ قبل
جون جولائی کی سخت گرمی میں اپنے علاقوں میں خود ہی اخراجات کرکے پارٹی کی
ممبر شپ کروائی تھی جب رکنیت سازی کی فہرستیں آئیں تو تمام غلط نکلیں
کارکنوں نے اس بارے میں شکایات بھی کی لیکن کارکن کی کون سنتا ہے نہ تو ان
کا مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی فہرستیں ٹھیک ہوئی-دوسروں کو اخلاقیا ت کا درس
دینے والے خان کی پارٹی کا اندرونی حال یہ ہے کہ ایسے امیدوار بھی انتخابی
عمل میں آئے جن کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہیں لیکن جہاں پیسہ ہو تو پیسہ
بہت سارے عیب چھپا دیتا ہے اور ویسے بھی ہماری قوم بڑی بھولی ہے یہ ماضی کو
بھولنے والی قوم ہے نہ ہی ماضی سے سبق سیکھتی ہیں اس لئے اگر اوپر بیٹھے
لوگوں نے آنکھیں بند کرلی تو نچلی سطح کے کمی کمینوں سے تعلق رکھنے والے
کارکن بھی "آوے ہی آوے" سونامی آوے" کے نعرے لگاتے رہتے ہیں-پشاور میں
ہونیوالے اس انتخابی عمل سے سونامی نے ثابت کردیا کہ یہ لوگ روایتی
سیاستدانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں کسی زمانے میں پاشا کے حوالے سے جانے
جانیوالی پارٹی کا گراف جہاں پارٹی کے اندرونی اختلافات سے گر رہا ہے وہاں
پر لوٹوں کی طرح شامل ہونیوالے لی ڈروں کی وجہ سے بھی اس پارٹی میں اپنی
زندگی خوار کرنے والے کارکن بھی اب بد دل ہوتے جارہے ہیں ان حالات میں
جہاںکارکنوں کاکوئی پرسان حال نہیں نہ ہی انہیں کوئی تحفظ حاصل ہے او ر صرف
باتیں کی جارہی ہیں -
اسلام تعصبی نعروں طوفان تبدیلی بنیادی ضروریات سمیت مختلف نعروں پر سیاست
کرنے والے ان سیاستدانوں کیلئے کارکن بھی کمی کمینوں کی طرح ہیں صرف ان کے
چہروںپر پڑے نقابوں کے رنگ الگ ہیں جسے ہماری طرح کے کارکن خوبصورت جان کر
زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے تھے لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے - |