گزرتا وقت جہاں اپنے ساتھ جدت
اور سہولت کی بے پناہ نعمتیں لیکر آیا ساتھ ہی کئی پرانی روایات اور رسومات
کا جنازہ نکالنے میں بھی سر فہرست رہا۔ٹیکنالوجی نے نہ صرف انسان کی زندگی
سنوار دی بلکہ اس کے عقل و فہم کو اجاگر کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔مٹ
جانے والی روایات میں تفریح کے پرانے ذرائع بھی شامل ہیں۔مگر کسی نہ کسی
طریقے سے ماضی کی روایات کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔آہستہ آہستہ ختم ہونے
والی چیزوں میں ایک بندر تماشہ ہے ۔ جس کو ماضی میں خاصی اہمیت حاصل تھی ۔بچے
بڑے سب اس کے گر ویدہ تھے مگر جدت وقت نے اس کو منظر عام سے ایسے غائب کر
دیا جیسے موجودہ حکومت نے بجلی کو۔ کہ اس کی مثال تو دی جا سکتی ہے مگر اس
کو دیکھا یا محسوس نہیں کیا جاسکتا۔بندر تماشے کو اگر واقعی غور سے یاد کیا
جایا تو اس کی کئی مثالیں آج بھی پاکستان میں اپنی جدید اشکال میں دیکھی جا
سکتی ہیں۔بندر تماشے میں ایک ہی مداری اپنی ڈگڈگی سے بندر کو اپنے حکم کے
تابع کرتا ہے۔ڈگڈگی سیاسی نعروں اور وعدوں کی طرح بجتی رہتی ہے اور بندر
اچھلتاور ناچتا رہتا ہے۔تماشے میں بندر ناچ ناچ کر اپنی اداوں اور معصومیت
کے بل پر کچھ مال جمع کرتاہے۔جوکہ عوام اس بندر کو اس کی کارکردگی کے عوض
دیتی ہے۔مگر ڈگڈگی بجانے والاوہ سب کچھ اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔بندرکو اس میں
سے کتنا ملتا ہو گا اس سے سب ہی باخبر ہیں۔ اپناسب کچھ مالک کے حوالے کر کے
خود عوام کی جانب ہاتھ ہلاتے ہوئے بندر اس سوچ سے عاری نظر آتاہے کہ اس کی
محنت اور اس کی بے وقوفی کوا ستعمال کرکے کسی نے اپنے ذاتی مقاصد حاصل کر
لیے ہیں۔محنت اس کی مال مداری کا ۔جیسے ووٹ اور ٹیکس عوام کا اورمقاصد
سیاستدان کے ۔ایسا ہی یہاں ہوتا ہے اور ایساہی ہوتا آیا ہے۔ میری مراد ہرگز
یہ نہیں کہ ہمارے لیڈرنما ءسیاست دان مداری ہیں۔مگر مجھ جیسی تما م عوام کا
رویہ ضرور اس بندر کی مانند ہے جس نے اپنا سب کچھ مداری کے حوالے کر کے خود
پھر اسی مداری کے اشاروں پر دوبارہ ناچنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ملک میں اس کا
عملی مظاہرہ ہمہ وقت دیکھنے کو ملتا آیا ہے۔بندر کی طرح ایک وقت کا کھانا
ملتا ہے،اور اگلے دو وقت کا کھانا کھانے کی فکر لگی ہوتی ہے۔مگر ڈگڈگی بجتے
ہی ہم ناچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔اس ملک کے سیاستدان پاکستان بننے سے
آج تک ڈگڈگی بجاتے نظر آرہے ہیں۔کبھی اس ملک میں عوام کے نام پر سیاست کی
گئی اور عوام کے جذبات کو ابھار کر اپنے مقاصد حاصل کرلیے گئے ۔کبھی کشمیر
کے نام پر پیسہ اورجذبات عوام کے لگاکر اپنے کرسی پکی کی گئی ۔اس ملک میں
ایسے ایسے لیڈر نماءسیاستدان گزرے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد کی غرض سے
اس ملک کی سر زمین کو ٹکڑوں میں بانٹ لینے کا فیصلہ تک کر لیا ۔اور اپنے
مفادات حاصل کر کے خود کو مظلوم بھی ظاہر کر لیا۔ایک وقت تک سیاستدان فوج
کے نام پر سیاست کرتے رہے۔عدلیہ کو سامنے رکھ کر بھی ووٹ مانگے گئے۔مگر جب
عدلیہ آزاد ہوئی تو حکم ماننے سے انکار کر دیا۔کبھی کارگل کے نام پر سیاست
کبھی قرض اترنے کے نام پر لوٹ کھسوٹ۔ موجودہ سیاست دہشت گردی کی جنگ کے نام
پر کی جا رہی ہے۔اورا ٓئیندہ انتخابات میں سیاست کا سہرہ صوبوں کی تشکیل
اور ایک دوسرے کے کیس معاف کرانے کے سر جاتا ہے۔ملک کے تقریبا تمام تر بڑے
سیاستدان یا تو خود کیسوں کی زد میں ہیں یا ان کے بچے بھائی اس کا شکار
ہیں۔اور یہی کیس ان کے الحاق کی ایک وجہ بنتے بھی نظر آرہے ہیں۔ اب جب کہ
جنوبی صوبہ ہزارہ صوبہ اور یہاں تک کہ ہر ایک ضلع کو صوبہ بنانے ک بات کی
جارہی ہے تو جو حلقہ بندیاں پہلے سے بنی ہوئی ہیں ان کو توڑ کر نئی بنیاد
رکھنا ایک مذاق کے مترادف ہے۔جہاں اصول ہونے کے باوجود کوئی عمل نہ
کراسکے۔جہان روز کراچی میں درجنوں لوگ مر رہے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہ
ہے۔ ان کی محرومی کا خیال کسی کو نہ ہے ۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کے قتل پر سب نے
آنکھیں بند کر لیں۔ڈرون پر سب منہ چھپا کر بیٹھ گئے۔جہاں بھوک اور بے
روزگاری کے ساتھ ساتھ دہشت گردی سے آئے دن ذلیل ہوتی عوام کی فکر کسی کو نہ
ہے۔جہاں ملک کے لیڈر قتل ہوجائیں اور ان کے قاتل گرفتار نہ ہوسکیں۔وہ
اسلامی ملک جس میں لوگ مسجدوں میں جانے سے ڈریں۔وہ زرعی ملک جس میں چینی
چاول تک درآمد کیا جاتا ہو۔وہ ملک جس میں آٹھ سال سے بجلی نہ ہو اور کوئی
بڑا منصوبہ اس کے حل کے لیے نہ دیکھا گیا ہو۔وہ ملک جس میں ٹرینیں کباڑ
خانے کی زینت بن گئی ہوں۔وہ ملک جس کے تین ماہ میں دو وزیر اعظم سزا
ہوجائیں۔وہ ملک جس میں روز اربوں کی کرپشن کی بات خود ان کے اپنے لوگ کرتے
ہوں۔وہ ملک جس میں کئی لوگ جعل سازی کے ذریعے سے منتخب ہوجائیں۔مگر انکو کو
ئی نہ روک سکے۔وہ ملک جس میں گیس کے مسلے کا حل نہ ہو۔جس میں عوام بھوک سے
مر رہی ہو۔وہ ملک جس کا سارا حساب کتاب ہوا میں ہوتا نظر آئے۔جس میں حج تک
کی وزارت میں کرپشن کر لی گئی ہو۔اگر اس ملک میں کسی صوبے کے قیام کی بات
اس لیے کی جا رہی ہو کہ اس علاقے کے لوگوں کا احساس محرومی ختم کیا جاسکے
تو میرے نزدیک یہ ایک مذاق سے ذیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔جس ملک میں بجلی کا
بل دینے کے لیے حکومت کے پا س پیسے نہ ہوں اور وہ ملک نئے صوبوں پر اخراجات
کی بات کرے تو میرے نزدیک ایسا کرنے والوں کو کئی بار سوچ لینا چاہیے کہ
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایک بارپھر بہت بڑی غلطی کر جائیں اور ایک ایسی راہ
پر نکل جائیںجس سے واپسی ہمارے لیے ناممکن ہو۔کہیں انجام پھراس بندر تماشے
جیسا نہ ہو کہ عوام بندرکی طرح سیاسی نعروں اور وعدوں پر ناچتی رہے اور جب
اس سے کچھ حاصل ہونے لگے تو وہ محض ڈگڈگی والا اپنے ساتھ لے جائے۔پھر ہم
ایک نئے تماشے کا انتظار کرتے رہیں۔سوچنا پڑے گا کہ کیا کالا باغ
ڈیم،سرائیکی صوبہ،شفاف انتخابات،آزاد عدلیہ، مضبوط عوم،روشن پاکستان ،سستا
انصاف اور ایسے ہی کئی وعدے عوام کو نچانے کے لیے ڈگڈگی کے طور پر تو نہیں
بجائے جا رہے ؟کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈگڈگی بج جائے عوام ناچ بھی لے مگر فائدہ
صرف اور صرف مداری کا ہی ہو۔کیونکہ مداری سے بندروں کو مکمل حقوق دلانے کے
لیے آج تک کوئی ایسو سی ایشن نہ بن سکی۔نہ ہی کبھی کسی نے ہائی کورٹ یا
سپریم کورٹ میں بندروں کو انصاف دلانے کے لیے کوئی رٹ دائر کی۔ویسے رٹ تو
کوئی عوام کے فائدے کے لیے بھی آج تک نہ کی گئی ہے۔مگر میری ناقص رائے یہ
کہتی ہے کہ مداریوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے اور بندروں کو ان کے حق سے
محروم کر نے کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی ایسو سی ایشن بنا رکھی ہوگی۔ملک کا
حال بھی اس سے مختلف نہ ہے۔مگر ایک بار پھر میں عرض کروں گا کہ میں تب
مداریوں کے خلاف بات کر رہا تھا اور اب میں سیاستدانوں کے متعلق لکھ رہا
ہوں لہٰذا اس حصے کو اس حصے سے الگ پڑھا اور سمجھا جائے۔عوام کو اب فیصلہ
کرنا وگا کہ خدا نے اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے جو سوچنے سمجھنے کی
صلاحیت دی ہے کیا اسے استعمال کیا جائے یا محض دگڈگی پر نا کر ایک وق کا
کھانا کھا کر دو وقت بھوکا ،پیاسا اندھیرے اور جہالت میں رہا جائے۔فیصلہ
عوام کے ہاتھ میں ہے۔مگر ڈگڈگی کس کے ہاتھ میں سب جانتے ہیں۔خدا صرف ہمیں
سمجھنے کی تو فیق دے دے کہ ڈگڈگی میں کیا ہے اور اور وہ کون اپنے کس مقصد
کے لیے بجا رہا ہے۔ |