1862ء کی ایک صبح جب مطلع بالکل
صاف تھا ریاست مشی گن میں ڈیٹرائٹ ریلوے کے ساتھ ساتھ کسان کھیتوں میں کام
کر رہے تھے۔ اُنہوں نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ تیز رفتاری سے چلنے والی ریل
گاڑی کے مال کے ایک ڈبے سے دھواں نکل رہا تھا۔ گارڈ کے ڈبے سے زور دار سٹی
بجی جس کا مقصد ٹرین کو روکنا تھا۔ ٹرین رکی کنڈکٹر باہر کودا اور اُس ڈبے
کی جانب دوڑا جس میں آگ لگی ہوئی تھی۔ چند لمحوں کے بعد وہ آگ بجھا دی گئی۔
اِس کے بعد آگ لگنے سے بھی زیادہ حیرت انگیز واقعات پیش آئے۔ آگ لگنے والے
اِس ڈبے سے کچھ چیزیں پے درپے باہر پھینکی جانے لگیں۔ سبزی کی ٹوکریاں،
تجربات کی نلکیاں، بجلی کے مورچے ، عجیب و غریب وضع کی بوتلیں ، اخباروں کے
بنڈلز اور چھپائی کی ایک چھوٹی سی مشین سب چیزیں پھینکنے کے بعد ایک پندرہ
سالہ لڑکے کو دھکے مار کر باہر نکالا گیا ، کنڈکٹر کا چہرہ غصے اور محنت کی
وجہ سے سرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میری ٹرین
کو آگ لگانے کی یہ سزا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی اُس نے لڑکے کو ایک زور دار تھپڑ
رسید کیا۔ ایک منٹ بعد ٹرین وہاں سے روانہ ہو گئی۔ باہر پھینکا جانے والا
سامان اِدھر اُدھر پڑا رہ گیا اور لڑکا زور دار تھپڑ پڑنے کی وجہ سے درد کے
مارے اپنا کان ملتا رہا۔ بعد میں اُس کا یہ کان سننے کی حس سے محروم ہو گیا۔
اِس لڑکے کا نام تھامس ایڈیسن تھا۔ بعد میں یہ لڑکا دنیا کے چند عظیم
سائنسدانوں میں سے ایک سائنسدان بنا جس نے ہزاروں ایجاداد کیں اور اُس نے
اڑھائی ہزار کے قریب پیٹنٹ امریکہ اور دوسرے ممالک میں حاصل کیے اور
18اکتوبر 1931کو وفات پا گیا۔ دنیا کو روشنی ، بلب اور بجلی کا تحفہ دینے
والا یہ انسان ساری زندگی ایجادات اور ریسرچ میں لگا رہا۔
قارئین! ایڈیسن کا ذکر کرنے کے بعد آئیے چلتے ہیں میڈیسن یعنی ادویات کی
طرف۔ پنسلین کی ایجاد سے بہت پہلے بھی پوری دنیا میں بیماریوں کے علاج
کیلئے طبِ یونانی ، آیو رویدک سے لے کر مختلف طریقہ ہائے علاج موجود تھے
لیکن ایلو پیتھک یا برٹش فارما کوپیا باقاعدہ شکل میں ایک ایسا طریقہ علاج
بنا کہ جس کی وجہ سے بڑی بڑی بیماریوں پر قابو پانے میں مدد ملی۔ بیماریوں
اور اُن کے علاج کی خاطر بڑی بڑی ریسرچ گاہیں تعمیر کی گئیں۔ ماہرینِ
نباتات سے لے کر ماہرینِ حیوانات اور انسانی بیماریوں کا علاج کرنے والے
سائنسدانوں نے اُس عرق ریزی سے کام کیا کہ دنیا میں بڑی بڑی بیماریوں کا
علاج بھی دریافت کیا گیا اور ماضی میں لاکھوں انسان جو طاعون ، کوڑھ جزام ،
ٹائیفائڈ بخار ، ملیریا اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے دنوں کے اندر ہلاک ہو
جاتے تھے اُن کی آئندہ نسل کی جانیں بچانے کیلئے طبی سائنس نے بڑے بڑے
کارنامے انجام دئیے ۔ اِن سائنسدانوں نے ریسرچ کر کے جو ادویات ایجاد کیں
اُن میں سے اکثریت ایسی ادویات کی تھی کہ جنہیں ’’لائف سیوینگ ڈرگ‘‘ قرار
دے کر اُن کی قیمتیں انتہائی کم رکھی گئیں اور اقوام متحدہ سے لے کر دیگر
عالمی اداروں نے دنیا کے دور دراز پسماندہ مقامات پر یہ ادویات کثیر مقدار
میں پہنچائیں تاکہ تباہ ہوتی ہوئی انسانیت کے دکھ درد کا مداوا ہو سکے۔
قارئین! انہی ایجادات اور ریسرچ کے نتیجے میں سامنے آنے والی ادویات کی
بنیاد پر ادویات سازی کی صنعت نے فروغ پایا اور اِس درجہ تک عروج تک پہنچی
کہ آج برطانیہ اور امریکہ میں حکومتیں فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے مالکان کی
آشیرباد سے بنتی ہیں اور اِسی طرح مختلف قانون سازیوں میں فارماسیوٹیکل
انڈسٹری کے مالکان پوری طرح انوالو ہوتے ہیں۔ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ
برطانیہ ، امریکہ ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں قوانین اِس حد تک
سخت ہیں کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری اور فوڈ انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو اپنی
کوالٹی اُس لیول پر رکھنا پڑتی ہے جو انسانی صحت اور جان کے تحفظ کیلئے
ضروری ہوتی ہے۔
قارئین! آج سے چند سال قبل آپ کو وہ واقع یاد ہو گا کہ جس میں پنجاب
انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک مقامی دوا ساز کمپنی کی دل کے امراض کے
علاج کیلئے بننے والی ادویات میں یا تو کسی سازش کے تحت اور یا پھر پیشہ
وارانہ کوتاہی کی وجہ سے خطرناک کیمیکل کی ملاوٹ ہو گئی اور سینکڑوں مریض
جان بچانے والی دوا کے نام پر زہر کھاتے رہے اور جان کی بازی ہار گئے۔ اِسی
طرح گزشتہ دنوں لاہور کی ایک دواساز فیکٹری کے کھانسی کے شربت کے پینے کی
وجہ سے درجنوں افراد موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ کھانسی کے اِس شربت میں الکوحل
کی مقدار زیاتھی اور زیادہ مقدار میں دوائی لینے کی وجہ سے درجنوں جانیں
ضائع ہوئیںَ -
قارئین! پاکستان میں اِس وقت 240 کے قریب ادویات بنانے والی فیکٹریاں کام
کر رہی ہیں۔ اِن فیکٹریوں میں اکثریت کراچی ، لاہور، اسلام آباد ، پشاور ،
حطار اور دیگر علاقوں میں قائم ہیں۔ جبکہ آزاد کشمیر میں بھی دو فیکٹریاں
اِس وقت آپریشنل ہیں۔ پاکستان میں 1990ء سے قبل ملٹی نیشنل کمپنیاں جن کا
تعلق یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک سے ہے وہ 80%سے زائد بزنس کرتی تھیں اور
مقامی صنعت صرف 20% حصہ لے پاتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقامی
صنعت نے ترقی کی جس کے نتیجہ میں آج 70% حصہ لوکل کمپنیاں لے رہی ہیں اور
30%شیئر ملٹی نیشنل کمپنیز کا ہے۔ پاکستان میں اِس وقت ایک محتاط اندازے کے
مطابق سالانہ 700ارب روپے کی میڈیسن مارکیٹ ہے جو عالمی منڈی کا صرف 2%ہے۔
قارئین ! آئیے اب چلتے ہیں کالم کے اگلے حصے کی طرف۔ صرف چند کالی بھیڑوں
کی وجہ سے اِس وقت مقامی ادویات سازی کی صنعت ایک انتہائی مشکل صورتحال سے
گزر رہی ہے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور اور کھانسی کے شربت کی
وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے نتیجہ میں مقامی صنعت کو ایک سازش کے تحت
میڈیا ٹرائل کا نشانہ بنایا گیا اور صورتحال اِس حد تک خراب ہوئی کہ کئی
الیکٹرانک میڈیا چینلز پر مقامی ادویات سازی کرنے والی صنعت کو ناقص ، کم
تر درجے سے لے کر مختلف الزامات سے نوازا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج
ایک عام آدمی بھی ڈاکٹر کو یہ کہنے لگا کہ اُنہیں مقامی کمپنی کی ادویات نہ
لکھی جائیں۔ اِس وقت وزارتِ صحت پاکستان کی صورتحال تو کچھ ایسی ہے کہ
پیسوں کے لالچ میں ایمان فروشی کرتے ہوئے ایک طرف تو سابق وزیر اعظم یوسف
رضا گیلانی کے بیٹے اور سابق وزیر صحت مخدوم شہاب الدین کا نام ایفی ڈرین
سکینڈل میں ملوث ہے۔ ایفی ڈرین ایک ایسا عنصر ہے کہ جس میں نشے کی خاصیت
پائی جاتی ہے اور دوسری جانب ایسے ایمان فروش بھی موجود ہیں کہ جو بیرون
ممالک سے ادویات امپورٹ کرنے کے لائسنس جاری کر کے سب سٹینڈرڈ یا گھٹیا
معیار کی ادویات ملک میں منگوا کر لوگوں کو استعمال کروا رہے ہیں۔ ہمیں
سمجھ نہیں آتا کہ حکومتِ پاکستان کی ترجیحات کیا ہیں۔ ہم نے اِس حوالے سے
پاکستان فارما سیوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے ممبر ایگزیکٹو کمیٹی
ڈاکٹر اکرم چوہدری سے رابطہ کیا جو آزاد کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری
کے سابق صدر بھی ہیں اور ایک فارما سیوٹیکل کمپنی کے مالک بھی ہیں اُنہوں
نے راقم کو بتایا کہ اِس وقت 240 کے قریب فیکٹریاں پاکستان میں کام کر رہی
ہیں۔ جن میں براہ راست لاکھوں کارکن کام کرتے ہیں اور تمام بزنس کو اگر
اکٹھا کیا جائے تو اِس وقت پچاس لاکھ سے زائد افراد کو روزگار مہیا کرنے
میں لوکل فارما سیوٹیکل انڈسٹری اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ مقامی ادویات
سازی کی یہ صنعت تیس فیصد Growth دے رہی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ حالانکہ ملک
میں بجلی ، گیس ، پٹرول اور انرجی کے دیگر ذرائع کا شدید ترین بحران موجود
ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیز کی ادویات جن پر اُن کی اجارہ داری ہے اُن کی قیمتیں
آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ انتہائی مزے کی بات آپ سے شیئر کرتے چلیں کہ وہ
اینٹی بائیو ٹیک کہ جس کی قیمت 70 روپے فی گولی تھی اور ایک ملٹی نیشنل
کمپنی عرصہ دراز سے اُسے پاکستان میں فروخت کر رہی تھی۔ جب مقامی صنعت کو
پیٹنٹ رائٹس کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوائی بنانے کا موقع ملا تو اُس کی
قیمت 7روپے فی گولی مقرر کی گئی۔ گویا وہ ملٹی نیشنل کمپنی کئی سال 10 گنا
زیادہ قیمت وصول کرتے ہوئے غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالتی رہی۔
قارئین! بغور جائزہ تو ایک اور زبردست انکشاف سامنے آتا ہے کہ وہ میڈیسن کہ
جس کی قیمت ایک سو روپے ہے اُس کی مالیت در حقیقت پانچ روپے سے زائد نہیں
ہوتی۔ باقی پچانوے فیصد رقم مارکیٹنگ ، تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے بعد
کثیر منافع کی شکل میں مالکان کی جیبوں میں جاتی ہے۔ اِس وقت ملٹی نیشنل
اور نیشنل کمپنیاں سب سے زیادہ فائدہ ڈاکٹرز کو دے رہی ہیں ، ادویات
لکھوانے کیلئے ڈاکٹرز کو ورلڈ ٹورز بھی دئیے جاتے ہیں ، سیمینارز کے نام پر
ڈاکٹرز کو ہر طرح کی اخلاقی اور غیر اخلاقی عیاشی کرنے کے مواقع مہیا کیے
جاتے ہیں اور تحفے تحائف اور ہوٹلنگ تو ایک نارمل کیس ہے۔ یہ تمام بھاری
بھرکم اخراجات آخر میں جا کر انتہائی غریب عوام کی جیبوں ، جسموں اور لہو
سے کشید کیے جاتے ہیں۔ کیا کوئی قانون ایسا ہے کہ جو اِس غیر اخلاقی کالے
دھندے کو روکے ۔ کیا کوئی عدالت ایسی ہے کہ جو اِس مافیا کو کنٹرول کرے ،
کیا کوئی چیف جسٹس ایسا ہے کہ جو اِس معاملے پر سوموٹو ایکشن لے اور غریب
عوام کیلئے سکھ کا سانس لینے کا کوئی موقع پیدا کرے۔ غریب جہاں پر گھر کا
چولہا جلانے اور روٹی کھانے تک سے عاجز آ چکا ہے اگر وہ بیمار ہو جائے تو
اپنا علاج کیسے کروائے۔ بقول شاعر
انسانوں سے کبھی پوچھو تو
اِس جیون پر کتنا حق ہے
اِن گلی کے بھوکے بچوں کا
اِن پھول سے کھلتے چہروں سے
مسکان کو کس نے چھینا ہے
یہ ہاتھ قلم سے خالی کیوں
یہ جینا بھی کوئی جینا ہے
یہ بھوک کی دھوپ کیوں پھیلی ہے
میرے دیس میں میرے گلشن میں
یہ کانٹے کس نے بوئے تھے
جو اُگے ہیں میرے آنگن میں
یہ لیڈر ہی کچھ بتلائیں
نیتا جی ہی کچھ فرمائیں
ہم کو جو کچھ یہ دکھتا ہے
کیا جھوٹ ہے اور کتنا سچ ہے
انسانوں سے کبھی پوچھو تو
اِس جیون پر کتنا حق ہے
قارئین! ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ اِس ملک میں نان ایشوز کو ایشوز بنا کر عوام
کی کون سی خدمت کی جارہی ہے۔ ملک میں کرپشن ، مہنگائی ، بیروزگاری ، دہشت
گردی اور دیگر خوفناک اژدھے منہ کھولے غریب عوام کو نگل رہے ہیں اور قانون
سازی کرنے والے ، قانون نافذ کرنے والے اور احتساب کرنے والے ادارے ناجانے
کیا کام کر رہے ہیں۔
قارئین! ہم نے آج سے کچھ عرصہ قبل محسنِ پاکستان فخرِ اُمتِ مسلمہ جوہری
سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ایک انٹرویو FM 93ریڈیو آزاد کشمیر کے
مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں کیا تھا۔ اِس پروگرام
میں ایکسپرٹ کے فرائض اُستاد محترم سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان نے انجام
دئیے تھے اور پروگرام میں دیگر شرکاء جنرل عاشور خان ماہرِ امراض قلب ،
پروفیسر ڈاکٹر جمال ظفر سربراہ شعبہ میڈیسن پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل
سائنسز اسلام آباد نے بھی شرکت کی تھی۔ ہم نے معصومیت سے ڈاکٹر عبد القدیر
خان سے پوچھا کہ وہ قوم کو کیا نصیحت کرتے ہیں تو ڈاکٹر عبد القدیر خان نے
انتہائی دل گیر انداز میں کہا تھا کہ میں قوم سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ
خدارا ادویات اور کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ نہ کریں۔ انسان کھانا اِس
لیے کھاتا ہے کہ وہ صحتمند رہے اور زندہ رہ سکے اور بیماری ہونے کی صورت
میں دوا ہی اُس کا سہارا ہوتی ہے۔ اگر اِن دونوں چیزوں میں زہر گھول دیا
جائے تو ایک عام انسان کدھر جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرنے پر قادر
ہے لیکن اِن گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
قارئین! روپیا پیسہ کمانے کی لالچ میں انسان کو اتنا نہیں گِر جانا چاہیے
کہ وہ یہ فیصلہ کرنے سے بھی قاصر ہو جائے کہ اخلاقی معیارات کیا ہیں اور
کونسی حدود ہیں کہ جن کا سمجھنا ضروری ہے۔ ایڈیسن سے لے کر ڈاکٹر عبد
القدیر خان تک جتنے سائنسدان ہیں اُن کا مطمع نظر انسانیت کی بقاء اور
انسان کی سربلندی رہی۔ سائنسدان ایک ایسے رقص میں ہوتا ہے جسے مجذوب کے رقص
سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا مجذوب جو اپنے مالک کو خوش رکھنے اور
اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔
اِن سائنسدانوں نے اِس دنیا کو بہت کچھ دیا۔ لیکن ضمیر فروش دولت کے
پجاریوں نے اُن کی ایجادات کو غلط مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ عوام کو
چاہیے کہ وہ جاگے اور کالی بھیڑوں کو شناخت کر کے طاقت کے ذریعے اُن کا
ہاتھ روکے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے کہ
انشورنس ایجنٹ کافی دنوں سے ایک صاحب کا پیچھا کرتا رہا ، آخر میں اُس نے
آخری دلیل کے طور پر کہا ۔۔
محترم آپ کیا یہ پسند کریں گے کہ آپ کے مرنے کے فورا ً بعد آپ کے بیوی بچوں
کو ایک کروڑ روپے مل جائیں اور وہ اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔۔۔؟؟
وہ صاحب مسکین شکل بنا کر بولے ۔
’’ضرور کیوں نہیں ، لیکن اتنا بتا دیں کہ بیوی بچے مجھے کون دے گا ، آپ یا
آپ کی کمپنی۔۔۔؟‘‘
قارئین! سیاسی لیڈر شپ پینسٹھ سالوں سے اِس نوعیت کی رہی ہے کہ جو انشورنس
کمپنی ہی کی طرح مستقبل کے سہانے خواب بیچتے رہے اور آخر میں سہانے خوابوں
کو نتیجہ زخم زخم وطن کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ تبدیلی وقت کی آواز ہے ،
معیاری ادویات سازی ہو یا ایمان سازی، ایماندار قیادت کے بغیر منزل حاصل
کرنا ناممکن ہے۔ |