نما ز اور ڈسپلن
مستقل مز اجی اور نظم و ضبط کا جو درس نماز دیتی ہے ۔ اس کی مثال دنیا کی
کوئی قوم او ر مذہب پیش نہیں کر سکتی ۔ تقریباً 10 سال کی عمر یعنی ہو ش
سنبھالتے ہی روزانہ پانچ وقت کی نماز جب شروع ہو تی ہے تو بچپن ، جوانی ،
بیماری اور بڑھا پے میں بھی قائم رہتی ہے ۔ یہا ں تک کہ انسان مو ت کے منہ
میں چلا جا تاہے۔ نماز با جماعت میں امیر غریب کا فرق عملاً مٹ جا تاہے ۔
ایک جو تے پا لش کرنیوالا ایک ڈاکٹر اور انجینئر کندھے سے کندھا ملا کر
کھڑا ہو جا تاہے جو پہلے آتا ہے ،پہلی صف میں جگہ پا تا ہے۔ جو بعد میں آتا
ہے وہ پچھلی صفو ں میں جا تاہے ۔ ذات پات اور بڑے چھوٹے کا تصو ر مٹ جا
تاہے ۔ آج کے جمہو ری دور میں اتنی جمہوریت کون دکھا سکتاہے ؟
نما ز اور جوڑو ں کے امرا ض
کسی بھی مشین کی کا ر کر دگی کا انحصار ا س کے استعمال اور اس کے کل پر زو
ں میں تیل ڈالنے پر ہے ۔ جو مشین بے کا ر پڑی رہے یا اسمیں تیل باقاعدگی سے
نہ ڈالا جائے تو وہ جلد گھس کربیکا ر ہوجا تی ہے ۔ اسی طر ح انسانی جسم میں
360 کے لگ بھگ جو ڑ ہیں۔ یہ تمام جوڑ حرکت کرتے رہیں گے تو ان کو خون مہیا
ہو گا ۔ نما ز ہی وہ واحد ورزش ہے جس کے ذریعے جسم کے تمام جو ڑ متحرک رہتے
ہیں اور دورانِ خون وا فر مقدار میںان جو ڑو ںکوملتا ہے۔ آج کل جو ڑ وں کی
بیماری اتنی زیا دہ کیو ں ہو گئی ہے ؟ نماز میں سلا م پھیر تے وقت اچھی طر
ح اور سکون سے دائیں اور بائیں گر دن کو مو ڑ یں، گر دن کے تمام عضلات کو
اور جوڑو ں کو وافر مقدار میںخون مہیا ہو گا ۔
نما ز اور کمر کا در د
آج کل بچے ، جوان اور بوڑھے تمام کمر کے درد کے عا رضے میںمبتلا ہیں اور
قسم قسم کی Belts Collar اور Hard-Bed استعمال کر تے ہیں ۔ ڈاکٹر تو کمر کی
ہڈی کو سیدھا رکھنے کی ہدا یت کرتے ہیں جبکہ حدیث کی رو سے سر کو اگر قدر ے
آگے کی طر ف خم دیا جائے تو Verteral-Colomn زیا دہ Relaxed رہتا ہے ۔ اس
لیے کہ یہ اس کا Natural Curve ہے ۔ اگرجسم بالکل سیدھایا اکٹرکر چلا جائے
تو Vertebral Colomn کے بے شما ر عضلا ت پر دبا ﺅ پڑتا جا تا ہے ۔ یہی وجہ
ہے کہ قرآن مجید میں بھی تن کر اور اکڑ کر چلنے سے منع کیا گیا ہے اور جھک
کر یعنی تواضع و انکسا ری کی چال چلنے پر زور دیا گیا ہے ۔ کمر کی ہڈی
کومکمل آرام Hard-Bed سے بھی زیادہ رکو ع و سجو د میں ملتا ہے ۔ لہذا طویل
و پر سکون رکو ع و سجود کمر کے درد کا خاص الخاص Tonic ہے ۔
نماز اور نظام ِ تنفس
ہلکی سی اس ورزش (نماز )کے دوران پھیپھڑے بھی حرکت میں آجا تے ہیںاور انسان
گہرے اور تیز سا نس لینے لگتا ہے ۔ جس کی وجہ سے زیا دہ سے زیا دہ آکسیجن
خون میں جذب ہو جا تی ہے اور کا ربن ڈائی اکسائیڈ کے اخرا ج میں مدد ملتی
ہے ۔
نما زاور جسمانی سمار ٹنِس اور چہرے کی خوبصور تی
آج انسا ن اپنے چہرے کی خوبصور تی اور Figure کی سمارٹنس کے بارے میں بہت
حسا س ہوگیا ہے ۔وہ اپنے بڑھے اور لٹکے ہوئے پیٹ سے بھی بہت تنگ ہے ۔یہی
وجہ ہے کہ وہ اپنی کمائی کا زیا دہ حصہ Cosmetics اور مختلف قسم کے ورزشی
آلا ت خریدنے میںخرچ کر تاہے ۔ یہ اس کا حق ہے لیکن جو چیز کم وقت میں اور
سستے دامو ں میسر ہو تو کیوں نہ وہ طریقہ اپنا یا جا ئے ۔ بے شک اگر انسان
فرض نماز اور نوا فل کا با قاعدگی سے اہتما م کرے اور رکو ع و سجو د سُنتِ
نبوی اکے مطابق کر ے ا ور ہتھیلیو ں کے سہا رے کی بجائے گھٹنو ں او ر پا ﺅ
ں کے سہا رے رکو ع و سجو د کرے تو اس کے پیٹ اور کمر کے اطرا ف کے گوشت پر
اتنا دبا ﺅ اور کھچا ﺅ پڑتا ہے کہ لا محالہ پیٹ اور کمر پر کشش بن جا تے
ہیں ۔ رکو ع و سجود کے دوران کششِ ثقل کیوجہ سے چہرے گلا بی اور شاداب ہو
جا تاہے ۔ اگر لو گو ں کو خوبصورتی کے اس را ز کا پتہ چل گیا تو ہمیشہ رکو
ع و سجود میں پڑے رہیں اور فرض نماز کے علاوہ نوا فل کا اہتمام کر یں ۔
نماز اور ڈپریشن
نما زی نماز کے دوران روحانی طور پر دنیا سے عرش پرپر واز کر جا تا ہے او
روہ اپنے پیارے رب تعالیٰ سے سرگو شیو ں میں پیا ری پیا ری باتیں کر تا ہے
۔ کبھی تو وہ اپنے عظیم ترین مالک کے حضور غلا مو ں اور نو کرو ں کی طر ح
سر جھکا ئے ،با دب کھڑا رہتا ہے اور جب وہ اپنے مہربان اور شفیق آقا کی
محبت کی مٹھا س محسو س کر تا ہے اور اس کا دل محبت سے لبریز ہونے لگتا ہے
تووہ جھک کر بے اختیا ر اپنے آقا کے مبارک ہا تھ چومنے لگتا ہے اور رکو ع
کر تا ہے ۔ پھر اپنی پہلی حالت پر غلا مو ں کی طر ح آجاتا ہے ۔ پھر جب اس
کی محبت انتہا کو پہنچتی ہے تو وہ بے اختیا ر اپنی سب سے قیمتی متا ع یعنی
اپنا غرور ،اپنا سر جو وہ کہیں نہیں جھکا نا چاہتا ، بے دریغ اپنے آقا کے
مبارک قدمو ںمیں ڈال دیتا ہے اور رب تعالیٰ کے قدم مبار ک چو منے لگتا ہے
اور زبان اور دل سے ہی اقرار کر تا رہتا ہے کہ صرف یہی وہ پا ک ہستی ہے
جوسب سے عالی شان ہے ۔ اس طر ح اس کا دل و دما غ ڈپریشن جیسے موذی مر ض سے
یکسر نجا ت پا تاہے اور روحانی و دما غی سکون حاصل کرتا ہے ۔ الفرض نما زہی
وہ واحد عبا دت ہے جس کے ذریعے ایک ادنیٰ انسان ایک عظیم عالیشان ذات کے
انتہائی قریب پہنچ کر راز و نیا ز کی با تیں کر تا ہے اور غمو ں سے نجا ت
پا تاہے ۔
عبقری سے اقتباس
تحریر: لیڈی ڈاکٹر فرحت شفیع، گائناکالوجسٹ، جنرل اینڈ مینٹل ہسپتال،
مانسہرہ |