حضرت سعدی فرماتے ہیں میں نے کسی کتاب میں
پڑھا تھا کہ" بچھوؤں کی پیدائش عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتی، اپنی ماں کے
پیٹ میں جب یہ کچھ بڑا ہو جاتا ہے تو اندر سے پیٹ کو کاٹنا شروع کر دیتا ہے
اور یوں سوراخ کر کے باہر آ جاتا ہے"۔ حضرت سعدی مزید فرماتے ہیں کہ میں نے
یہ بات ایک دانا کے سامنے بیان کی تو انہوں نے فرمایا: "میں سمجھتا ہوں کہ
بات درست ہی ہو گی بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ
آتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کے پہلے دن سے برائی ہی کی ہوگی"۔ آپ سب جانتے
ہیں کہ ڈنک مارنا بچھوکی فطرت ہے۔ ایک جگہ بہت سارئے بچھو جمع تھے کسی نے
پوچھا کہ تمارا سردار کون ہے، ایک بچھو نے جواب دیا کہ ہم سب سردار ہیں تم
کسی کو بھی ہاتھ لگاکر دیکھ لو۔ آیئے آپ کو ہندوستانی بچھوں سے ملاتا ہوں۔
بمبئی (حالیہ ممبی) کا رہنے والا ایک کارٹونسٹ بال ٹھاکرے 1966میں تنخواہ
پر جھگڑا ہو جانے کی وجہ سے اس نے نوکری چھوڑ دی اور لسانی اور مذہبی
بنیادوں پر ایک تنظیم شیو سینا کے نام سے قائم کی اور بمبئی سے غیر مراٹھی
لوگوں کو باہر رکھنے کے لئے ایک تحریک شروع کی۔ بال ٹھاکرے کھلم کھلا ہٹلر
کو اپنا سیاسی پیشوا تسلیم کیا، اس کا کہنا تھا کہ جرمنی کے فسطائی رہنما
کے بارے میں لوگ جو بھی کہیں، ہٹلر نے جو بھی کیا جرمنی کے حق میں ہی کیا۔
بال ٹھاکرے کی پوری سیاست اسی نظریہ کے ارد گرد گھومتی رہی اور اپنے مسلمان
مخالف نظریہ کو وہ اسی تناظر میں پیش کرتا رہا۔ 1992 میں جب بابری مسجد
مسمار کی گئی تو بال ٹھاکرے نے کہا کہ یہ ’عظیم‘ کام شو سینکوں نے انجام
دیا تھا جس پر مجھے فخر ہے۔ شیو سینا کو آپ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک
سنگھ) کی کاپی بھی کہہ سکتے ہیں، بس فرق اتنا تھا کہ وہ مسلمانوں کا دشمن
تو تھا ہی اسکے ساتھ ساتھ غیر مراٹھیوں کا بھی دشمن تھا۔ اپنی پاکستان
دشمنی کا برملہ اظہارکرتا تھا۔ یہ لیڈر کم غنڈا زیادہ تھا۔ دو ہزار دو میں
بال ٹھاکرے نے ہندوئوں کے خودکش اسکواڈ کا اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں کے
خلاف استعمال ہوگا۔ شیوسینا نے چالیس لاکھ مسلمانوں کو مہاراشٹر سے نکلنے
پر مجبور کیا اور یہ نعرہ بلند کیا کہ یہاں سب سے پہلے ہندو مذہب ہے، اس کے
بعد دوسرے مذاہب کے بارے میں سوچا جائے گا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم جائے، ہاکی
ٹیم جائے یا کوئی اداکار اس کا دخل سب میں تھا، اور آج جب وہ مرچکا ہے تب
بھی شیوسینا کی غنڈا گردی جاری ہے۔ حال ہی میں شیوسینا کی مخالفت کی وجہ سے
ہی ہمارئےہاکی کے کھلاڑی واپس آئے اور ہماری خواتین کی کرکٹ ٹیم کو بمبئی
کے بجاے دوسرئے شہر میں جاکر ورلڈ کپ کے میچ کھیلنے پڑرہے ہیں۔ بھارتی
حکومت بھی شیوسینا کی غنڈا گردی سے آنکھیں چراتی ہے۔
ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور ہندوستان کے مشہور فلم
اسٹار امیتابھ بچن کا تعلق شہر الہ بادسے ہے مگر اسی الہ بادکے ایک گھر میں
ناتھورام گوڈسے کی باقیات موجود ہیں۔30 جنوری 1948 کو ہندوستانیوں کے باپو
موہن داس گاندھی کو ناتھورام گوڈسے نے گولیاں چلاکر ہلاک کردیا تھا۔ گوڈسے
مہاراشٹر کا براہمن تھا جو آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا رکن تھا۔
ناتھورام گوڈسے کو 15نومبر 1949کو گاندھی کے قتل کے الزام میں پھانسی دی
گئی تھی۔ اپنی پھانسی سے پہلے اس نے جیل میں اپنے بھائی اور ایک دوست کویہ
وصیت کی تھی کہ میری باقیات کو دریائے سندھ میں بھانا کیو نکہ جب اکھنڈ
بھارت دوبارہ ہوگا تو دریائے سندھ بھی اکھنڈ بھارت کا ہی حصہ ہوگا، لہذا
پھانسی کے بعد جب گوڈسے کو جلایا گیا تواسکا بھائی اور دوست قریبی جھاڑیوں
میں چھپے ہوئے تھے، پولیس کے جانے کے بعد انہوں نے گوڈسے کی راکھ اور ہڈیاں
جمع کریں جو آج بھی چاندی کے ایک برتن میں موجود ہیں۔ ناتھورام گوڈسےپڑھا
لکھا تھا، وہ ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا مگرمسلمانوں کا بدترین مخالف تھا۔
گوڈسے کی برسی کے دن ہرسال اس کے خاندان کے لوگ اور دوست احباب پونے میں
جمع ہوکر ”اکھنڈ بھارت“ کے کاز کیلئے کام کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ناتھورام
گوڈسے کی بھتیجی ہمانی ساوکر جو ایک کٹر ہندوپرست تنظیم ابھینو بھارت کی
سربراہ بھی ہے مسلم دشمنی میں آگے آگے ہے۔ سنگھ پریوار سازشیں رچنے میں کس
قدر ماہر ہے اس کا اندازہ توگاندھی کے قتل کےوقت ہوگیا تھا۔ اگر ناتھو رام
گوڈسے پکڑا نہ جاتا اور اس کی اصل شناخت سامنے نہ آئی ہوتی تو گاندھی کے
قتل کا شبہ بھی مسلمانوں پر ہی جاتا۔ گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر
ہندوستانی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی اور تنظیم کو چلانے والے مادھو
سداشو گووالکر سمیت آر ایس ایس کے تمام رہنماؤں کو جیل میں بند کر دیا تھا
مگربعد ازاں آر ایس ایس پر سے پابندی ہٹا لی گئی تھی۔
آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیم روزِ اوّل
سے پورے طور پر فاشسٹ سیاسی نظریات سے متاثر ہندو آمریت کی حامی رہی ہے اور
مضبوط تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس کے رہنماؤں نے ہٹلر اورمسولینی کے قومی
و سیاسی نظریات سے براہِ راست استفادہ کیاہے اور ان سے بے حد متاثر ہیں۔ اس
کے بڑے بڑے لیڈروں نے اٹلی و جرمنی جاکر فاشزم کی تعلیم و تربیت حاصل کی ہے؛
چنا چہ ہندوسماج کو فوجی تربیت دینے کی ضرورت و اہمیت کو انھوں نے اٹلی و
جرمنی کے ماڈلوں کو دیکھنے کے بعد ہی محسوس کیا اور ہندوفاشزم کے زہریلے
جراثیم پھیلائے ۔ ریکارڈ کے مطابق سنگھ کے بانی ہیڈگیوار اور چند دوسرئے
انتہاہ پسند ہندو رہنماوں کی 1934 میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی، جس میں یہ سوال
اٹھایا کہ ہندوؤں کو کس تدبیر سے منظم کیا جاسکتا ہے؟ اس کے جواب میں ایک
ہندو رہنما نے کہا کہ: ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں اس اتحاد کی بنیادیں
پائی جاتی ہیں؛ لیکن انھیں بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ قدیم زمانے
کے ”شیواجی“ یا جدید دور کے مسولینی یا ہٹلر جیسے کسی ہندو ڈکٹیٹر کے
ہاتھوں میں ہندوستان کی باگ ڈور ہو۔ ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک
منصوبہ ترتیب دے کر اس کی تشہیر و تبلیغ کے لیے سرگرمِ عمل ہوجانا چاہیے۔
اسی منصوبہ کے مطابق 1934 میں مسولینی کے فکری و عملی طرز پر بھونسلا ملٹری
اسکول قائم کیاگیا- کل کی جن سنگھ اور آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی دراصل
آر ایس ایس ہی کا ایک سیاسی حصہ ہے۔ آر ایس ایس چونکہ ایک بدنام زمانہ
تنظیم ہے لہذا بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی گی تاکہ ہندوستان کی باگ ڈور کسی
انتہا پسند ہندو ڈکٹیٹرکے ہاتھوں میں ہو۔ آر ایس ایس کو سیاست میں
غیرمعمولی دلچسپی ہے۔ ہندوستان آئینی اعتبار سے کیسا ملک ہو؟ اس کے دستوری
ڈھانچہ کی شکل کیا ہو؟ ملک کی سیاسی و اقتصادی پالیسی کس نوعیت کی ہو؟
وغیرہ، سیاست کے تمام شعبوں کے بارے میں اس تنظیم کے اپنے مخصوص نظریات طے
شدہ منصوبے اور متعینہ اصول ہیں، جن کا اظہار اس کے رہنما اکثر کرتے رہتے
ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور حکومت میں ہی گجرات میں فروری دو ہزار دو
میں مسلم کش فسادات کے دوران بھی سنگھ پریوارکا رہنما نریندر مودی وزیر
اعلی تھا، اس مسلم کش فسادات میں دوہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا
تھا۔حال ہی میں بھارتی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بی جے پی اور آر ایس
ایس کی جانب سے ہندو انتہا پسندوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے کا بھانڈا
پھوڑتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ موجود
ہیں، بی جے پی اور آر ایس ایس کے کیمپوں میں دہشت گردی کو فروغ دیا جارہا
ہے، سمجھوتہ ایکسپریس ، مالے گاوٴں بم دھماکوں میں ہندو انتہا پسند ملوث
تھے، الزام مسلمانوں پر لگایا گیا۔
انڈین نیشنل کانگریس کا قیام دسمبر 1885میں عمل میں آیا۔ پاکستان کے بانی
قائداعظم محمد علی جناح بھی مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل اس جماعت میں شامل
رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کئی شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی
ہیں جن میں موہن داس گاندھی، جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، خان
عبدالغفار خان اور ابو الکلام آزادزیادہ معروف ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح
کو گاندھی کی ہندوپرست پالیسیوں نے کانگریس چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
ہندوستان کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحاریک میں مسلمان اور ہندو
دونوں شامل تھے مگر جواہر لال نہرو بنیادی طور پر ایک ہندو لیڈر تھے یہ ہی
وجہ ہے کہ 1928 کی نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا
بلکہ مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اسی وجہ سے ہندوستان
کے مسلمان ان کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ہندومسلم مسئلے کے حل کےلیے قائد اعظم
محمد علی جناح نے مارچ 1929کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں
نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے چودہ نکات پیش کیے جو کہ تحریک پاکستان میں
سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں کانگریس کی
حکومت بنی اور نہرو اسکے وزیراعظم جو 1964 تک رہے۔ پاکستان بننے کے فورا
بعد کانگریس کی حکومت نے پاکستان کے حصے کی رقم روک لی، کچھ زمینی حصے جو
پاکستان میں آنے تھے ان پر قبضہ کرلیا اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے مسلے پر
نہرو نے اقوام متحدہ کے زریعے دھوکہ بازی کی اور آج بھی کشمیری مسلمان
آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف آنے والے دریاوں کا پانی بھی
کانگریس حکومتوں نے ہی روکا ہے۔ 1965 کی جنگ میں بھی کانگریس ہی کی حکومت
تھی۔ اندراگاندھی جو نہرو کی بیٹی تھی اور کانگریس حکومت کی وزیر اعظم 1971
میں پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش بنوانے میں اس کا ہاتھ تھا۔ دسمبر 1992
میں جب انتہا پسند ہندوں نے بابری مسجد کو شہید کیا جب بھی مرکز اور صوبہ
اترپردیش میں کانگریس ہی کی حکومت تھی۔ آزادی کے بعد سے ابتک ہندوستان میں
زیادہ تر کانگریس ہی کی حکومت رہی ہے اورلاتعداد ہندو مسلم فسادات ہوچکے
ہیں جس میں زیادہ تر مسلمانوں کاجانی اور معاشی نقصان ہوا ہے۔ کانگریس یا
نہرو خاندان کی سیاست جواہر لال نہرو کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ
ان کے مرنے کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی اور نواسا راجیو گاندھی
ہندوستان کے وزیراعظم بنے اور آج بھی انہیں کا خاندان ہندوستان کی سیاست پر
حاوی ہے ۔ آج بھی کانگریس کی ہی حکومت ہے مگر ہندوانتہاپسندوں کو مسلمانوں
کے خلاف سب کچھ کرنے کی آزادی ہے۔ حال ہی میں لاین آف کنٹرول پر ہندوستانی
فوجیوں نے خلاف ورزی کرکے ہمارئے فوجیوں کو شہید کیا اور بعد میں اپنے فوجی
کے مرنے اور گلا کاٹنے کا افسانہ گڑھ دیا۔
ہندوستانی بچھوں کا ذکر تو ہوگیا اب کچھ ذکر اپنوں کا۔ ہمارا میڈیا پاک
بھارت تعلقات کے سلسلے میں جو کردار ادا کررہا ہے اسکے بدلے میں اگر آپ
ہندوستانی میڈیا کو دیکھیں تو آپکو اپنے میڈیا کا کردار عجیب لگے گا،
ہندوستانی میڈیا اول تو پاکستان کی خبروں کو اہمیت ہی نہیں دیتا اور عام
طور پر پاکستان کی جو خبریں دیتا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو
بدنام کرنا ہوتا ہے۔ ہماری سول سوسایٹی ، ادیب، شاعر، اداکارجس طرح
ہندوستان سے دوستی کے لیے کوشش کرتے ہیں کیا ہندوستان کی طرف سے بھی اس طرح
کا جواب ان کو ملتا ہے یقینا نہیں، ہمارئے اکثر سیاست دان ہندوستان کے
خیرسگالی دورئے کرتے رہتے ہیں کیا ہندوستانی سیاست دان بھی ایسا کرتے ہیں ،
اس بات کا جواب بھی نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ
ہندوستان کبھی بھی اچھا ہمسایہ نہ بن سکا ہے۔ سکم، بھوٹان، نیپال اور سری
لنکا کے ساتھ ہندوستان نے جو کچھ کیا وہ ہمارئے سامنے ہے، چین کے ساتھ بھی
وہ وہی سلوک کرنا چاہتا تھا جو ہمارے ساتھ کرتا رہا ہے لیکن1962 کی ہندچین
جنگ کے بعد اسکو سمجھ آگیا کہ چین اسکے لیے آسان نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ
ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ہندوستان سے تعلقات خراب کیے جایں مگر جو قدم بھی
تعلقات کے لیے اٹھایا جائے وہ بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے،۔ ہندوستان سے
تجارت کرنا کوئی بری بات نہیں مگر اس سے پہلے پاکستان کو اپنے آپ کو معاشی
اور سیاسی طور پر مضبوط کرنا ہوگا ورنہ کمزوروں سے دوستی نہیں کی جاتی بلکہ
اپنے مفادات پورئے کیے جاتے ہیں۔ اب آپ چاھیں تو بچھوں کے دیس میں اپنا
کمزور ہاتھ دیدیں یقینا آپ اپنے انجام سے واقف ہونگے۔ |