ہندو دہشت گردی کا اعتراف

دہشت گردی دورِ حاضر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ خصوصاً نائن الیون واقعات کے بعد ذرائع ابلاغ اور خبر رساں ایجنسیاں عالمی پیمانے پر اس کی تشہیر اور ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔ اس کی کوئی ایسی تعریف کرنا جو ہر لحاظ سے مکمل اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاق رائے سے لاگو کی جاسکے، اگر ناممکن نہیں تو کم از کم بحر امکان لاپذیر کے ساحل پر پیادہ رو ضرور ہے۔ اگر ہر قسم کے پس منظر اور اس معاشرے کے حالات کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے تو پھر اس لفظ کی لغوی تشریح یوں ہو سکتی ہے کہ خوف و ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسا طریقہ کار یا حکمت عملی اختیار کرنا کہ جس میں قصوروار اور بے قصور کی تمیز کے بغیر ہر ممکنہ ہدف کو ملوث کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب پھیلایا جائے۔ مغربی دنیا میں میڈیا اسلام کے حوالے سے صرف شدت پسندی اور دہشت کے اقدامات و واقعات کو ہی اُجاگر کرتا ہے اور اسلام کے مثبت پہلو، حقیقی پرامن تعلیمات اور انسان دوست فلسفہ و طرز عمل کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بزرگ لیڈر لال کرشن ایڈوانی بھی کہا کرتے تھے کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں۔اس کے پردے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ دہشت گردی کا عام طور پر تعلق صرف مسلمانوں سے ہی رہا ہے مگر مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے انکشافات نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ بھارت کے جو عناصر دہشت گردی کا تعلق مسلمانوں سے جوڑ رہے ہیں اصل میں وہی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ انڈیا نے اپنے ہاں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات میں ہمیشہ بیرونی مداخلت خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش پر الزام تراشی کی کہ دونوں ممالک کے اندر موجود دہشت گرد کیمپ بھارت میں انتشار کا باعث ہیں تاہم نتائج اس کے برعکس نکلے، جبکہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو بھی دہشت گرد تحریک کا روپ دیا گیا۔ پاکستان کا ہمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردی کا کوئی کیمپ موجود نہیں اور نہ ہی وہ پڑوسیوں کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے۔ بھارتی میڈیا بھی ہر واقعہ کا الزام بغیر ثبوت پاکستان پر لگا دیتا ہے لیکن اپنے وزیر داخلہ کے اعترافی بیان کے بعد گویا اس کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے مطابق ملک کی اہم اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) انتہا پسند عناصر کی ٹریننگ کر رہی ہیں۔ یہ دونوں انتہا پسند تنظیمیں لوگوں کو بھرتی کر رہی ہیں اور ملک میں ”ہندو دہشت گردی“کے کیمپ چلا رہی ہیں۔ شندے کے بقول سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد بم دھماکہ، مالیگاﺅں اور اجمیر کی درگاہ میں دھماکے شیوسینا اور بی جے پی کا کارنامہ ہیں مگر دہشت گردی کی ایسی کارروائی کا الزام عموماً مسلمان عسکریت پسندوں یا پڑوسی ملک پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے لیکن تفتیش کے بعد ہندو شدت پسندوں کے نام سامنے آئے ہیں۔ جس تقریب میں وزیر داخلہ یہ انکشاف کر رہے تھے اُس میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ، حکمران پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی اور نو منتخب نائب صدر راہل گاندھی بھی موجود تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید اور سیکرٹری داخلہ آر کے سنگھ نے بھی اپنے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کے اس بیان کی مکمل حمایت کر دی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس دہشت گردی کے تربیتی کیمپ چلا رہی ہیں۔ ویسے تو یہ بات عیاں تھی کہ یہ انتہا پسند تنظیمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان میں اس حقیقت کی ہمیشہ پردہ پوشی کی جاتی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں اس کی اپنی دہشت گرد تنظیمیں بھی ملوث ہو سکتی ہیں لیکن اب اس ضمن میں وزیر داخلہ کا جرات مندانہ انکشاف اس بات پر مہر لگانے اور توثیق کرنے کے مترادف ہے۔ 2009ءمیں سابق بھارتی وزیر داخلہ پی چدم برم بھی اپنی وزارت کی ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گرد گروپ بھارت میں ہیں۔ اسی طرح بال ٹھاکرے بھی ہندو دہشت گردوں کے عروج کا خیرمقدم کرتے رہے ہیں۔ مغربی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق 317دہشت گردی کیمپس کی موجودگی کے باعث بھارت دنیا کا سب سے خطرناک ملک بن چکا ہے، جبکہ علیحدگی کی زور پکڑتی تحریکوں کے باعث 2025ءتک اس کے کئی ٹکڑوں میں بٹنے کے خدشات حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ سشیل کمار شندے نے درحقیقت یہ الزام اپنی اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی پر لگایا ہے لیکن اسی الزام میں یہ اعتراف چھپا ہے کہ خود بھارت میں بھی انتہا پسندی کے کیمپس موجود ہیں۔ مسٹر فندے نے اس حق گوئی کے ذریعہ اپنے عوام کو چوکس رہنے کیلئے آگاہ کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کا ذمہ دار بھارت میں بسنے والے مسلمانوں یا پھر پاکستان کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ وزیر داخلہ کے اس غیر معمولی بیان پر بھگوا جماعتوں کا چراغ پا ہونا اُن کے قائدین کے مزاج کے عین مطابق ہے حالانکہ انہیں نادم اور تائب ہونا چاہئے تھا کہ انہوں نے نہ صرف اپنے ملک کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ پاک بھارت تعلقات بگاڑنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا لیکن انہوں نے اس کے برعکس سچائی پر تنقید و اعتراض کرکے حقائق سے منہ موڑا اور بہ الفاظ دیگر دہشت گردی کی باضابطہ حمایت کا اعلان کیا۔ سشیل کمار شندے کے بیان کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ حال ہی میں شیوسینا کی دھمکیوں سے پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیلے بغیر بھارت سے لوٹنا پڑا۔ انڈیا میں اس وقت 67علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں 17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں اور ان تحریکوں نے دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیںمگر افسوس کہ بھارتی حکومت نے دہشت گردی کے تربیتی کیمپس ختم کرنے اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے قابل ذکر اقدامات نہیں کئے۔ ممبئی دھماکوں کے بعد پورے بھارت میں مسلمانوں کو حیلے بہانوں سے نشانہ بنایاگیا مگر بعد میں مہاراشٹر کے سابق اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے نے مالیگاﺅں بم دھماکوں کی ماسٹر مائنڈ سادھوی پرگیہ اور کرنل پروہت کو گرفتار کرکے ہندو دہشت گردوں کے ایک منظم نیٹ ورک کو بے نقاب کیا تو پورے ملک کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں چونکہ اب تک سکیورٹی ایجنسیاں، خفیہ محکمے اور میڈیا نے پورے ملک میں یہ تاثر پیدا کر رکھا تھا کہ دہشت گرد صرف اور صرف مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور وہی ملک میں انجام دی گئی تمام تخریبی کارروائیوں کیلئے ذمہ دار بھی ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں ماﺅ نواز باغی، تامل علیحدگی پسند، کشمیری مجاہدین، گجراتی مسلمان، آسام کے مسلمان گروپ اور خالصہ تحریک کے جنگجو اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں جس کے باعث ہندوستان کو بیرونی نہیں بلکہ اندرونی خلفشار سے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ شیوسینا اور بجرنگ دل کے مظالم، مسلمانوں کا قتل عام اور اقلیتوں سے ذلت آمیز اور امتیازی سلوک کی وجہ سے اقلیتیں ہندوستان سے علیحدگی کا خواب دیکھنے لگی ہیں۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 194417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.